مدتوں بعد ایک سرگوشی سنی
میرے گھر کی چوکھٹ میرے کان میں بولی
تیرا “گل دستار ” آیا تھا
میں ہذیانی لہجے میں دھاڑی
میرا کلیجہ چبانے کے لیے کیا تم رہتی تھیں؟
چوکھٹ مسکا کے گویا ہوئی
اے باولی سِیخ پَا نہ ہو
جا دیکھ کے آ دالان میں لگا سوکھا شجر
ہری کونپلوں سے بھر گیا
تیری ناراض تتلیاں
پھر سے سیاہ رنگ پھولوں پر آ بیٹھیں
چوبارے کا فانوس
دھنک رنگ اجالے بکھیرے جا رہا
اور وہ مفلوج مورنی
گھنگھرو باندھے منڈیر پر کھتک کرے جارہی
گھر کے در و دیوار
اس کے آنے سے رنگ و نور سے سج گئے
چوکھٹ خبری بنی بیٹھی
اور گلونے
استعجاب کے مارے فرش پر ڈھے گئی تھی
ماں آئیں پکارا
یہ بھی کوئی سونے کی جگہ ہے بھلا ؟
اٹھ جا دیوانی
مگر گل پر تو شادی مرگ طاری ہوگئی تھی
بے جان وجود
سفید لبوں پر آخری مسکان اور مہندی سے لکھا
ہتھیلی پر اس کا نام
چوکھٹ چیخی
سینے پر ہتھڑ مارے بولی ہائے میری گلونے
انا للہ وانا انا الیہ راجعون
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں