اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10دسمبر1949 کو فرانس کے شہر پیرس میں انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کیا، اسے اس ضمن پہلا عالمی اعلان سمجھا جاتا ہے۔
اس منشور تک پہنچنے کیلئے سفر کا آغاز 1215ء جون میں ہوا جب برطانیہ میں بادشاہ کے سامنےکسان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہوئے اور بالآخر بادشاہ کو ان کیساتھ امن معاہدہ کرنا پڑا جس میں انکے بہت سے بنیادی حقوق تسلیم کئے گئے۔ اس سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال بعد یہ حقوق کی جدوجہد فرانس میں رنگ لائی اور وہاں 1789ء میں 17 دفعات پر مشتمل انسانی حقوق کا قانون منظور ہوا، اسی دور میں 1791ء میں امریکہ میں بل آف رائٹس کانگریس میں منظور ہوا۔
یہاں سے 1949 انسانی حقوق کے عالمی منشور تک کا تقریباً ڈیڈھ سو سال کا سفر نہائت کٹھن اور پر آشوب رہا، اس دوران دنیا بھر میں جنگیں ہوئیں نو آبادیاتی نظام قائم ہوئے آزادی کی تحاریک چلیں ، دو عالمی جنگیں ہوئیں کئی شہر تباہ و برباد ہوئے لاکھوں لوگ اپنی جانوں سے گئے تب کہیں اقوام عالم اس نتیجے پر پہنچیں کہ ہر انسان کو اسکے بنیادی حقوق ملنا چاہئیں۔
دوسری جانب اس ساری جدوجہد سے بہت پہلے 632ء میں یعنی 10ھ میں نبی آخر الزماں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حج الوداع ارشاد فرمایا یہ آج کی تحریر شدہ تاریخ کا سب سے قدیم جامع انسانی حقوق کا منشور ہے، یہ کم و بیش پچاس نقاط پر مشتمل جامع ترین منشور ہے جس سے بڑھ کر آج تک کوئی قانون ، بل یا منشور پیش نہیں کیا جا سکا۔
دنیا میں آج خواتین کے حقوق کا بہت شور ہے اس وقت حاصل شدہ حقوق دنیا میں خواتین کو گذشتہ ایک دو صدی میں ملے ہیں خواتین کو ووٹ کا حق ملنا تو ابھی زیادہ پرانی بات نہیں جبکہ اسلام نے خواتین کو جائیداد رکھنے کا حق، وراثت کا حق ، حق مشاورت اور گواہی کا حق کوئی چودہ سو سال پہلے دے دیا تھا۔
اسلام کا انسانی حقوق کا منشور آج کے عالمی منشور سے دو اعتبار سے منفرد اور جدا ہے، اوّل عالمی منشور میں حقوق کو بیان کیا گیاہے اور حکومت و ریاست کو ان حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ اسلام نے افراد اور معاشرہ کو فرائض کی ادائیگی کی تعلیم دی ہے یوں حقوق کے حصول سے نکال کر حقوق کی ادائیگی پر افراد اور معاشرہ کو کاربند کردیا ہے۔ دوم ، عالمی منشور میں حکومت اور ریاست حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی پابند ہیں لیکن اگر یہی حقوق غصب کرنے لگیں تو پھر انکی گوشمالی کیلئے عالمی عدالت انصاف کا نظام دیا ہے جو طاقتور کے سامنے بے بس نظر آتا ہے جبکہ اسلام نے حکومت و ریاست کے دباو سے آزاد نظام عدل کا تصور دیا ہے اور ان سب سے اوپر ایک آفاقی آخرت کا تصور پیش کیا جہاں کسی غلطی دھونس دھاندلی زیادتی کا امکان موجود نہیں، یہ نظام معاشرہ کی اخلاقی تربیت کا ایک خودکار نظام ہے۔۔۔۔۔۔اب یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پھر اسلامی ممالک میں یہ تصور آخرت بھی معاشرہ کو انسانی حقوق کی پامالی سے کیوں نہیں روک پایا؟ تو جواب بہت سادہ ہے “ تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر”
مسلۂ کشمیر
مسلۂ کشمیر پاکستان کی آزادی کیساتھ ہی پیدا ہوا، آزادی کے وقت جو اصول وضع کیے گئے تھے ان میں یہ تھا کہ آزاد ریاستوں کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے حکمران کریں گے اس اصول کے تحت ہمیں ریاست بہاولپور ریاست قلات اور ریاست سوات سمیت کئی ریاستیں ملیں، ریاست کشمیر کے حکمران ڈوگرہ راجہ نے ریاست کے بھارت کیساتھ الحاق کا اعلان کر دیا، بھارت نے 27 اکتوبر 1947 کو اپنی فوج کشمیر میں داخل کر دی، ریاست کی مسلمان اکثریت نے اس الحاق کو تسلیم نہ کیا اور ڈوگرہ فوج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی، قبائلی مسلمانوں نے ان کا ساتھ دیا اور کشمیر کا ایک بڑا علاقہ آزاد کروا لیا۔
یہ جنگ جاری تھی کہ بھارت اس مسلۂ کو لے کر اقوام متحدہ چلا گیا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی، یہاں قراردادوں کے زریعے طے پایا کہ ریاست کشمیر کے الحاق کا فیصلہ یہاں کے عوام ہی کریں گے اس مقصد کیلئے انہیں استصواب رائے حاصل ہوگا۔
بھارت اپنے اس اقرار سے مُکر گیا اور آج تک ان قراردادوں پر عملدرامد سے انکاری ہے۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے کر یہاں چھ لاکھ سے زائد مسلح فوج جمع کر دی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم ،بد ترین جسمانی اور جنسی تشدد، نوجوانوں کے اغواہ اور قتل و غارت مسلسل جاری ہے۔ حال ہی میں کشمیر کا ایک متنازعہ علاقہ کا اسپیشل اسٹیٹس ختم کر کے اسے بھارت کا مستقل حصہ قرار دے دیا جس پر کشمیریوں کے شدید ردعمل کے باعث مسلسل کرفیو نافذ کر رکھا ہے، وہاں تمام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی جاری ہے۔
تنازعات کے حل کیلئے دو طریقے استعمال ہوتے ہیں، ایک طاقت جنگ اور تشدد کا رستہ، دوسرا گفتگو اور پرامن جدوجہد کا رستہ۔ مسلۂ کشمیر کے حل کیلئے بھی عوام کی ترجیح یہی ہے کہ ہماری بہادر مسلح افواج حملہ کریں اور مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروا لیں اسکے لئے ہمارے سامنے مشرقی پاکستان کی صورت میں ایک ماڈل بھی موجود ہے جہاں بھارتی فوج وہاں کے مقامی مسلح گروہ مکتی باہنی کے ہمراہ حملہ آور ہوئی اور 3 دسمبر کو شروع کی ہوئی جنگ 16 دسمبر کو تیرہ روز میں ہتھیار ڈالنے کی مرکزی تقریب کیساتھ اختتام کو پہنچی، لیکن آج یہ ممکن نظر نہیں آتا، کیونکہ سرحدوں اور جغرافیہ کی تبدیلی کے لئے اب جنگ دنیا میں قابل قبول نہیں خصوصا ایسے ملک کی طرف سے جو ہر لحاظ سے کمزور ملک ہے، پھر مقبوضہ کشمیر اور مشرقی پاکستان کے حالات میں بہت فرق ہے، وہاں بہت بڑی فوج بے پناہ اسلحہ اور فضائی جنگ کیلئے ہوائی اڈے اور ساز و سامان موجود ہے۔ ایک ماڈل مقامی اور غیر مقامی مجاھدین کی گوریلا کاروائیاں ہیں لیکن ماضی میں کی گئی کوششوں کے بعد اب ہمارے خطے کی اسکورٹی صورتحال کے باعث یہ بھی ممکن نہیں رہا۔
لہذا دوسرا امن اور گفتگو سے دنیا کو قائل کرنے کا راستہ ہی بچتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انفرادی اجتماعی، حکومتی اور ریاستی سطح پر کشمیریوں کیلئے کیا کیا جائے ؟
ریاست کا بیانیہ تو بڑا واضع اور مستقل ہونا چاہیئے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے یہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دیا جائے۔ باقی انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہم آج تک ریلیاں نکالتے، جلسے کرتے اور پتلے جلاتے رہے ہیں ہماری آواز ہمارے اخبارات میں بیانات اور تصاویر کی شکل میں چھپ کر ختم ہو جاتی تھی لیکن اب ہم جدید ٹیکنالوجی کے باعث دنیا بھر سے جڑے ہوئے ہیں ہم سوشل میڈیا کی وساطت سے بھارت میں مثبت سوچنے والوں انسانی حقوق کو تسلیم کرنے والوں کو اپنے بیانیے سے جوڑ سکتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کی پامالی کی بنیاد پر دنیا بھر میں کشمیریوں کی حالت زار کو پہنچا سکتے ہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان ، کشمیریوں سے رشتہ کیا، کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، یہ سب ہمارے نعرے ہیں دنیا کو ان سے کوئی سروکار نہیں دنیا کو پاکستان اور بھارت کے تنازعہ سے کوئی دلچسپی نہیں ان کی توجہ صرف اسی صورت میں ادھر مبذول کروائی جاسکتی ہے جب ہم اس مسلۂ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مسلۂ کے طور پر پیش کریں گے۔
حکومت کوئی بھی ہو کیسے بھی آئی ہو یا لائی گئی ہو اسے مسلۂ کشمیر کو پوری شدت کیساتھ اپنی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ بنانا پڑے گا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہی ہماری حکومت کی ترجیحی کشمیر پالیسی ہونا چاہیئے۔
حکومت کتنی شدت سے کشمیر کا مسلۂ اٹھائے ؟ تو اسکا جواب ہے، جتنی شدت سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنانے کے موقع پر دنیا میں پراپیگنڈا کیا، ان کے وزیراعظم نردرا مودی نے چالیس سے زیادہ ممالک کے دورے کیے کئی ممالک کے سربراہان کو بھارت بلایا سب کیساتھ تجارتی معاہدے کئے اور کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف ان کو بتایا، بھارتی وزیر خارجہ نے دنیا بھر کا طوفانی دورہ کیا اور تمام وسائل استعمال کر کے ڈیڈھ سو سے زائد اپنے ہم منصبوں کیساتھ روابط کئے اور بھارتی موقف ان تک پہنچایا۔ جبکہ حکومت پاکستان اس عرصہ میں سفارتی سطح پر ناکام دیکھائی دی اور سلامتی کونسل میں اپنی قرارداد پیش کرنے کیلئے کم سے کم سولہ ممالک کی حمائت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی یہ نہائت شرمناک صورتحال ہے۔
آج بھارت کا موقف اور مقدمہ جتنا کمزور ہے تاریخ میں کبھی اتنا کمزور نہیں تھا، انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوں کیساتھ وادی میں کئی مہینوں سے کرفیو نے اس ساری وادی کو جیل میں بدل کر زندگی معطل کر رکھی ہے۔ حتی کہ حریت قیادت کیساتھ مقبوضہ کشمیر کے تین سابق وزراء اعلی تک کو نظر بند کر رکھا ہے اگر آج بھی ہم دنیا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کا اصل چہرہ نہ دیکھا سکے تو پھر کب ممکن ہوگا ؟

ہمیں اب یاد رکھنا ہے کہ کشمیر کی آزادی کی منزل ٹینک اور توپ سے نہیں ملے گی، کشمیر کی آزادی کی منزل انسانی حقوق کی جدوجہد سے ملے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں