یہ کہانی ایک ایسے وجود کی ہے جو ہمیشہ ہر شے کے اندر کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے، مگر کبھی اپنی شناخت نہیں پا سکا- یہ وجود ایک بے نام جذبہ ہے، ایک بے مقصد سفر یا پھر ایک ناقابل فہم حقیقت؛ جو کسی کے شعور میں مکمل طور پر نہیں اتر سکا-
یہ وجود، جسے ہم “سایہ” کہہ سکتے ہیں، ہر لمحے میں سانس لیتا ہے- یہ ہر محبت میں موجود ہے مگر خود محبت کا مفہوم نہیں جانتا- یہ ہر زخم میں چھپا ہے، مگر کبھی خود کو شفایاب نہیں کر پایا- یہ ہر لفظ کے پیچھے چھپی ہوئی خاموشی ہے یا شاید ہر چہرے کے پیچھے نظر آنے والا ایک بے چہرہ عکس-
سایہ اپنی کہانی کہنے کے لیے ہمیشہ سے بے تاب تھا، مگر کوئی سننے والا ہی نہیں تھا- پھر اک روز وقت کے کسی لمحے میں جب شور سے پرے ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی، اس نے خود سے سوال کیا- “میں کیا ہوں؟” گہرے سکوت میں ایک پراسرار آواز اس کے اندر سے گونجی، “شاید میں وقت ہوں، جو ہمیشہ بہتا رہتا ہے، مگر کبھی رکتا نہیں- یا شاید میں ایک خواب ہوں، جو آنکھ کھلتے ہی بھول جاتا ہے- میں ایک امید ہوں جو مایوسی کی دھند میں کھو جاتی ہے، یا پھر ایک چراغ جسے آوارہ ہواؤں کے جھونکے بجھانے پر تلے ہوئے ہوں”
یہ سوال تو اہم تھا مگر ہر جواب کے بعد وہ مزید گہرا اور پیچیدہ ہوتا چلا گیا- سائے نے محسوس کیا کہ وہ صرف اپنے سوالات کا مجموعہ ہے؛ ایک ایسا وجود جو ہمیشہ تلاش میں رہتا ہے مگر کبھی اپنی منزل نہیں پاتا- اسے محسوس ہوا کہ اس کا مقصد سوال کرنا ہی تھا، نہ کہ جواب پا لینا- شاید اس کا جواب اسی خاموشی، اسی دھند، اور اسی سوال میں ہی تھا- سایہ جانتا تھا کہ وہ ہمیشہ وہیں موجود رہتا ہے جہاں روشنی اپنا ہاتھ بڑھاتی ہے- لیکن وہ کبھی خود روشنی کا حصہ نہیں بن پاتا- یہ باعث حیرت تھا کہ وہ کسی کا منظر تو تھا، مگر خود اپنے وجود کو دیکھنے سے قاصر تھا-
ایک روز، ویرانے میں سایہ ایک اجنبی وجود سے ملا- وہ وجود بھی خود کو “بے نام” کہتا تھا، مگر اس کے اندر روشنی کی ایک چنگاری موجود تھی- سائے نے پہلی بار محسوس کیا کہ اس کے سوالوں کے جواب اس وجود کے پاس ہو سکتے ہیں۔
“تم کون ہو؟” سائے نے اس اجبنی سے پوچھا-
“میں وہ ہوں جو ہمیشہ کسی نہ کسی کو روشنی دیتا ہے، مگر خود کبھی نظر نہیں آتا۔” اجنبی وجود نے جواب دیا۔
سائے نے کہا، “تو کیا تم میرا دوسرا حصہ ہو؟ کیا تم وہ ہو جو میری حقیقت کو مکمل کر سکتا ہے؟”
اجنبی نے مسکراتے ہوئے کہا، “شاید ہم دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں- تم وہ خاموشی ہو جو سوال کرتی ہے، اور میں وہ روشنی ہوں جو جواب کی جھلک دکھاتی ہے؛ مگر تکمیل کی چاہ کبھی نہ تمہاری پوری ہوگی، اور نہ میری۔”
یہ بات سایہ کے لیے کسی گہرے دکھ سے کم نہ تھی۔ اس نے اجنبی وجود کو الوداع کہا اور اپنی بے مقصد مگر راہ پر چل پڑا۔ گلیاں، وقت، لمحے سب اس کے قدموں کے نشان جذب کرتے گئے، مگر وہ خود ہمیشہ کی طرح بے نشان چلتا رہا-
رات کے کسی پہر گہری تاریکی میں سائے نے آسمان کی طرف ستاروں کو دیکھا اور بے ساختہ مسکرا دیا- کیونکہ وہ بھی اسی کی طرح تھے—روشنی سے بھرپور مگر کسی نہ کسی خلا میں گم- سائے نے سوچا کہ شاید وہ یہی ہے- ایک ایسا راز جو ہمیشہ سوال رہے، ہمیشہ ادھورا، مگر پھر بھی اپنی خاموشی میں مکمل-

اور یوں، سایہ وہ کہانی بنا جو ہر لمحے لکھی تو جاتی ہے، مگر کبھی ختم نہیں ہوتی-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں