اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ہم نے قرآن صحیح سے پڑھا ہوا نہیں ہے یا پھر ہمیں اس کی سمجھ نہیں ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کتنی بڑی بات سادہ سے الفاظ میں کہہ جاتے ہیں اور اس پر افسوس بھی نہیں ہوتا کہ جو بات کہی جا رہی ہے وہ مجھے کہنی بھی چاہیے یا نہیں۔ کہیں یہ بات کہتے وقت میں اللہ کی گرفت میں تو نہیں آ رہا اس نے مجھے جو ڈھیل دی ہوئی ہے اس فاصلے کو کم تو نہیں کر رہا پھر ایک دن ایسا آنا ہے جس میں مجھے ہر قول و فعل کا جواب دہ ہونا ہے۔
میرا تعلق چونکہ تدریس سے ہے جس میں بچوں کو روزمرہ قرآن کا سبق دیا جاتا ہے تقریباً روزانہ کے مشاہدے سے جو باتیں میرے سامنے آئی ہیں چند ایک اختصار کے ساتھ تحریر کر دیتا ہوں۔
عموماً جو بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ اکثر بچوں کو جو ہوم ورک دیا جاتا ہے جب اگلے دن سنانے کا کہا جاتا ہے تو ایک جیسا جواب ملتا ہے کہ یاد نہیں ہے جب اس کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو کہاجاتا کہ گھر میں میرے لئے کسی کے پاس ٹائم نہیں ہوتا ہے دوسرے بھائی یا بہنیں سکول کا کام کر رہے ہوتے ہیں والدین ان کے ساتھ مصروف تھے اس لیے یاد نہیں ہو سکا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جو تکلیف دہ بات ہوتی ہے جب کچھ والدین قرآن پڑھنے والے بچے کو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں آتا ہم پڑھ نہیں سکتے آپ اپنے استاد سے پڑھ لینا جبکہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے بچے کو آپ فل ٹائم دے رہے ہوتے ہیں یہاں سے بچہ احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اور اس کی صلاحیتیں ضائع ہونے لگتی ہیں بچے کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید میں کوئی عجیب کام کر رہا ہوں جس کی کوئی اہمیت نہیں یہاں تک کے والدین بھی اس میں انٹرسٹڈ نہیں۔
قرآن کریم کو حفظ کرنا ضروری نہیں لیکن اس کو سمجھ کر پڑھنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے اس میں دی گئی تعلیمات میرے اور آپ کے لیے ہیں ہم صرف یہ کہہ کر ،کہ ہمیں اس کی سمجھ نہیں اس سے برئ الذمہ نہیں ہو سکتے میری والدین سے درخواست ہے کہ آپ اپنے بچے کے رول ماڈل بنیں اگر آپ کو کچھ نہیں بھی آتا تو آپ اس کو احساس نہ ہونے دیں بلکہ پڑھائی کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر اس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اس کو عظمت قرآن کے حوالے سے واقعات سنائیں جو اس کے دل میں قرآن کی عظمت پیدا کریں اور اس کو لگے کہ وہ ایک عظیم کام پر لگا ہوا ہے جس شوق اور لگن سے والدین عصری علوم کے حصول کے لئے بچوں پر توجہ دیتے ہیں اس کا دس فیصد بھی اگر قرآن پڑھنے والے بچوں پر توجہ دیں تو یقین جانیئے یہی بچے بہترین حفاظ اور قاری بن کر نکلیں گے اور دنیا کہ کونے کونے پر پہنچ کر قرآن کی صدائیں بلند کریں گے۔
قرآن سے تعلق کی پختگی ہی ہمارا ذریعہ نجات ہے جب ہم روزانہ کی بنیاد پر گھر میں تلاوت کا معمول بنائیں گے تو قرآن کی برکات خود دیکھنے کو ملیں گی اور اس کا سب سے بڑا فائدہ حفظ کرنے والے بچے اور بچی کو ہو گا اس سے ان کو ماحول میسر آئے گا جبکہ اس کے برعکس اگر ہم فضول چیزوں کو ترجیح دیں گے اور قرآن کو صرف رسومات کی حد تک محدود کر لیں گے کسی کی رخصتی کے وقت سر پر اٹھا لیں گے، کسی کے فوت ہونے پر قرآن خوانی کر لیں گے،کہیں قسم اٹھانی پڑی تو اس پر ہاتھ رکھ کر قسمیں اٹھائی جانے لگیں گی خدارا ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کریں دوسروں کو بھی اس پر راہنمائی کریں۔
حضرت امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے پوچھا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں کہ میں کچھ بتائیں تو انکی طرف سے جواب دیا گیا کہ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا ؟
قرآن سارے کا سارا حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی ہی تو ہے جس میں ہم سب کے لئے بہترین زندگی گزارنے کے تمام اصول وضع کر دیئے گئے ہیں اگر ہم ان کو اپنا لیں تو ہماری دنیا کی زندگی بھی آسان ہو جائے اور آخرت میں بھی کامیابی ہمارا مقدر بنے۔

آخر میں گزارش کروں گا والدین سے کہ اپنے بچوں کو گھر میں ایک جیسا ماحول فراہم کریں چاہے وہ عصری علوم پڑھ رہے ہوں یا پھر قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں تاکہ یہ کلیاں پھول بننے سے پہلے ہی نہ مرجھا جائیں بلکہ ان کو ایسے خوبصورت انداز میں پروان چڑھائیں کہ ان پھولوں کی خوشبو سے زمانہ معطر ہو جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں