آہ!عمر رفتہ/عارف خٹک

مرد کی عمر پینتالیس سے پچاس سال تک خطرناک عمر کہلاتی ہے۔ عمر کے اس حصے میں مرد کے جنسی اعضا قوی ہوتے ہیں اور مرد دراصل اصل جنسی لطف اٹھانے کا ماہر کہلایا جاتا ہے۔ تازہ ترین سروے، جو کسی میگزین نے کیا ہے، کے مطابق دنیا بھر میں نوخیز لڑکیاں ادھیڑ عمر مردوں کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں کیونکہ ان سے نہ صرف مالی آسودگی بلکہ جنسی آسودگی کا بھی لطف ملتا ہے۔

ہم پاکستانی مرد چالیس کے ہوکر ہر جاننے والے بزرگ سے یہی نصیحت سنتے رہتے ہیں کہ “میاں اب بوڑھے ہوگئے ہو، اس لیے اتنا شوخ بننے کی ضرورت نہیں۔” بیویاں ہماری اپنی بچوں میں مصروف ہوجاتی ہیں اور ہماری حیثیت گھر میں ایک بے مصرف چیز جیسی ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً کچھ مرد دوسری شادی کرکے باقی ماندہ زندگی جہنم بنانے پر تل جاتے ہیں اور باقی سوشل میڈیا پر کثرت ازدواج کے فوائد پر لکھنا شروع کردیئے ہیں۔

ہماری اپنی عمر تقریباً پینتالیس ہوچکی ہے۔ رستے میں کوئی خوبصورت خاتون کو تکنا شروع کریں تو بچے معنی خیز انداز میں دیکھ کر شرمندہ کرتے ہیں اور بیوی منہ پھلا کر کہتی ہے، “بڈھے ہوگئے ہو، انسان نہیں بن پائے۔” بندہ اپنا سا منہ بنا کر رہ جاتا ہے۔ ہفتے میں ایک دفعہ اپنی سرٹیفائیڈ منکوحہ کو دعوت دیں تو سو بہانے کرکے راستہ بدلنے کی کوشش کرتی ہیں کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے، چھوٹی بہن کے سسرال کے فوتگی میں جانا ہے۔ اگر مرد زیادہ وبال جان بن جائے تو جلدی جلدی کنڈی لگا کر کھڑے کھڑے فارغ کر دیتی ہیں کہ “پانچ ہزار لوں گی۔” بندہ سوچتا ہے کہ اس سے تو طارق روڈ کی ببلی اچھی ہے جو تین ہزار میں کمرے سمیت مان جاتی ہے، کجا یہاں ارمانوں کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔

عمرِ رفتہ کے اور بھی کئی مسائل ہوتے ہیں، مگر وہ کافی طویل ہیں، اس لیے ان پر بات نہیں کرنا چاہتا کہ آپ لوگوں کا وقت بہت قیمتی ہے۔ لے دے کر ایک سوشل میڈیا ہے جہاں صنفِ نازک کو متاثر کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ پرانی تصاویر کو مختلف فلٹرز سے گزار کر خود کو مالی طور پر مستحکم اور جنسی طور پر مضبوط پیش کرکے ایک شکاری کی طرح بانس دریا میں ڈال کر مچھلیاں پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید کوئی مچھلی لاہور یا کراچی سے ہاتھ لگ جائے۔ مسلسل ناکامیوں کے بعد ایک عدد زنانہ آئی ڈی بنا کر خود سے ہی فلرٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل “خود لذتی” کا اصل لفظ اس کے لیے ایجاد ہوا ہے۔

بیوی سے بندہ بور ہوجاتا ہے تو نیوز لگا لیتا ہے۔ مگر بندہ روز روز محترم رؤف کلاسرا بھائی جان اور حامد میر بھائی کے تجزیے کون سنے؟ زیادہ سے زیادہ ہم سلیم صافی کو پسند کرتے تھے جس کی گلابی اردو سن کر ہمیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ ان کی کوئی بھی سنجیدہ بات سنجیدہ نہیں لگتی تھی۔ بالکل اپنے گاؤں کے شیر محمد چچا جیسا لگتا تھا جو حجرے میں روز ہمیں بتاتا ہے کہ “پینسٹھ کی جنگ میں اس نے کفار کے دس ٹینکوں کو شہادت سے ہمکنار کیا تھا اور پچاس کافروں کو قیدی بنا کر مسلمان کیا تھا۔” یہ الگ بات ہے کہ چچا خود سن ساٹھ میں پیدا ہوئے ہیں۔

خیر بوریت ختم۔کرنے واسطے پرسوں ایک ڈیوائس منگوائی جس میں چھ سو چینلز ہیں، مدنی چینل سے لے کر کھلم کھلا تعلیم بالغاں تک۔ تاکہ بے مصرف بندے کے پاس بھی کوئی مصرف ہو۔ رات دو بجے اٹھ کر چینل گشتیاں کر رہا تھا کہ بیگم نے منہ اٹھا کر برازیلین چینل پر ایک غریب لڑکی کو دیکھا جس کے پاس تن ڈھانپنے کیکئے کچھ نہیں تھا۔ میرا سارا موڈ خراب کر ڈالا۔ “شرم تو نہیں آتی اس عمر میں؟ بندہ اللہ اللہ کرتا ہے اور ایک آپ ہو!”
تن کر جواب دیا، “آپ اپنی نیند پوری کرو کہ فجر کی اذان میں وقت ہے۔۔۔۔ باقی زنا بالجسم کی طاقت تو ہمارے اندر رہی نہیں، سو زنا بالچشم پر تلے ہوئے ہیں۔ اس پر بھی آپ کو اعتراض ہے”

دوستو، پھر آپ کہتے ہیں کہ ہمارے لالہ غیرت مند نہیں ہیں۔ کیسا جواب دیا، پھر؟

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply