سیاسی بدہضمی/نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

ہے نا مزے کی بات؟ حکومت اسلام آباد دھرنے میں لاشوں پر سیاست کرتے ہوئے ایک طرف لاشیں نہ گرانے کی بات کر رہی ہے، اور دوسری طرف اپوزیشن سینکڑوں لاشوں کی تعداد کو چودہ تک محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک طرف سیاسی پارٹی کو گند، شرپسند، اور فتنہ قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے، تو دوسری طرف حکومت پر جعلی ہونے اور اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ ہونے کے الزامات لگ رہے ہیں۔
ایک طرف حکومت پر سانحہ اسلام آباد کے زخمیوں اور لاشوں کا ڈیٹا اسپتالوں سے چرانے کا الزام لگ رہا ہے، تو دوسری طرف پی ٹی آئی اس حوالے سے کوئی مؤثر حکمت عملی پیش نہیں کر سکی اور نہ ہی قابل ذکر ڈیٹا فراہم کیا جا سکا ہے۔
ایک طرف حکومت مظاہرین پر گولی چلانے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر رفوچکر ہو گئی، تو دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت کبھی یہ کہتی ہے کہ خان صاحب نے سنگجانی میں جلسہ کرنے کا کہا تھا، اور کبھی بشریٰ بی بی پر ڈی چوک جانے کے اصرار کا الزام لگایا جاتا ہے، جس سے مخالفین کو پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی بو محسوس ہو رہی ہے۔
ایک طرف پی ڈی ایم کی حکومت ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پروپیگنڈا کرتی نظر آئی، تو اب اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر حکمرانی کر رہی ہے۔ ان کے ہر جائز و ناجائز عمل کو قبولیت مل چکی ہے۔
ایک طرف زخمیوں کے علاج کے بجائے انہیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف پی ٹی آئی ان زخمیوں کو نہتا ثابت کرنے کے لیے ویڈیو شواہد پیش کر رہی ہے۔ ایک طرف ریاست پر الزامات لگ رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت کہتی ہے کہ ہم تحریک انصاف کو ختم کرکے ہی دم لیں گے۔
ایک طرف سیاسی قیدیوں کو دہشت گرد کہہ کر قید کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف خیبر پختونخوا حکومت زخمیوں کے علاج کے لیے امدادی رقوم دینے پر بضد ہے۔
ایک طرف صرف پختونوں کو ٹارگٹ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف اس پر صوبائیت اور لسانیت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف کی قیادت اور تنظیم میں بدنظمی ہے، تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک صفحہ پر نہیں۔ حکومت سانحہ اسلام آباد پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ایک طرف پی ٹی آئی علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موروثیت سے تشبیہ دے رہی ہے، تو دوسری طرف خان صاحب نے انہیں دھرنے کے لیے ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔
کون سچا ہے اور کون جھوٹا، یہ وقت ہی بتائے گا۔
ایک طرف پی ٹی آئی کی قیادت پر دہشت گردی کے مقدمات (ایف آئی آرز) درج کی گئی ہیں، تو دوسری طرف پی ٹی آئی لاشوں اور زخمیوں کے حوالے سے وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ پنجاب، اور وزیر اعظم کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے پر غور کر رہی ہے۔
ایک طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے خلاف نفرت انگیز اور جھوٹ پر مبنی ویڈیوز چلا رہی ہیں، تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے حکومت کو نااہل ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ تیسری طرف، پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر سانحہ اسلام آباد کی فوٹیجز دکھا کر اس معاملے کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے پر غور کر رہی ہے۔
ایک طرف اسلام آباد کو کنٹینرستان بنا دیا گیا ہے، تو دوسری طرف کرم میں انسانی جانوں کے المیے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ایک دن دارالحکومت اسلام آباد میں لاشیں گرانے کے واقعے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی، تو دوسری طرف بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لاشوں کے انبار پر کسی کی نظر نہیں۔
ایک جھوٹ کا جواب مزید جھوٹ سے دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومتی بیانیہ پھیلانے کے لیے پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف پی ٹی آئی میں گروپ بندی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
ایک طرف ایف بی آر اور نیب کو اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف عدلیہ کو بھی زبردستی سیاست زدہ کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، تو دوسری طرف تحریک انصاف کی سینیٹ نشستوں پر غیر آئینی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے یہ المیے اب گنتی سے باہر ہو چکے ہیں۔جمہوریت ایک زحمت بن چکی ہے۔ مارشل لا نے قوم کی تقدیر کو عذاب بنا دیا ہے، اور اب اس کا مداوا ممکن نظر نہیں آتا۔
اب عوام نے امید لگانا چھوڑ دی ہے۔ سیاسی بخار مزید شدت اختیار کر چکا ہے، اور عوام روز بروز مزید خوار ہو رہے ہیں۔
اب ملک میں کسی کو سر اٹھانے کی جرات نہیں ہوگی۔ کسی بھی اختلافی یا گمراہ کن خبر پھیلانے کی صورت میں پانچ سال قید یا دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا یا دونوں دیے جا سکتے ہیں۔
اب حکومت کو میدان کھلا ہے۔ وہ جتنا چاہے گمراہی پھیلا سکتی ہے۔ اب کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ گولی کیوں چلائی۔
قومی حکومت کا نعرہ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔عوام نے امید لگانا چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اس ملک کو سیاسی بدہضمی ہو چکی ہے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply