لکھنے والوں کی ایک بڑی غلطی/زید محسن حفید سلطان

ہمارے ہاتھ میں قلم پکڑوانے والے اور اس میدان میں ہمیں آگے بڑھانے والے دو اہم کردار ہمارے والدین ہیں ، دونوں ہی قلم کے دھنی ہیں اور لکھت سے خوب شناسائی رکھتے ہیں ، یہ لکھنے کا سلسلہ بھی ہم نے ابو کے زور دینے پر ہی شروع کیا تھا اور اس باب میں اصلاح کا کام ہماری والدہ ہی کرتی تھیں۔ اس میدان میں جن انگلیوں کو پکڑ کر ہم پنپ رہے تھے وہ بڑے مضبوط ہاتھوں کی انگلیاں تھیں ، انہی کے سہارے ہم نے چلنا سیکھا تھا اور اب انہیں کے سہارے لکھنے کی مشق کر رہے تھے ، پھر ہم بڑے ہو گئے اور ہمارے والدین نے آہستہ آہستہ نا جانے کب ہمارا ہاتھ چھوڑ دیا اور ہم دوڑتے ہوئے بہت آگے نکل گئے ، لیکن اب بھی ہم کبھی کبھار پیچھے مڑ کر کچھ نا کچھ پوچھ لیا یا سیکھ لیا کرتے ہیں ، اور یوں تعبیر میں مزید مضبوطی پیدا کرنے کوشش کرتے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں والدہ کے ہاتھ سے لکھی ایک سفر کی روداد پڑھ رہا تھا ، ہماری طرح لمبی کرنے کے بجائے بڑی سادگی اور سلیس انداز سے سفر بڑھتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خود میں شاملِ حال کرتے ہوئے سفر نامہ مکمل ہو گیا۔ممکن ہوتا تو آپ کے ,سامنے بھی پیش کرتے لیکن:
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

اب آتے ہیں ایک غلطی کی طرف۔
اس سفر نامے کو پڑھتے ہوئے ہماری حسِ تصحیح (پروف ریڈنگ) بھی جاگ رہی تھی ، اس کے با وجود کوئی خاطر خواہ غلطیاں نہیں نکال پائے ، البتہ ایک غلطی ایسی ضرور نظر سے گزری جس پر ہمیں والدہ محترمہ کو متنبہ کرنا پڑا۔

سوچا چلتے چلتے آپ کو بھی اس طرف توجہ دلا دیں ، کیونکہ اکثر ڈائجسٹ پڑھنے والے اس غلطی کو دوہرا دیتے ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بڑے خطرناک عقیدے کی غلطی میں پڑ جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی بنتی ہے کہ عبارت میں تنوع پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ بات بھی کہہ دی جائے اور انداز بھی ذرا مختلف رہے۔

جیسے اگر کسی نے ذکر کرنا ہو رات کی نیند کا ، تو وہ یوں بھی لکھ سکتا ہے:
“پھر ہمیں نیند آئی اور ہم سو گئے”
لیکن اگر ذرا مختلف انداز اپنانا ہو تو یہ عبارت یوں لکھی گئی:
“تھکن سے سب چُور ہو چکے تھے ، اس لئے جوں ہی لیٹے نیند کی دیوی مہربان ہو گئی اور ہم سو گئے”

اب یوں تو عبارت بدل گئی ، لیکن ساتھ ایک بڑی غلطی ہو گئی اور وہ ہے “نیند کی دیوی”

دیو ، یا دیوی خالصتاً ہندو مذہبی اصطلاح ہے جو وہ اپنے معبودانِ باطلہ کیلئے استعمال کرتے ہیں ، اور دیویاں عام طور پر مؤنث ہوتی ہیں ، ہندوستان میں اردو ادب اپنی بنیادوں سے لے کر رفعتوں تک ہندو ، مسلم ادباء کے درمیان مل جل کر بڑھا ہے اور جس طرح ہر ادب پر خطے کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے ایسا ہی اثر اردو ادب پر بھی پڑا ، یوں اس میں ایسے الفاظ بھی شامل ہوئے جو خالصتاً مذہبی تھے اور کسی خاص مذہب کا سمبل تھے،لیکن ان کا کثرتِ استعمال اور زبان زدِ عام ہو جانے کی وجہ سے اصل لفظ کی طرف توجہ نہیں جاتی اور بہت سے ادیب جانے ان جانے میں اپنی تحریروں کا حصہ بنا لیتے ہیں ۔

نیند کی دیوی کا مطلب (بزعمِ ہندو مذہب) وہ معبود جو انسان پر مہربانی کرتا ہے اور اس کو نیند جیسی نعمت سے نوازتا / نوازتی ہے۔ اسی طرح لفظ “قسمت کی دیوی” بھی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اس سے بھی اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ ایک مسلمان کے سیدھے سے عقیدے مطابق تمام اعمال کا کرنے والا اور ان کا خالق و مالکِ حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ، جس کی مشیئت اور منشا کے بغیر اتنی بڑی دنیا میں لگے ان گنت لا تعداد درختوں کے بے تحاشہ پتوں میں سے ایک پتا بھی ٹوٹ کر نہیں گرتا چہ جائیکہ قسمت جیسی بڑی چیز کا یا نیند جیسی عظیم نعمت کا کسی اور کے ہاتھ میں ہونا!

یہ تو ہوا پچھلی عبارت میں غلطی کا ہونا ، لیکن سوال یہ اٹھ سکتا ہے کہ اگر عبارت کو یوں نہ لکھیں تو پھر کس طرح لکھا جائے کہ ذرا انداز بھی ادیبانہ ہو جائے اور بات بھی لکھ دی جائے ، تو عرض ہے کہ یوں تو آپ ہم سے بڑے ہیں اور آپ بہتر سے بہترین عبادتیں پیش کر سکتے ہیں ، البتہ چند ایک عبادتیں بطورِ مثال کے ہم بھی پیش کئے دیتے ہیں ، ذرا دیکھئے گا:

آپ کہہ لیں کہ:
“پلک جھپکتے میں ہمیں نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔”

یا یوں لکھ لیں کہ:
“تاریک رات کے اس پہر میں ہم بھی نیند کی تاریک وادیوں میں محوِ سفر ہونا چاہتے تھے/ہو گئے۔”

یوں بھی فرما سکتے ہیں کہ:
“چمکتے چاند اور دمکتے ستاروں کی محفل سے ہم آنکھیں موند کر عالمِ خواب کی راہ اپنا رہے تھے ۔”

julia rana solicitors london

مزید بھی اس طرح کی تشبیہات اور استعاروں سے بھرپور عبارتیں ، اپنے قرب و جوار کے احوال کو دیکھتے ہوئے اور تحریر کے سیاق پر نظر رکھتے ہوئے پیش کی جا سکتی ہیں۔۔۔جن میں عقیدے کی غلطیاں نہ ہوں!

Facebook Comments

زید محسن حفید سلطان
ایک ادنی سا لکھاری جو ہمیشہ اچھا لکھنے کی کوشش کرتا ہے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply