ہم قصوروار ہیں یا باکردار؟-عارف خٹک

کردار کا کیا بتاؤں دوستو، بس بدکرداری ہی بدکرداری ہے۔ اس پر کچھ ناہنجار ہماری نیک نامی کا پوچھ کر ہمیں الٹا شرمندہ کرتے رہتے ہیں۔
دادی نے جب بھی کوسنے دیئے تو ہمارے دادا کو دیئے کہ پیدائش پر انھوں نے ہمیں اپنی تھوک چٹائی تھی۔ کہتی ہیں کہ وہی دادا جیسے ہو، نہ مزاج کا پتہ کہ کب بدل جائے، نہ فیصلوں کا اور نہ شادیوں کا۔ اس پر ہماری پڑھی لکھی مڈل پاس اماں نے کہا کہ اسلام آباد کی سیاست، کراچی کے موسم، اور لاہور کی طوائف کے مزاج کا پتہ نہیں لگتا کہ کب بدل جائے اور ہمارے صاحبزادے میں یہ تینوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

ہمارے گھر میں میرے دوستوں کی عزت تو دو کوڑی کی بھی نہیں ہے۔ گھر والے کہتے ہیں کہ جیسا میں ہوں ویسے میرے دوست ہوتے ہیں۔ اس بات پر ہمارا جھگڑا بھی ہو جاتا ہے کہ آپ بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ کیا ہوا کہ میرے دوست بدکردار ہیں، کیا ہوا سب دو یا تین بیویاں لے کر گھوم رہے ہیں؟ کیا ہوا کہ میرے دوست کسی محفل میں بلانے کے قابل نہیں ہیں، مگر میں ایسا ہرگز نہیں ہوں۔ اس پر بیگم حضور فرماتی ہیں کہ “کیا ہوا کہ بکریاں بھی آپ کو دیکھ کر راستہ بدل دیتی ہیں، کجا کہ کوئی خاتون آپ کو دیکھ کر ‘ایزی فیل’ کرے۔”

ہماری اماں نے جو دشمنی ہمارے ساتھ کی ہے شاید ہی کوئی ماں اپنی اولاد کے ساتھ کرنے کا سوچے بھی۔ ہماری نوجوانی سے لے کر جوانی تک ہر برائی یا علت ہماری بیگم کو بتا چکی ہیں، اس کے جواب میں ہم شوہرانہ وقار تو پہلے ہی کھو چکے تھے، اب تو بچے بھی ہمیں مشکوک نظروں سے گھورتے ہیں اور اپنی اماں کو بتاتے ہیں کہ “پاپا فون پر بات کر کے مسکرا رہا تھا۔” گھر میں کوئی کام والی سے ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہماری وجہ سے گھر میں کام کرنے  والیوں کو وزن کے حساب سے رکھا جاتا ہے۔ نوکرانی کو ملازمت پر رکھنے کی اولین شرط پچیس کلو ہے۔ چھ ماہ بعد جب بیچاری پر گوشت چڑھنا شروع ہوتا ہے تو ملازمت سے برخاستگی ان کا مقدر ٹھہرتا ہے، اور تو اور گھر میں قربانی کا بکرا بھی لاغر لایا جاتا ہے کہ شوہر کو بھرا جسم پسند جو ہے۔

آپ ہنس رہے ہوں گے، بلاشبہ  آپ کا ہنسنا  بنتا ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے آپ جیسے ٹھرکی قارئین نے بدنامی کی جس انتہا پر مجھے لا کر کھڑا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں مناہل ملک سے زیادہ بدنام مردوں میں، میں شمار کیا جاتا ہوں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ لالہ کی مونچھوں کی نوکیں جیسی اکڑی ہوئی ہوتی ہیں، شاید جوانی کا بھی یہی حال ہوگا۔ مگر ان کو نہیں معلوم کہ ویک اینڈ پر بلند فشار خون اور کثرتِ شکر کا بہانہ کر کے بیگم کی طرف ہم اپنی تشریف کر کے سو جاتے ہیں۔ ہم نے بیگم سے بارہا استدعا کی ہے کہ جوانی کا تو آپ کو معلوم ہے کہ ہم صنفِ نازک کے لیے کتنے بےضرر ہیں۔ کہتی ہیں کہ “تیرا بھروسہ پھر بھی نہیں ہے کہ بچی کچھی جوانی کسی کے لیے رکھ چھوڑی ہو۔”

ایک دفعہ بیگم کی  لندن یاترا براستہ دبئی ایئرپورٹ تھا۔ دبئی سے لندن فلائٹ سات گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی تو ان کو پاکستان میں موجود  بچے اور شوہر یاد آگئے۔ تو معلوم ہوا کہ دبئی سے بذریعہ واٹس ایپ کال نہیں ہوتی سوائے فون کے۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کسی سے منت سماجت کر کے پاکستان فون کر کے اپنی خیریت کی  اطلاع دے کر فیملی کو ذہنی اذیت سے نکال لے کہ بیوی کہیں کھو گئی ہے یا جہاز کریش ہو گیا ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم بچے سب ڈریم ورلڈ کے پانیوں میں ننگے نہا کر اپنی آزادی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

بیگم بتاتی ہیں کہ انہوں نے بظاہر ایک معقول شخص سے درخواست کی کہ “فلائٹ تاخیر کی اطلاع گھر کرنی ہے، گر ایک منٹ کے لیے ہمارے شوہر کو فون ملا دیں۔” اس شخص نے میرا نمبر ڈائل کیا۔ وہ عجیب نظروں سے بیگم کو گھورنے لگا کہ اس کے پاس میرا نمبر پہلے سے محفوظ تھا۔ حیرت سے بیگم سے پوچھا:
“آپ اس شخص کو کیسے جانتی ہیں؟”
بیگم کے اوسان خطا ہو گئے۔ جلدی سے بیگم نے کہا:
“بھائی، آپ سے نمبر غلط لگ گیا ہے۔ میں کسی عارف خٹک کو نہیں جانتی۔”

یہ کہہ کر وہ چلی گئیں اور بتاتی ہیں کہ اگلے پانچ گھنٹوں تک وہ شخص ان کو گندی نظروں سے گھورتا رہا جیسے میں “لالہ” کی رکھیل ہوں۔

پچھلے دنوں بیگم نے پولینڈ جانا تھا، سو قطر میں تین دن کا قیام تھا۔ ان کو شکایت تھی کہ قطر میں کھانے بہت گندے ملتے ہیں اور وہ قطر سے اتنی واقف نہیں کہ جا کر اپنے لیے فروٹس لائیں۔ میں نے فوراً رعب جمایا: “قطر اپنا دوسرا گھر ہے۔ میرے دوست ہیں، میں ان سے کہتا ہوں وہ سب حاضر کر دیں گے۔” یہ کہہ کر فون رکھنے ہی والا تھا کہ بیگم نے پوچھا:
“تیرا دوست سوشل میڈیا کا کوئی بھانڈ تو نہیں ہے؟”
میں نے غصے میں جواب دیا: “ہر بندہ تیرے خاندان سے تھوڑی ہوتا ہے۔ یہ والا دوست بہت دلیر، رکھ رکھاؤ والا اور شریف انسان ہے اور میرے ساتھ کام کر چکا ہے۔”

میں نے سہیل کوروتانہ عرف امیر صاحب کا نمبر دیا کہ اپنے ہوٹل کی  لوکیشن بھیج دو۔
پانچ منٹ کے بعد بیگم کا فون آیا: “یہ تو وہی امیر صاحب ہیں جو لندن والے میاں حامد کے دوست ہیں۔ یہ شریف ہرگز نہیں ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک سال میں میری فیک آئی ڈیز پر دس گندے میسجز کیے ہیں کہ میرے ساتھ دوستی کرو۔”

Advertisements
julia rana solicitors

اب اس میں ہمارا کیا قصور ہے کہ کرتے دوست ہیں اور بھگتتے ہم ہیں؟

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply