گاؤں کے دامن میں ایک چھوٹا سا قدیم اور پراسرار میدان تھا، جسے لوگ “پوہ ر” کہتے تھے۔ اس میدان کا نام ہمیشہ سے ایک راز رہا، اور جو بھی اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا، یا تو راستہ بھٹک جاتا یا کسی عجیب خواب کی کہانی سناتا۔ یہ میدان ہمیشہ ہلکے کہرے میں لپٹا رہتا تھا، اور وہاں سے گزرتے ہوئے مسافر اور گاؤں کے چرواہے بے ساختہ اپنی نظریں نیچے کیے چلتے۔ میدان کی شمالی سمت چند قدیم گھنے برگد اور شرینہ کے درخت موجود تھے- جبکہ ایک طرف کچھ گھاس اور دیگر جڑی بوٹیاں اگی ہوئی تھیں- قریب ہی ایک کنواں تھا، جو نجانے کب سے خشک ہو چکا تھا اور اب اس کی منڈیر پر سرد شاموں اور چاندنی راتوں میں چند آوارہ مزاج نوجوان آن بیٹھتے اور دنیا جہان کے موضوعات چھیڑے جاتے- لیکن ہر موضوع اس میدان پر ہی آن ٹھہرتا تھا-
میدان کے وسط میں ایک چوکور پکی اینٹوں سے بنا ہوا چبوترہ تھا جو سطح زمین سے ایک ادھ فٹ ہی اونچا تھا- یہاں چادریں اوڑھے، پوہ کی راتوں میں کچھ سفید ریش بزرگ بیٹھے رہتے، جنہیں لوگ “عابدین” کہتے تھے۔ ان کے چہرے جلال اور جمال کا امتزاج تھے- وہ خاموش بیٹھے آسمان کی طرف یوں دیکھتے، جیسے کسی ان دیکھی تجلی کو تک رہے ہوں۔ ان کی موجودگی میں ایک عجیب سکون اور ہیبت کا عنصر نمایاں ہوتا تھا، جیسے وہ کسی اور عالم میں جی رہے ہوں۔ ان کے چہروں پر وقت کی کھینچی ہوئی لکیریں نہ تھیں، لیکن آنکھیں سمندر کی طرح گہری اور کئی داستانوں کی گواہ معلوم ہوتی تھیں۔
میدان کے مشرقی کنارے جولاہوں کی آبادی تھی، جو دن رات کھیس بُنتے رہتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے کھیس عام کپڑے نہ تھے؛ وہ روحانی بُنت کے نمونے تھے، جنہیں وہ “کساءِ تسکین” کہتے۔ وہ کہتے تھے کہ ان کھیسوں میں محبت کے دھاگے اور ذکر کے نغمے پروئے جاتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کی بُنائی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ “میدانِ پوہ ر” میں عابدین کے قریب نہ رکھی جائے۔ یہ جولاہے دن رات محنت کرتے اور خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہتے۔ جاڑے کی سرد اور خاموش راتوں میں اکثر کھڈی پر بانا بُننے کی آواز کسی دلکش موسیقی جیسی محسوس ہوتی تھی-
پوہ ر کے قریب اکثر و بیشتر چرواہوں کا گزر بھی ہوتا تھا۔ ان کے ریوڑ بے قابو ہوتے ہوئے دکھائی دیتے، جیسے ان پر چرواہوں کا بس نہ چل رہا ہو- چرواہے خود بھی بے چین اور اداس نظر آتے تھے، نہ جانے کس تلاش میں وہ قریہ قریہ، نگر نگر گھومتے تھے۔ یہ چرواہے سفید بزرگوں کو دور سے دیکھتے، جولاہوں کے بنے ہوئے کھیسوں کو حسرت سے تکتے، لیکن ان کے پاس نہ وقت تھا نہ ہمت کہ میدان میں داخل ہو سکیں اور نہ ہی وہ ان نفیس کھیسوں کی قیمت ادا کرنے کے قابل تھے- سو وہ چپ چاپ پوہ ر میدان کی شمالی سمت جہاں درختوں کا جھنڈ تھا، اپنے ریوڑ کو چرنے چھوڑ کر خود ان چادروں پوش بزرگوں کو کھوجنے کی کوشش کرتے-
ایک دن گاؤں کے ایک نوجوان چرواہے، جو دوسروں سے زیادہ بے چین اور اداس دکھائی دیتا تھا، نے ہمت کی اور میدان میں داخل ہونے کی ٹھان لی۔ اس کا دل عجیب طرح سے سے دھڑک رہا تھا، لیکن اس کے قدم رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ رات کے کسی پہر کہرے کو چیرتا ہوا ان سفید ریش بزرگوں کے قریب پہنچا اور کانپتے ہوئے بولا، “آپ کون ہیں؟ یہ پوہ ر کیا ہے؟”
ایک بزرگ نے آہستہ سے چہرہ اس کی جانب گھمایا اور کہا، “ہم وقت کے مسافر ہیں۔ پوہ ر وہ جگہ ہے جہاں وقت رک جاتا ہے اور انسان اپنی اصل حقیقت کو دیکھتا ہے۔”
نوجوان نے حیرانی سے پوچھا، “اور یہ جولاہے؟”
بزرگ مسکرا دیے، “یہ وہ ہیں جو زندگی کے دھاگے بن کر سکون کا کھیس تیار کرتے ہیں۔ مگر یہ سکون صرف انہیں ملتا ہے جو اپنی بے قراری کو سمجھتے اور قبول کرتے ہیں۔”
نوجوان چرواہے نے مزید جاننا چاہا، “اور ہم چرواہے؟”
بزرگ نے نرمی سے کہا، “تم سب اپنی اپنی خواہشات کے چرواہے ہو- تمہارا بے قابو ریوڑ تمہارے اندر کے سوالات ہیں۔ جب تک تم انہیں سنبھالنا نہیں سیکھو گے، پوہ ر تمہارے لیے صرف ایک دھند میں لپٹا ہوا راز ہی رہے گا۔”
یہ سن کر نوجوان کی آنکھیں چھلکنے لگیں- اس نے جولاہوں کے بنے ہوئے اس کھیس کی طرف دیکھا جس پر ایک بزرگ محو تسبیح تھا، اور محسوس کیا کہ وہ کھیس نہیں بلکہ زندگی کے تمام رنگوں سے بنا ہوا آئینہ ہے۔ اچانک اس بزرگ نے زمین پر ایک دائرہ کھینچا اور اس کے بیچ ایک نقطہ بنایا۔
“یہ دیکھو۔ یہ دائرہ تمہاری خواہشات ہیں، اور یہ نقطہ تمہاری حقیقت۔ جتنا تم دائرے کے کنارے بھاگو گے، اتنا ہی تم اپنی حقیقت سے دور ہو گے۔ لیکن اگر تم اس نقطے کو تلاش کرنے کی جستجو کرو، اسی کی جانب متوجہ ہو جاؤ تو دائرہ خود تمہارے گرد سمٹ آئے گا۔”
چرواہے نے الجھن سے پوچھا، “لیکن یہ حقیقت کہاں ملے گی؟ کیا پوہ ر ہی وہ منزل ہے؟”
بزرگ نے آسمان کی طرف دیکھا، اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا،
“منزل؟” “پوہ ر کوئی منزل نہیں، یہ تمہارے دل کا وہ گوشہ ہے جہاں تمہارے سوالات کے جوابات چھپے ہیں۔ لیکن جواب تمہیں اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک تم اپنے سوالات کو محبت سے تھام نہ لو- ان سوالات کو خوش آمدید کہہ کر ان کو قبول نہ کرو-”
گاؤں کے بڑے کہتے ہیں کہ آج بھی پوہ ر کے میدان میں وہی سفید داڑھیوں والے بزرگ بیٹھتے ہیں، جولاہے ویسے ہی اپنے کھیس بن رہے ہیں، اور چرواہے اپنے بے قابو ریوڑ کے ساتھ میدان کے شمالی طرف آوارہ پھرتے ہیں- لیکن پوہ ر کے ان بزرگوں کے پہلو میں اب ایک نوجوان بھی آن بیٹھتا ہے جس نے بے قابو ہوتے ریوڑ جیسے سوالوں کو قبول کیا اور جواب کھوجتے کھوجتے ان بزرگوں جیسا ہی بنتا چلا گیا-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں