دس نومبر کو ملالہ یوسفزئی کی خدمات کے حوالے سے دن منایاگیا ۔مگر کوئی خاص تقریب منعقد نہیں ہوئی مگر مجھے وہ ملالہ یوسفزئی یاد آگئی جو پشاور پریس کلب میں امن تحریک کے سرگرم رکن ادریس کمال یاد آجاتے ہیں جس نے دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے ضیاالدین کی بیٹی کو پشاور پریس کلب میں تقریر کا موقع دیا اور پھر ایک چھوٹی سی سائیڈ سٹوری ہم مشرق میں چھاپتے ہیں کہ امن تحریک کے پروگرام میں ایک معصوم بچی کی تقریر سوات کے بچوں کی آواز ہے ۔ اور پھر ملالہ یوسفزئی کی جدوجہد کی کہانی شروع ہوجاتی ہے جو اب ایک مثالی جدوجہد، عزم اور انسانیت کی علامت بن چکی ہے۔ ان کی کہانی دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس میں تعلیم، حقوقِ نسواں اور امن کے پیغام کو عام کیا گیا ہے۔ سوات، خیبرپختونخوا میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہونے والی ملالہ نے کم عمری سے ہی تعلیم کے حق کے لئے آواز اٹھائی۔ یہ آواز ایک ایسی تحریک کی صورت اختیار کر گئی جس نے عالمی سطح پر نہ صرف ان کے نام کو امر کر دیا بلکہ انہیں ایک ایسی شناخت دی جو کہ نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔
ملالہ یوسفزئی کے تعلیمی سفر کا آغاز سوات کے مقامی اسکول سے ہوا۔ ان کے والد ضیاء الدین یوسفزئی خود بھی تعلیم کے زبردست حامی ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو تعلیم حاصل کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ تاہم، جب طالبان نے سوات پر کنٹرول حاصل کیا تو انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ اس خوف اور پابندیوں کے باوجود، ملالہ اور ان کے والد نے اپنے مشن کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
امن تحریک کے پروگراموں میں شرکت کرتے کرتے وہ 2009 میں، محض 11 سال کی عمر میں بی بی سی اردو کے لئے “گل مکئی” کے نام سے ایک ڈائری لکھنا شروع کرتی ہے جس میں وہ سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کے مظالم اور خوف کا تذکرہ کرتی ہے یہ ڈائری دنیا بھر میں مشہور ہوتی ہے اور ملالہ کو ایک جرات مند لڑکی کے طور پر پہچان مل جاتی۔ہے ۔ ان کی یہ تحریریں سوات میں طالبان کے قبضے اور ظلم و ستم کی سچی کہانی سناتی تھیں اور دنیا کو اس خطے کے حالات سے آگاہ کرتی تھیں۔
اکتوبر 2012 میں، ملالہ کو طالبان نے نشانہ بنایا۔ اسکول سے واپسی پر ان پر گولی چلائی گئی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئیں۔ ان کے سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ان کی حالت نازک ہو گئی اور فوری طور پر انہیں پاکستان کے ایک اسپتال میں منتقل کیا گیا۔ بعد میں ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے نہ صرف علاج حاصل کیا بلکہ نئی زندگی کا آغاز بھی کیا۔ یہ حملہ ملالہ کو خاموش کرنے کی ایک کوشش تھی، مگر ان کا حوصلہ اور عزم ان کے جسم پر لگنے والے زخموں سے کہیں زیادہ مضبوط ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنی صحت یابی کے بعد اپنی آواز کو مزید مضبوطی سے بلند کیا اور دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی۔اس کے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی زخمک ہوتی ہیں
ملالہ یوسفزئی کی یہ جدوجہد عالمی سطح پر ایک تحریک بن گئی۔ 2014 میں، ملالہ کو نوبل امن انعام سے نوازا گیا اور وہ اس اعزاز کو حاصل کرنے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت بن گئیں۔ اس اعزاز نے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک ایسا مقام دیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نوبل انعام کے بعد، ملالہ نے “ملالہ فنڈ” کے قیام کا اعلان کیا جس کا مقصد دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہے۔
ملالہ فنڈ کے تحت، مختلف ممالک میں تعلیمی پروجیکٹس کو سپورٹ فراہم کی جاتی ہے تاکہ ایسی لڑکیوں کو تعلیم کا موقع مل سکے جو معاشرتی یا معاشی مسائل کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکتیں۔ اقوام متحدہ نے ملالہ کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے 12 جولائی کو “ملالہ ڈے” کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی کے طور پر منایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کی لڑکیاں اور خواتین تعلیم کا حق رکھتی ہیں اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔
ملالہ اب بھی دنیا بھر میں اپنے مشن کے لیے سرگرم ہیں۔ وہ مختلف عالمی فورمز پر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں تقاریر کرتی ہیں اور عالمی رہنماؤں سے ملاقات کر کے انہیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی شخصیت، محنت اور قربانی نے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور انہیں تعلیم کے فروغ کے لئے ایک تحریک کی صورت میں تبدیل کیا۔ ملالہ کا عزم یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک فرد کی ہمت اور جرات دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ان کی جدوجہد نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اگر نیت اور ارادہ مضبوط ہو تو انسان بڑے سے بڑے چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے اور اپنی منزل کو پا سکتا ہے۔ ان کی کہانی ایک ایسی تحریک ہے جو ہر اس لڑکی کے لیے امید کی کرن ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے مگر مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں