پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ ہسپتال قبرستان سے بھی زیادہ ہولناک جگہ کا نام ہے ، کیونکہ قبرستان میں انسان سیدھا پڑا ہوتا ہے جو مٹی کی تہہ میں گم ہو جاتا ہے لیکن ہسپتال میں انسان تڑپتا ہے ، سسکتا ہے ، کراہتا ہے اور عجیب کیفیات سے گزرتا ہے ، قبرستان جا کر یہ عبرت ملتی ہے کہ:
کھا گئی زمیں آسمان کیسے کیسے
لیکن ہسپتال یہ بتاتے ہیں کہ یہ کھانے کا عمل کتنا تکلیف دہ اور درد ناک ہوا کرتا ہے ، طرح طرح کی بیماریاں جو نہ جینے دیں نہ مرنے دیں اور اس پر مستزاد عجیب و غریب قسم کے تشخیصی عوامل جن کو زبان پر لانے سے بھی انسان دہل جائے اور پھر علاج معالجوں کا الگ سلسلہ جو نہ سمجھ آئیں نہ سمجھائے جائیں۔
آج ایک ہفتہ ہوا ہسپتال میں دن کا بہت سا وقت گزرتا ہے ، والد صاحب بیمار تھے تو ایڈمٹ تھے ، اب کافی بہتر ہو گئے ہیں جلد چھٹی کا امکان ہے ، ان شاء اللہ!
یوں تو ہسپتال میں آنے کے بعد انسان کیلئے باقی دنیا دھندلکی (بِلر) ہو جاتی ہے ، لیکن الحمد للّہ ابو کی حالت ایسی نہ تھی کہ بہت زیادہ پریشان کرتی تو خود ہوش میں تھا اس لئے اپنے ارد گرد کافی مشاہدہ رہا،لیکن یہ مشاہدہ بڑا تکلیف دہ ہے۔
اس میں بہت سی چیزیں ہیں جو انسان کو دہلا سکتی ہے۔ان میں سے چار قسم کے احوال ذکر کرتا ہوں ۔
• جس میں سب سے پہلے تو مریضوں کی حالت ہوتی ہے کہ جس کو بیان کرنا شاید بہت مشکل امر ہے ، سول ہسپتال ہے ، خود طرح طرح کے امراض اور مریضوں سے بھرا ہوا ہے تو آس پاس کی ہوا بھی مرض آلود ہے ، ایک طرف DOW ہے ، سامنے Lady difren ہسپتال کی عمارت ہے اور دوسرے بازو میں Burns Garden کا ہسپتال ایریا ہے۔ہر طرف مریض ہی مریض نظر آتے ہیں ، آہ و بکا کی آوازوں کا سلسلہ ہوتا ہے ، تڑپنے اور سسکنے کے منظر نامے ہوتے ہیں اور یونہی تڑپتے ، سسکتے سب کی آنکھوں کے سامنے ، ڈاکٹروں کی موجودگی میں ، بال بچوں کے ہاتھوں میں کوئی جان جانِ آفریں کے سپرد کردے تو کچھ دیر کیلئے سارے وارڈ میں خاموشی ہو جاتی ہے ، دوسرے مریضوں کی حالتیں خراب ہو جاتی ہیں اور ایک عجیب سماں بندھ جاتا ہے۔
• اس کے بعد آتی ہے مریض کے ساتھ والوں کی حالت ، اللہ کی قسم میں نے لوگوں کو ڈاکٹروں اور عملے کے سامنے روتے اور ہاتھ جوڑتے دیکھا ہے کہ ہم بخوشی تو یہاں نہیں آئے ، ہمارے مریض کا کچھ کیجئے ، ڈاکٹر مریض کے سامنے کچھ بتانے لگیں تو یہ ساتھ والے آگے ہو کر الگ سے معاملہ پوچھتے ہیں ، کچھ دیر کیلئے وارڈ سے باہر جاتے ہیں ، ایک سائیڈ پر بینچ پر بیٹھتے ہیں ، ڈاکٹرز کی باتوں پر غور کرتے ہیں ، آنسو بہاتے ہیں ، خوب روتے ہیں بالآخر آنکھیں سوکھ جاتی ہیں تو واپس مریض کے پاس آتے ہیں ، ڈاکٹر کی خطرناک باتوں میں سے سب سے ہلکی بات مریض کو بتاتے ہیں ، باقی دل کے کسی خانے میں رکھ کر مریض کو جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں اور دنیا جہاں سے منقطع ہو کر اپنے مریض کی خدمت میں جُت جاتے ہیں ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان ساتھ والوں کی حالت مریض سے زیادہ خراب ہوتی ہے لیکن یہ خود کو کھینچتے ہیں کہ ایک کے ساتھ دوسرے کا بیمار ہونا پورے خاندان کو ہلا سکتا ہے۔
یہ دو تو وہ حالتیں ہیں جن کو ہم محسوس کرتے ہیں ، اور جن کا مداوا ہو ہی جاتا ہے ، جن کی دوا سے شفا ممکن ہے لیکن اگلے دو مرض ایسے ہیں جو حد سے زیادہ قابلِ افسوس ہیں۔۔۔جن کی دوا اس دوا سے زیادہ ضروری ہے جو وہاں دی جا رہی ہے ، اور وہ دونوں روحانی امراض ہیں ، وہ دونوں ایمان کے امراض ہیں۔
• نمازوں سے لا پرواہی۔۔۔۔
کل وارڈ بوائے کینولا تبدیل کرنے آیا تو ابو نماز پڑھ رہے تھے ، تھوڑی دیر رکا پھر کہنے لگا کہ:
“پورے وارڈ میں چوبیس مریض ہیں اور مجھے یہاں ڈیوٹی پر ایک ہفتہ ہونے کو ہے ، مولوی ایک ہفتہ ہو گیا ، پہلا مریض دیکھ رہا ہوں جو نماز پڑھ رہا ہے” (الحمد للّہ ثم الحمد للّہ)
پٹھان تھا خود نمازی تھا تو اس بات کا احساس بھی تھا اور قدردانی بھی ، سچ پوچھئے تو اس نے صرف مریضوں کا کہا ہے ، ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ ساتھ والے بھی نماز نہیں پڑھتے۔کہتے ہیں کہ مشکل میں لوگوں کو اللہ کی یاد آ ہی جاتی ہے لیکن یہاں تو مشکل میں بھی لوگ صرف اللہ کا نام لینے اور دعا کرنے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں ، ساتھ قریب ہی ہسپتال کی مسجد ہے نمازیوں کی تعداد لمحہ فکریہ بنی ہوئی ہے!
• پردہ۔
اگر مجھے مزاح نگاری کرنی ہوتی یا یہ کوئی فکاہیہ تحریر ہوتی تو یوں چٹکلا چھوڑ دیتا کہ:
“مریضوں اور ان کے ساتھ والوں پر ہسپتال والوں کا یہ احسان بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا خوب سامان مہیا کر رکھا ہے”
لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب سے اہم نقطہ اور اخلاقیات کے جنازے تعلیمی نظام میں فرنگیت کی آمیزش اور تعلیماتِ دینیہ سے منہ پھیرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک تو زیادہ تر عملہ (خاص کر ڈاکٹرز ، نرسز) خواتین پر مشتمل ہے اور پھر ان خواتین کے ہاں پردے نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ، ٹائٹ جینز ، چھوٹی قمیضیں ، اوپر سے میک اپ کا بے حد اہتمام اور ساتھ ہی بے باکی اور گفتگو کا شوخ پن یعنی ایک مسلمان عورت کیلئے جن جن چیزوں کے اہتمام کے احکامات ہیں انہیں چیزوں سے احتراز اور انہیں باتوں سے عدمِ التفات ، یہ تو اللہ بھلا کرے انتظامیہ کا کہ گاؤن لازمی کر رکھا ہے ورنہ اکثر بہن بیٹیاں تو اس سے بھی بھاگتی نظر آتی ہیں۔
ہر طرف ، ہر جگہ ڈاکٹرز کا یہی حال ہے ، اور کہیں کہیں تو اس سے بھی برا جو شاید نا قابلِ بیان ہی سمجھا جائے۔اس کے باوجود ان کا ہم پر احسان ہے اور اسی لئے ہم ان کیلئے شکر گزار بھی ہیں ، دعا گو بھی ہیں کہ رب انہیں دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔
آمین
اس کے علاؤہ کرنے کو باتیں ، بتانے کو احوال ، لکھنے کو رودادیں اور سنانے کو داستانیں مزید بھی ہیں لیکن فی الحال کیلئے اتنا ہی ، بس روحانی اور جسمانی امراض میں مبتلا تمام مریضوں کو دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں