ایاز میلے پر /محمد عامر حسینی

اگر کوئی کمیونسٹ این جی اوز کو من حیث الکل سامراج کی خدمت گزار قرار دے کر کسی دوسرے کمیونسٹ کی کسی این جی او کے عوامی مذاکرے یا سیمینار میں بطور مقرر محض شرکت کو “موقعہ پرستی ” قرار دیتا ہو تو بھی اس کا موقف اصولی طور پر درست نہیں ہے – ہاں اگر کمیونسٹ مقرر وہاں جاکر اس این جی او کی مبینہ سامراج نوازی یا سرمایہ داری کی کسی بھی شکل کی حمایت کو جائز ٹھہرائے اور اپنے موقف کو پس پشت ڈال دے تب وہ واقعی موقع  پرست کہلائے گا ۔
ایسے ہی اگر کمیونسٹ نظریات رکھنے والے سیاسی دانشور ، ادیب کو کسی ایسے فیسٹیول/میلے یا سیاسی یا ادبی کانفرنس میں خطاب کی دعوت ملے جسے کسی حکومتی سرکاری ادارے یا کسی مقامی یا بین الاقوامی سرمایہ دار ایک یا ایک سے زیادہ کمپنیوں کی سپانسر شپ حاصل ہو اور اس فیسٹیول میں عوامی طبقات کی بڑی تعداد کی شرکت متوقع ہو تو میرے خیال میں اسے اس دعوت کو رد نہیں کرنا چاہیے وہاں جاکر اپنے نظریات اور خیالات کا بغیر کسی مصلحت کے اظہار کرنا چاہیے- وہ اپنے خطاب میں وہ سب کچھ کہے جو اسے اپنے نظریات کے عین مطابق لگتا ہو- وہ اگر سفری ، قیام و طعام کے اخراجات خود برداشت کرتا ہو یا جس تنظیمی نظم سے وہ وابستہ ہو وہ اس کا انتظام کرے تو یہ مثالی اور زیادہ قابل تعریف اقدام ہوگا لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اسے منتظمین کی طرف سے اس کے انتظام کو قبول کرنے میں کوئی حرج دکھنا نہیں چاہیے ۔
مجھے ایاز میلو کوئی ایسا خاص سرکاری امداد سے منعقد ہونے والا پروگرام نہیں لگتا- نہ ہی یہ کوئی انقلابی ایونٹ ہوتا ہے- اس کی زیادہ سے زیادہ جہت لبرل ترقی پسندانہ نوعیت کی ہوتی ہے اور اس کے منتظمین نے اس میلے کو کبھی “انقلابی ایونٹ ” قرار بھی نہیں دیا ۔
مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ ایاز میلے کو آج تک حکومت سندھ نے کبھی کوئی مالی امداد فراہم نہیں کی – نہ ہی سندھ کے محکمہ ثقافت نے اس پروگرام کے لیے اپنے بجٹ میں فنڈ مختص کیے ہیں –
ایاز میلے کے آرگنائزرز عرصہ دراز سے سندھ حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سالانہ بجٹ میں جس طرح سے کراچی آرٹس کونسل کے لیے گرانٹ رکھتی ہے ایسے ہی وہ کیفے خانہ بدوش کے لیے بھی گرانٹ رکھے اور ایاز میلو کے لیے بھی انھوں نے سندھ حکومت اور محکمہ ثقافت سندھ سے سپانسر شپ کا مطالبہ کیا لیکن دس سالوں میں ایک مرتبہ بھی اس مطالبے کو منظور نہیں کیا گیا – ایاز میلہ ہو یا کوئی اور پروگرام کیفے خانہ بدوش کی انتظامیہ اب تک انفرادی چندے پر ہی انحصار کرتی آئی ہے ۔
میرے نزدیک جب کیفے خانہ بدوش کی انتظامیہ کا کوئی کمیونسٹ انقلابی آدرش ہے ہی نہیں تو اس کے ایسے مطالبات کو موقع  پرستی قرار دینا کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے – اور اس سے پر یہ الزام لگانا تو سراسر بہتان ہی ہے کہ ایاز میلو حکومت سندھ یا اس کے کسی ادارے کی سپانسر شپ سے منعقد ہو رہا ہے جبکہ ایسی کوئی سپانسر شپ موجود ہی نہیں ہے ۔
شیخ ایاز سندھی 1975ء سے قبل تک بھی انقلابی کمیونسٹ نظریات اور اس کے مطابق عملی سیاست کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی وہ کبھی کسی کمیونسٹ پارٹی کے رکن رہے تھے – ان کا شعری اور نثری ادبی و غیر ادبی مجموعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے ایک سوشل ڈیموکریٹ سنٹر لیفٹ اور ترقی پسند سندھی قوم پرستانہ نظریات کے حامل تھے اور جیسا کہ ایک پیٹی بورژوازی ترقی پسند دانشور میں جو خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں وہ ان کا مجموعہ تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان زندگی پر خالص اشتراکی نظریات سے کہیں زیادہ ترقی پسند سندھی قوم پرست نظریات کا غلبہ تھا تو کچھ غلط نہ ہوگا- وہ زندگی میں کبھی پیٹی بورژوازی طبقاتی پس منظر سے مکمل طور پر دستبردار ہوکر ایک مکمل ڈی کلاس انقلابی اشتراکی دانشور بھی نہیں رہے تھے – وہ ون یونٹ کے خلاف تحریک کا حصہ ہونے اور سندھی ترقی پسند قوم پرستانہ نظریات کے سبب قید و بند کا نشانہ بنے تھے اور اپنی میچور سیاسی بلوغت کے زمانے میں ایک ایسے ترقی پسند جمہوری دانشور تھے جو طبقاتی تضاد سے پہلے قومیتی تضاد کے حل کو ترجیح دیتے تھے جو عام طور پر پاکستان میں ہٹ ترقی پسند سوشلسٹ قوم پرست کا نظریہ رہا ہے – ظاہر ہے یہ روش کسی مارکسسٹ -لیننسٹ نظریات کے حامل انقلابی کی نہیں ہوسکتی ہے ۔
ایاز سندھی کی تحریروں میں میں نے ان جاگیردار، سردار اور خوانین قوم پرستوں کی ان کے طبقاتی پس منظر کو لیکر کبھی ان پر انقلابی کمیونسٹ تنقید نہیں پائی جو 50ء کی دہائی سے پاکستان کی سیاست میں جمہوریت، ریاست پاکستان کو پانچ قومیتوں پر مشتمل فیڈریشن یا کنفیڈریشن بنانے کی جدوجہد شریک میں شریک تھے اگرچہ وہ کبھی پاکستان میں زرعی اصلاحات کے حامی نہیں رہے تھے – اگرچہ شیخ ایاز سندھی پاکستان میں زرعی اصلاحات کے حامی تھے – وہ سندھ میں ہاری کمیٹی کو بھی سپورٹ کرتے تھے اور ان کی شاعری میں جگہ جگہ ہاریوں کا استحصال اور ان پر جبر کرنے والے جاگیرداروں پر تنقید بھی ملتی ہے ۔
شیخ ایاز رجعت پرستی کی جتنی جاگیردارانہ ثقافت سے جڑی اشکال تھیں ان کے خلاف ان کا موقف ترقی پسندانہ تھا جو کی ہر مارکس وادی تعریف کرتا ہے – لیکن بھٹو دور میں وہ بھٹو حکومت کے غیر جمہوری ، غیر ترقی پسندانہ ، جاگیردارانہ اور آزادی اظہار و آزادی صحافت کے منافی اقدامات اور اس دوران محنت کشوں پر ریاستی تشدد اور جبر پر خاموش رہے اور بطور وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی ان کا رویہ بھٹو حکومت کی طرف غیر تنقیدی رہا اور بائیں سمت سے وہ اس پر اپنی شاعری اور ادبی و غیر ادبی نثر میں تنقید نہ کر پائے تو انھیں ترقی پسندوں کے ایک سیکشن کی جانب سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور ان پر یہ تنقید بالکل درست تھی – ان کی خاموشی کو انقلابی اشتراکیوں نے ہی نہیں بلکہ ترقی پسند قوم پرستوں نے بھی شدت سے محسوس کیا وہ ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے ۔
شیخ ایاز سندھی کا سب سے کمزور ترین کردار اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے ملک میں مارشل لاء لگنے کے باوجود سندھ یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا بلکہ وہ ایک رجعت پسند مذھبی انتہا پسند آمر جرنیل کو خوش کرکے اپنی وائس چانسلر شپ بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آئے – ان کے اس کردار پر خاموش رہنا کسی صورت بنتا نہیں تھا اور اس کو آج بھی کسی حیلے بہانے سے جواز فراہم کرنا نہ تو ٹھیک ہے اور نہ ہی اس طرح کا موقف درست ہے ۔
شیخ ایاز کے بارے میں ایک بات تو درست ہے کہ ان کی ترقی پسند مزاحمتی جمہوری انقلابی زندگی اور کارنامے ان کی رجعت پرستانہ کمزوری سے کہیں زیادہ بڑے ہیں اور اسی وجہ سے وہ زندہ بھی ہیں اور محنت کش طبقات، مظلوم و محکوم کچلے ہوئے پسے ہوئے مجبور گروہوں میں ان کی عزت اور احترام بھی ہے ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply