ترانوے ہزار پتلونیں/کامریڈ فاروق بلوچ

نوجوان سنجیدہ تاثرات کو قائم کرکے بولنے لگا. “لوہے اور پٹرولیم سمیت کئی دھاتوں اور قدرتی وسائل سے مالا مال مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ موریطانیہ کی غربت زدہ بدحال عوام کو فقط زراعت َاور مویشیوں کا سہارا ہے”. زیرتعلیم نوجوان نے پڑھا لکھا ہونے کا تاثر دینے کے لیے اپنے گلے کو صاف کرکے آواز مزید بھاری کر لی… “کہتے ہیں ملکی فوج قابض ہے ہر جگہ، اور ہر ادارے کو کنٹرول کرتی ہے. ہم لوگ اور ہمارے ادارے بھی تو ختم خوار ہیں. یہ اپنے پروپیگنڈا می‍ں عوام اور عوامی اداروں کے نکمے، کرپٹ اور نالائق ہونے کا الزام بھی ملکی فوج پہ عائد کر رہے ہیں”.

دارالحکومتی شہر “نواکشوط” کی ایک ویران نواحی آبادی میں ایک ادھیڑ عمر آدمی، جسے سب “چچا افضل” کہتے تھے، نیم تاریک کمرے میں سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ باہر شدید گرم ہوا چل رہی تھی، اور اندر کمرے میں دھواں دھواں منظر تھا۔ افضل کے چہرے پر جھریاں تھیں، لیکن آنکھوں میں وہی پرانی چمک تھی، جو وہ کسی بھی موضوع پر چبھتے سوال کرنے سے پہلے پیدا کرتا تھا۔

“تمہیں معلوم ہے؟” افضل نے اپنے سامنے بیٹھے نوجوان کو دیکھا، جو پرانی میز پر اب اُس پرانے اخباری ٹکڑے پہ کہنیاں ٹکائے بیٹھا تھا جس کے کالم کو پڑھ کر وہ چاچا کو سنا رہا تھا، “آج وہ دن ہے جب ترانوے ہزار پتلونیں اتری تھیں۔”

نوجوان نے چونک کر سر اٹھایا۔ وہ حیران تھا کہ افضل چچا اتنے آرام سے ایسی بات کر رہے تھے، جو ہر سال کی آخری 16 تاریخ کو اکثر لوگ یاد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ “چچا، آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہ ہمارا قومی دکھ ہے!”

افضل ہنسا، ایک سرد، زہریلی ہنسی۔ “دکھ؟ ارے صاحبزادے، دکھ اس دن ہوا تھا جب ان بوٹ والوں نے اپنے ہی ملک کے مشرقی لوگوں پر گولیاں چلائیں۔ جب وہ خود کو نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ یہ تو انجام تھا ان کی خود ساختہ عظمت کا۔”

نوجوان کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔ “لیکن چچا، دشمن بہت بڑا تھا۔”

افضل نے سگریٹ کا ایک اور کش لیا اور دھواں نوجوان کے چہرے کی طرف پھینک دیا۔ “دشمن؟ ہاں، دشمن بڑا تھا، لیکن وہ باہر کا نہیں، اندر کا دشمن تھا۔ حرص، غرور، اور طاقت کا نشہ۔ یاد رکھو، کسی فوج کی اصل شکست میدان جنگ میں نہیں ہوتی۔ وہ تو تب ہوتی ہے جب وہ اپنے عوام کے دلوں سے نکل جائے۔”

نوجوان خاموش ہوگیا۔ باہر ہوا تپ چکی تھی، اور ہوا کا شور ایک سناٹے کی طرح چھا گیا تھا۔ افضل نے کھنکھارتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی، “دیکھو، میں نے وہ دن اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، لیکن جو سنا، جو پڑھا، وہی کافی تھا۔ ترانوے ہزار پتلونیں، ترانوے ہزار سپاہی، اور سب کے سب اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے۔ وہ دن صرف ایک سرینڈر کا دن نہیں تھا، وہ دن تھا جب ہم نے خود کو آئینے میں دیکھا اور ہماری اصل شکل ظاہر ہوگئی۔”

“اور پھر؟” نوجوان نے آہستہ سے پوچھا۔

“پھر؟” افضل کی آواز میں طنز تھا۔ “پھر ہم نے نئی کہانیاں گھڑ لیں۔ شمالی مغربی پرانے شہر کے سکول کا سانحہ آیا، بچوں کی لاشیں آئیں، اور ہم نے سوچا، چلو، اب پرانی باتیں دفن کر دیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو، تاریخ کو دفن کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ زمین کے نیچے چپکے چپکے سانس لیتی رہتی ہے، اور جب وقت آتا ہے، تو نکل کر تمہارے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔”

نوجوان نے کچھ کہنا چاہا، لیکن افضل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ “تم شاید سوچ رہے ہو کہ میں بہت تلخ ہوں۔ ہاں، میں تلخ ہوں۔ کیونکہ مجھے وہ دن یاد ہے جب یہ ملک بنا تھا۔ لوگ خواب دیکھ رہے تھے، آزادی کے خواب۔ اور پھر وہی خواب بوٹوں کے نیچے کچلے گئے۔”

کمرے میں ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ افضل نے سگریٹ کا آخری کش لیا، اور نوجوان کی طرف جھکتے ہوئے کہا، “یاد رکھو، جب تم اپنی تاریخ سے منہ موڑ لیتے ہو، تو تاریخ تمہیں پیچھے سے آ کر دبوچ لیتی ہے۔ اس دن کو بھولنے کی کوشش مت کرو۔ ہر سال یاد کرو. ہر سال جب آخری سولہواں دن چڑھے، خود سے پوچھنا، ‘ہم پتلونیں چھوڑ کر کیوں بھاگے؟'”

Advertisements
julia rana solicitors london

نوجوان کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا، پھر آہستہ سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔ باہر ہوا میں جیسے آگ لگ چکی تھی۔ افضل اپنی جگہ بیٹھا مسکرانے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی باتیں کانچ کے تیر کی طرح تھیں، جو نوجوان کے دل میں کہیں نہ کہیں پیوست ہو چکی تھیں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply