لاپتہ افراد کو بھی مرنے والوں میں ہی شمار کیا جاۓ۔
ٹی وی اسکرین پر یہ لائن کبھی گھومتی ہوئی کبھی چکراتی ہوئی بار بارنمودار ہورہی ہے۔ اس کے نیچے ہی ایک اور لائن نے بھی منہ چمکانا شروع کر دیا ہے کہ “ مرنے والوں میں ۴۵ پاکستانی بھی ہیں”۔ اس اعزازی سطر کے نیچے ایک اور فخریہ سطر بھی چل رہی ہے کہ مرنے والے لیبیا کا باقاعدہ ویزا لے کے گۓ تھے۔
ٹی وی کا یہ اسکرین کبھی کبھی مجھے قصائی لگنے لگتا ہے۔ جذبات احساسات سے عاری قیمہ، بوٹی،پسندے،بنانے میں مصروف سری پاۓ الگ کرتا ہوا بس کھٹا کھٹ کۓ جا تا ہے۔
اسکرین پر ابھرتی، چلتی ،پھرتی لائینوں پر نگاہیں جماۓ جماۓ ،میری ذہنی رُو ان آنگنوں تک چلی گئی۔ جن کے سپوت، ماں جاۓ،مانگوں کے سیندور، بانہوں کی کھنک ان ۴۵ پاکستانیوں کے ساتھ سانس لیتی تھی۔ اس ٹھٹھرتی شام میں وہ بوڑھے باپ کس کو دوش دے رہے ہوں گے۔
کیا ان کے گھر آج چولہا جلا ہوگا،انھوں نے کھانا کھایا ہوگا،کیا ان کے گھروں میں آج دھوپ اتری ہوگی، جو چاند میری کھڑکی سے نظر آرہا ہے کیا وہ ان گھروں کی کھڑکیوں سے بھی نظر آرہا ہوگا؟
کیا یہ چاند پانی میں الٹی ہچکولے کھاتی کشتی پر اور جن کو سمندر نگل گیا ان پر بھی چمک رہا ہوگا؟
ان آنگنوں کے دکھ کو سوچتے ، سوچتے ذہنی رو نے پیچھے کی طرف چلنا شروع کردیا ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے وہ ستر کی دہائی کا آخری سال تھا یا اسّی کی دہائی کا آغاز، کراچی سے دوبئی جانے کے خواہشمندوں کی کشتی ، خواہشوں کا بوجھ سنبھالتے، سنبھالتے کراچی سے آگے سمندر میں الٹ گئی تھی یا ایندھن ختم ہونے کے سبب حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ کچھ تو بہر حال ہواتھا۔
موت کے منہ میں جانے والے سارے کے سارے نوجوان لیاری کےتھے۔ گو کہ واقعہ بہت پرانا ہےلیکن اس وقت یہ حادثہ شاید آنے والے حادثوں کا آغاز تھا۔
مختلف موضوعات پر ڈاکیو منٹری فلمیں بنانے والے مشتاق گزدر مرحوم نے مجھے صبح صبح فون کیا اوربتایا کہ ان کا ارادہ متاثرین کے خاندانوں پر فلم بندی کا ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ میں گھر وں میں جاکے بات چیت کروں اور وہ ریکارڈنگ کریں۔ وہ زمانہ بہت سازوسامان والا زمانہ تھا۔ کیمروں اور ریکارڈنگ کے مختلف سامان سے لدے پھندے ہم شام تک لیاری کی گلیوں میں پھرتے رہے۔
دھاڑیں مارتی نوجوانوں کی ماؤں، سینہ کوبی کرتی بہنوں ،سر جھکاۓدیواروں کی طرح خاموش باپ بھائیوں کا دکھ سنتے رہے،سب مل کے ان لمحوں کو کوس رہے تھے کہ انھوں نے اپنے پیاروں کو، راج دلاروں کو جانے کی اجازت کیوں دی؟
مائیں ،باپوں کو اور باپ ماؤں کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے،دل چیرنے والی گفتگو ،رقت آمیز مناظر –
ہر گھر میں شام غریباں برپا تھی۔
شام گۓ دکھے دل،نم آنکھوں اور بہت کچھ ذہن میں لئےہماری واپسی ہوئی تھی۔ شوروغوغاں کے لئے اس وقت اخبار ہی ہوتے تھے۔ ہر اخبار نے صفحات پے صفحات سیاہ کئے، سرکار نے بھی اپنے خزانے سے کچھ الفاظ کا اجراء کیا۔ اس وقت کی آہ و فغاں سے لگتا تھا کہ اب کوئی کوکھ نہ اجڑے گی،کوئی چوڑی نہ ٹوٹے گی،کوئی باپ ملال زدہ آنکھوں سے آسمان کو نہ تکے گا۔
لیکن !آدم کی اولاد نا صرف یہ کہ ڈھیٹ ہے،بے غیرت و بے حس بھی ہے،سنگدل اور نمک حرام بھی ہے۔
کشتیوں میں بیٹھ کے خوابوں کی تلاش میں ڈوب مرنے والوں کا یہ سلسلہ ایک تواتر سے آج تک جاری ہے۔ سال میں دو سے تین بار یہ خبر سننے کو ضرور ملتی ہے کہ کشتی ڈوب گئی، کشتی بھٹک گئی، کشتی پکڑ لی گئی۔۔ان تمام صورتوں میں لاپتہ اور پتہ سب کو موت کے گلے ضرور لگنا پڑتا ہے۔
حضرت انساں کا آخری انجام کیوں کہ موت ہی ہے سو ان سب پر صبر کیا جا سکتا ہے لیکن ان سب کا کیا ہوگا جو جیتے جی مر جاتے ہیں۔
وہ ساری مائیں، بہنیں،بیویاں، بیٹیاں،باپ، بھائی،بیٹے جنہوں نے جھوٹے خوابوں کے حصول کے لئے اپنے گرد زر،زمین، قرض کا جال بنا،وہ کہاں جائیں گے؟
جب ، جب ایسی خبریں آتی ہیں میں خود کولیاری کے ان آنگنوں میں کھڑا پاتی ہوں جہاں میں نے برسوں پہلے دکھ کو روتے،بولتے اور فریاد کرتے دیکھا تھا۔
اگر ان پتہ اور لاپتہ لاشوں کی گنتی کروں تو ان کی تعداد گزرے سالوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہوگی۔ بربادی کی اس داستان میں اگر ان لاپتہ اور پتہ شدہ لاشوں سے جڑی زندہ لاشوں کو بھی شامل گنتی کر لوں تو یہ تعداد لاکھوں میں ہوگی۔
اس مملکت خداداد میں کوئی مرد مومن ہے، کوئی قانون ہے، کوئی حساب کتاب ہے؟
کوئی ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں