پاکستان کے معروف اینکر و دانشور آفتاب اقبال کچھ روز پہلے برطانیہ کے کامیاب دورے پر تھے۔ مانچسٹر میں انہوں نے اپنا پہلا شو بھی کیا ۔ گزشتہ دنوں صحافیوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بتایا کہ مانچسٹر میں شو کےاعلان کے بعد انہیں ٹؤرنٹؤ نیویارک اور لندن سے بھی شوز کی آفر آچکی ہیں ۔ آنے والے سال میں وہ اپنی فلم کے پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں ۔ انہوں نے فخریہ بتایا کہ وہ آکسفورڈ میں لیکچر بھی دے چکے ہیں ۔پریس کانفرنس کے دوران میں نے ان سے سوال کیا کہ دنیا نے اب مزاح کیلئے بہت سے اصول و ضوابط وضع کرلئے ہیں ۔ مثلاً اب جنس کی بنیاد پر خواتین کو تضحیک کا نشانہ نہیں بناسکتے ۔کسی کے جسم کی ساخت یعنی موٹاپا، کمزوری یا معذوری کا مذاق نہیں اڑایاجا سکتا ۔ اب گورے اور کالے یا نسل پرستی کو موضوع نہیں بنایا جا سکتا ۔ ابھی میں نے اپنا سوال مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا ” بائی دا وے ہمارے ہاں بنایاجا سکتا ہے ”میں نے اپنا سوال مکمل کرتے ہوئے کہا کہ یہی میرا سوال تھا کہ ہمارے ہاں کیوں مادر پدر آزادی ہے ۔ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے کہ ہمارے ہاں کوئی اصول و ضوابط نہیں بنائے گئے جب ہمارے ہاں بھی حکومت کی جانب سے ایسے قوانین بنیں گے تو ہم بھی باامر مجبوری ایسا کرلیں گے ۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ کیا بطور اینکر بطور جرنلسٹ یا بطور صحافی ہم خود کوئی اخلاقی اقداروضع نہیں کرسکتے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تو اس پر انہوں نے بودی سی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ نہیں ہم ایسا کوئی اصول نہیں بنا سکتے کیونکہ مزاح بہت مشکل کام ہے مثلاً اگر کوئی ہمارا دوست یا ساتھی ایک دم اچانک سے چلتے ہوئے گر جائے تو بے اختیارہماری ہنسی نکل جائے گی جسے کنڑول کرنا آسان نہیں ہوگا ۔۔
پاکستان میں علم و آفتاب کی بلندیوں پر بیٹھا شخص بھی جب کسی قاعدے قانون کو نہ ماننے کی بھونڈی وضاحت دیتا ہے یا معاشرے کی ہرخرابی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتا ہے تو اسی وقت معاشرتی انحطاط کی وجہ روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے ۔ پاکستان میں مزاح کا کوئی اصول وضع نہیں ہے اس لئے ہمارے ہر اسٹیج ڈرامے میں کامیڈی کے لئے شکل وصورت، صنفی امتیاز ، جنسی تعلقات اور باڈی شیمنگ سمیت جسمانی معذوری پر اعلانیہ مذاق اڑانے میں کوئی قباحت نہیں محسوس ہوتی ۔ آپ پاکستانی اقدار کی تنزلی کی اس سے بڑی مثال اور کیا دیکھیں گے کہ گزشتہ دنوں پاکستانی مزاح کے دیوتا انور مقصود نے پاکستانی نیوی کے شہدا کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں غیرت مند کہا کہ وہ ڈوب کر مر جاتے ہیں ۔ دنیا میں شاید ہی کوئی مزاح نگار ایسا ہو جو گھٹیا پن کی اس دلدل میں اترا ہو ۔ بہرحال انور مقصود نے اپنے بیان پر معذرت کر لی ہے ۔ اس لئے اس پر مزید کچھ نہیں لکھتا اور ویسے بھی اس عمر میں ایک آدھ جملے کی معافی ہونی چاہیے ۔
البتہ آفتاب اقبال صاحب چونکہ کسی اصول و ضوابط کو نہیں مانتے اس بات کا اندازہ ان کے شو میں بھی ہو ا۔ وہ ہر سوال کرنے والے کو ایسے ڈانٹ رہے تھے اور ایسے زچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے جیسے ان کے شو میں بیٹھا ہوا ہر شخص ان کا مزارع ہو ۔ وہ اتنے تلخ لہجے میں سب کو چپ کرواتے سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی اس شخص پر بدتمیزی والا رویہ اپناتے کہ ہال میں بیٹھا ہر شخص ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا شروع ہوجاتا ۔ پھر چاہے وہ کوئی ٹک ٹاکر تھا ۔ یہ ان کی اپنی ہی ممدوح سیاسی پارٹی کا کارکن یا پھر کوئی بزرگ شہری کوئی بھی ان کے قہر سے نہیں بچ سکا ۔ کچھ لوگوں کو تو انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ آپ کو اتنا عرصہ ہوگیا برطانیہ میں رہتے ہوئے ابھی تک آپ کو مکالمہ کرنا نہیں آیا ۔ان کے اس برتاؤ پربرطانیہ میں موجود کچھ ٹک ٹاکرز اور وی لاگرز نے تو باقاعدہ ویڈیوز بھی ریکارڈ کی ہیں ۔اور ان پر ناراضگی اور برہمی کا اظہا ر کیا ہے ۔
ویسے میرا محترم آفتاب اقبال کو مشورہ ہے کہ پاکستان میں بھلے ہی وہ اصول و ضوابط کی پابندی کو غیر ضروری سمجھیں لیکن برطانیہ یورپ و دیگر ممالک کے لوگ تلخ لہجوں اور اکھڑ پن کے عادی نہیں ہے ۔ اس لئے یہاں کوشش کریں کہ اخلاق و آداب و دیگر مکالمے کے اصولوں پر عمل کریں کیونکہ یہاں یہ اصول حکومت نے لاگو نہیں کئے بلکہ لوگ ان اصولوں پر عمل کرنا اپنی اخلاقی ذمہ داری بھی سمجھتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں