مقبرہ بی بی مائی صاحبہ- سابقہ ریاست بہاولپور کا ایک خوبصورت ورثہ/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

سابقہ ریاست بہاولپور کے تاریخی شہر خانپور میں تاریخی ورثے کے نام پہ ایک خوبصورت مقبرہ واقع ہے جو شہر کے سب سے قدیم قبرستان جٹکی بستی کے جنوبی سِرے پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مقبرے کو ہم گمنام مقبرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
گمنام اس لیے کہ یہاں کون دفن ہے یہ تو ہم جانتے ہیں لیکن ان کے نام کیا ہیں اس حوالے سے تاریخ بھی خاموش ہے۔

تاریخی اہمیت 

یہ مقبرہ جِسے لوگ مقبرہ بی بی مَائی صَاحبہ کے نام سے جانتے ہیں دراصل اُن کے والدین کا مقبرہ ہے جس میں کچھ دیگر رشتہ دار بھی دفن ہیں۔
بی بی مائی صاحبہ جن کا اصل نام ”کُندن بی بی” بتایا جاتا ہے، سابقہ ریاست بہاول پور کے آخری نواب سر صادق محمد خان عباسی پنجم کی دادی، نواب بہاول خان عباسی پنجم کی والدہ اور۔نواب صبح صادق عباسی کی زوجہ تھیں جن کا تعلق خان پور کٹورا سے تھا۔ مائی صاحبہ مرحومہ کا اپنا مقبرہ چولستان میں ڈیراور کے شاہی قبرستان کے باہر موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ خان پور سے تعلق رکھنے والی یہ بی بی بہت خدا ترس اور غریب پرور قسم کی خاتون تھیں جنہوں نے نواب خاندان میں شادی کے بعد بھی اپنے شہر اور رشتہ داروں کو یاد رکھا۔ آپ نے اپنے والدین کے لیئے نہ صرف یہ مقبرہ تعمیر کروایا بلکہ شہر میں موجود کچھ زمین بھی وقف کی جس پر بعد میں ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی جو اب مسجد بی بی مائی صاحبہ کے نام سے مشہور ہے اور محلہ صدی وال میں واقع ہے۔
مقامی تاریخ دانوں کے مطابق اس مقبرے کا سنِ تعمیر 1886 ہے جبکہ پاکستان کے مشہور سیاح اور لکھاری جناب سلمان رشید کے، یہ مقبرہ 1870 یا 1880 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا ہو گا، یعنی یہ مقبرہ لگ بھگ ایک سو تیس سال پرانا ہے۔
مقبرے کے اندر ایک چبوترے پر چھ قبریں واقع ہیں جن پر کوئی کَتبہ موجود نہیں اس لیئے حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ بی بی صاحبہ کے والدین کی قبور کون سی ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کے دو کونے والی بڑی قبور ان کی ہوں۔ ان میں سے چند قبروں پر ماضی کے نقش و نگار مدھم پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

طرزِ تعمیر؛

اگر مقبرے کے طرزِ تعمیر کی بات کی جائے تو یہ مقبرہ اندرونی طور پر ہشت پہلو ہے یعنی اس کے آٹھ کونے ہیں۔ ہشت پہلو کے ہر حصے پر آٹھ محرابیں بنی ہوئی ہیں جو دو منزلہ ہیں۔ اوپر کی محرابوں میں سے شمالی محراب پر آیت الکرسی جبکہ جنوب والی پر ہلکے نیلے رنگ سے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ نچلی محرابوں میں مشرق اور شمال کی طرف پتھر کی خوبصورت جالی بنائی گئی تھی جو وقت کے تھپیڑے نہ سہہ سکیں۔ ایک جالی کے دونوں جانب بنے خوبصورت طاقچے ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔
مقبرے کی خاصیت اس کا بڑا اور خوبصورت مرکزی گنبد ہے جس پر بہت پہلے پیتل کی چار کٹوریوں والا ایک کَلس لگا دیکھا گیا تھا۔ گنبد کی اندرونی جانب نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ چاروں طرف ایک ایک مینار ہے جن میں سے دو کا ڈیزائن ایک جیسا جبکہ بقیہ دو کا الگ ہے۔ چہار جانب پتھر کی دو دو خوبصورت محرابیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ مغربی طرف باہر کو نکلی ہوئی ایک مرکزی محراب ہے جبکہ اس کا واحد دروازہ جنوبی سمت میں واقع ہے۔
مقبرے کے باہر وسیب کی پہچان نیلی کاشی گری کا کچھ کچھ کام بھی دیکھا جا سکتا ہے جبکہ کہیں قرآنی آیات اور فارسی کی عبارات بھی لکھی ہوئی ملتی ہیں یعنی   کہ یہ مقبرہ اِسلامی اور مُغلیہ فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔
مقبرے کے احاطے میں پہلے چند قبریں موجود تھیں جبکہ اب کچھ نئی قبریں بھی بن چکی ہیں۔ احاطے کا بیرونی محرابی دروازہ اب تک اپنی اصلی خوبصورتی کے ساتھ قائم ہے۔

نقش و نگار کی اِنفرادیت؛

گزشتہ سال جب میرے ایک دوست ”واجد علی ڈہرکی والا” جو یونیورسٹی اف گجرات میں فائن آرٹس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، یہ مقبرہ دیکھنے تشریف لائے تو انہوں نے مجھے اس کے بارے میں ایک بڑی دلچسپ بات بتائی۔
وہ کہتے ہیں کہ مقبرے کے مرکزی دروازے سے باہر بنے ہوئے نقش و نگار کو اگر بغور دیکھیں تو آپ کو پھولوں، پتوں اور بیلوں کے ساتھ ان کے نام اور مختلف نمبر لکھے ہوئے نظر آئیں گے، جیسے گُلِ ہزارہ، گُلِ نارافل، گُلِ رانران زیبا، انگور اور گلِ کچنال وغیرہ ۔۔
یہ چیز شاید کسی اور مقبرے پر آپ کو نہ ملے۔ اُن کے مطابق ہو سکتا ہے کہ یہ نقش و نگار کسی ایسے شاگرد نے بنائے ہوں جو اپنے استاد سے نقش و نگار بنانا سیکھ رہا ہو اور اس کو ہُو بُہو نمبروں اور ناموں کے ساتھ یہاں نقل کر بیٹھا ہو جیسے یہاں لکھے ایک تا چھ نمبر۔ یہ چیز بہت زیادہ غور کرنے پر ہی دیکھنے والے کی نظر میں آتی ہے۔

مقبرے کی بَحالی اور حکومتی رویہ ؛

Advertisements
julia rana solicitors

خانپور کے اس سب سے بڑے اور قدیم قبرستان کے جنوبی کونے میں واقع بی بی مقبرہ مائی صاحبہ اب اپنی حالت پر اشکبار ہے۔
گزشتہ دورِ حکومت کی بات ہے کہ میں نے ”سٹیزن پورٹل” پر اس مقبرے کے تحفظ اور بحالی کے حوالے سے ایک درخواست بھیجی تھی جو مختلف محکموں سے ہوتی ہوئی یہ کہہ کر بند کر دی گئی کے یہ مقبرہ میونسپل کمیٹی کی حدود میں آتا ہے اور ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں،یعنی کہ نہ ہی محکمہ اوقاف، محکمہ آثار قدیمہ، محکمہ سیاحت اور میونسپل کمیٹی خانپور اس کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔ مقبرہ اس وقت نشئیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ محرابیں توڑ دی گئی ہیں، گنبد بھی خطرے میں ہے۔ مقبرے کے اندر جا بجا کبوتروں کی گندگی نظر آتی ہے۔ سردیوں میں اس کے اندر آگ جلائی جاتی ہے۔ مرکزی دروازے پر کوئی تالہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے نقش و نگار کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
میں حکومتی اداروں، خانپور کے شہریوں اور آثارِ قدیمہ سے محبت رکھنے والوں سے ملتمس ہوں کہ خدارا اس مقبرے کی حالت پہ رحم کھائیں۔ بچی کھچی عمارت کے ہمارے تحفظ اور بحالی کے لیے کچھ اقدامات کریں کیونکہ یہ مقبرہ ریاست بہاول پور اور والدہ نواب آف بہاولپور کی اس شہر میں آخری نشانی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply