اُردو غزل نے گزشتہ آٹھ سو برس سے اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کرولیؔ دکنی اور ولیؔ دکنی سے مرزا غالبؔ تک اُردو غزل کا سفر شاندر رہا ہے۔ مرزا داغ ؔسے حسرتؔ موہانی اور اقبالؔ و فیض ؔسے ہوتا یہ سفر آج اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے۔ اُردو غزل کی زلفوں کو سنوارنے کے لیے ہزاروں شعرا نے اپنی عمریں صرف کیں ہیں۔ اس لحاظ سے اُردو غزل کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے ایسے شعرا میسر آئے جنھوں نے اس صنف کو بامِ عروج تک پہنچانے میں کلیدی کرداد ادا کیا۔
اُردو غزل میں پہلے پہل عورتوں سے متعلقات کا ذکر کیا جاتا رہا ،بعدازاں دیگر موضوعات کو بھی جگہ دی جانے لگی۔ محبت،پیار،عشق اوررومان کے موضوعات کے ساتھ سیاست ،معاشرت،تہذیب و ثقافت نے بھی جگہ پائی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اُردو غزل سیاست کے رنگ میں شرابور ہوگئی۔خاص طور سے قیام ِ پاکستان کے بعد کی سیاسی صورتحال یعنی مارشل لا اور ڈیکٹیٹر شپ کے ماحول میں محبت پیار اور حُسن و عشق کے راگ الاپنے والےشعرا نے سیاسی موضوعات پر مزاجی و مزاحمتی رنگ میں کھل کر لکھا۔
ان شعرا نے اپنے زمانے کے آمروں ،جاگیر داروں،سرمایہ داروں،چوروں،لٹیروں اور قبضہ مافیہ کے سرغنوں کے خلاف اعلانِ بغاوت کیا جس کی پاداش میں انھیں جیلوں میں قید کیا گیا ،بیشتر شعرا کو ملک سے دیس نکالا دیا گیا اور بہتوں کو تہ تیغ کرنے کی کوشش کی بھی کی گئی۔ 1970 سے 1980 کی دہائی کی اُردو غز ل کا رنگ پوری طرح مزاحمتی ہوچکا تھا۔
عدیم ہاشمی کا ذکر اس حوالے سے خصوصیت کا حامل ہے کہ اس شاعرِ بے مثل کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا گیا۔ 1970 کی دہائی میں حلقہ ادب میں تیزی سے اُبھرنے والے اس شاعر کے مصرعوں میں بلا کی کاٹ اور طنز کا نشتر پایا جاتا تھا۔عدیم ہاشمی نے اس بات کو شدت سے محسوس کر لیا تھا کہ مفاہمت نہیں کروں گا خواہ جان و جہاں سے گزرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ عدیم ہاشمی کے ساتھ وہی ہوا جو اس دور کے دیگر باغی شعرا کے ساتھ ہوا کہ انھیں ملک سے نکل کر دیارِ غیر میں پناہ لینا پڑی اور گمنامی کی حالت میں طویل بیماری کا شکار ہو کر دُنیا سے 05 نومبر 2001 میں کوچ کرنا پڑا۔
عدیم ہاشمی کا اصل نام ‘فصیح الدین’ اور تخلص ‘عدیم’تھا۔ یکم اگست 1946 کو’ فیروز پور’ موجودہ انڈیا میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم روایتی ماحول میں ہوئی۔ ان کے والدین صوفی مزاج کے حامل تھے جن کی تربیت نے عدیم کے شعور کو جلا بخشی۔ عدیم کا بچپن برصغیر کی زرخیر زمین پر فطری ماحول میں گزرا۔1947 میں برصغیر کےبٹوارے کے نتیجے میں ان کا خاندان ہجرت کر کے فیصل آباد موجودہ پاکستان میں آگیا ۔ عدیم ہاشمی نے تعلیم کی تحصیل فیصل آباد میں کی ۔ تلاشِ معاش میں انھوں نے کئی شہروں کا سفر کیا۔ آخر شہرِلاہور کو اپنا مسکن بنا یا۔ شعر و شاعری سے دلچسپی بچپن سے تھی۔ شعور سنبھالا تو کچھ کہنے لگے اور بہت جلد انھیں یہ محسوس ہو گیا کہ انھیں کچھ کہنے کا ہنر عطا کیا گیا ہے۔ عدیم نے کلاسیکی شعرا کے جملہ دواوین کو پڑھ ڈالا اور اپنے ہم عصر کے اندازِ اُسلوب سے متاثر ہونے کی بجائے شاعری میں اپنا اُسلوب متعارف کروانے کی کوشش کی۔
عدیم ہاشمی نے ملازمت کے حصول کے ساتھ شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا۔ان کی غزل میں وہ تابناکی تھی جس کی چمک دور دور تک محسوس کی جانے گلی۔ مشاعروں میں سوز میں پڑھی گئی غزلیات کے دل پذیر تاثر نے انھیں ادبی حلقوں میں ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کروایا۔ ان کا کلام پاکستان و ہندوستان کے معرو ف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہونے لگا ۔یوں ان کی پہچان ایک منفر د شاعر کی حیثیت سے حلقہ ادب میں ہوئی۔ اس دوران انہوں نے ریڈیو، ٹی وی کے لئے گیت لکھے اور گاہے گاہے پی ٹی وی کے لئے ڈرامے بھی تخلیق کئے۔’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘،’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ اور’بہت نزدیک آتے جارہے ہو‘ان کے شعری مجموعے ہیں۔
عدیم ہاشمی کو ان کی باغیانہ سوچ ،فکر اور فلسفہ کی بنیاد پر جنرل ضیاالحق نے ملک سے دیس نکالا دیا تھا ۔یہ اُس وقت پاکستان کےمشہور شعرا میں سرفہرست تھے۔ ان کے ساتھ دسیوں اور اشعار کو اسی عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ان کے بچے اور خاندان کے دیگر افراد انتہائی مشکل میں زندگی کے ایام بسر کر رہے تھے کہ اس صدمے نے انھیں شکستہ پا کر ڈالا۔ دیارِ غیر میں پناہ کی غرض سے انھوں نے کئی ممالک میں سیٹل ہونے کا ارادہ کیا تاہم شکاگو میں دوست دیرینہ کے توسل سے انھیں پناہ ملی جہاں انھوں نے زندگی کے بقیہ ایام گزارے۔
عدیم ہاشمی کی شاعری میں وہ سبھی عناصر موجود تھے جو انھیں ایک باغی مزاحمت پسند شاعر قرار دینے کے لیے کافی تھے۔ عدیم نے ملک دُشمن عناصر اور آمروں کی حاکمیت سے سمجھوتہ کرکے ان کی خوشامد کرنے کی بجائے خود کو مردود کہلوا کر دیارِ غیر میں در بدر ہونا گوارا کر لیا لیکن اپنے شعور اور ضمیر کو بیچنا تسلیم نہ کیا۔
عدیم ہاشمی بلاشبہ جدید اُردو غزل کا چہرہ ہے۔ ان کی غزل میں جملہ فنی و فکری عناصر کی پیش کش موجود ہے جو اسے کسی بھی بڑے شاعر کے ہم پلہ قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ عدیم ہاشمی کے ساتھ دوہرا ظلم یہ ہوا کہ ان کی شاعری کو وہ عزت،وقار اور شناخت نہ مل سکی جس کے یہ ہمیشہ سے مستحق رہے ہیں۔
عدیم ہاشمی کی غزل کا رنگ و آہنگ اپنے اندر کئی امتیازی صفات لیے ہوئے ہے۔ عدیم ہاشمی کی غزل کا ابتدائی دور رومان پرور تھا بعدازاں انھوں نے اپنے لب ولہجے میں خاصا تنوع اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کے مصرعوں میں تلوار کی کاٹ کا اثر پیدا ہوا جو اسے اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ عدیم ہاشمی کو شہرت عطا کرنے والے اشعار کا لب ولہجہ اور زبان و انداز ملاحظہ کیجئے:
فاصلے ایسے بھی ہوں گے سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا وہ مرے اور وہ میرا نہ تھا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا
بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کاملاپ
اُڑا دئیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے
ان اشعار میں عدیم کی شاعری کا رنگ و آہنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عدیم ایک پیور قسم کا خالص شاعر ہے جس کے ہاں محبت کا جذبہ سے دیدنی دکھائی دیتا ہے۔ عدیم کی شخصیت میں انسان سے محبت کرنے اور احترام سے پیش آنے کا انداز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ عدیم کی شاعرانہ تربیت ایک خاص انداز میں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاں باہم احترامِ آدمیت کے فلسفہ کا عالمگیری تاثر نظر آتا ہے۔ عدیم کے ہاں عدم برداشت،عدم مساوات اور غیر فطری انداز زیست کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ان کے لب ولہجے میں ایک طرح کاٹھہراؤ اور وقار نظر آتا ہے جو غزل کی لطیف صنف کے لیے موزوں ہے۔ بطو ر نمونہ اشعار دیکھیے:
ہوا ہے جو سدا اُس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بھول جانے کے سوا ب کوئی بھی چارہ نہ تھا
ماہ اچھاہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
ایک شاعر کے ہاں یہ بے نیازی بہت کم دیکھی گئی ہے۔ شاعر کی لااُبالی طبیعت میں شدتِ ادا کی موزونی پائی جاتی ہے۔ شاعر ہر وقت بے چین و بے قرار اور مضطرب رہتا ہے کہ اس کی فکر کا دھارا منہ زور دریا کی مانند رواں رہتا ہے۔ عدیم کے ہاں ہیجانی کی یہ صورت نہیں ہے ،عدیم جو کہنا چاہتا ہے بڑے اطمینان اور ضبط کے ساتھ کہہ دیتا ہے۔ عدیم کی غزل کا ایک ایک شعر اپنے اندر جذبے کی شدت کو اعتدال کی دوڑی میں مقید کیے محسوس ہوتا ہے۔
آمر آتا ہے چلا جاتا ہے،ظالم ظلم کرتا ہے او رمظلوم اسےب فراموش کر دیتا ہے۔ظلم و جور کا یہ رواج صدیوں سے برصغیر کی رعایا کا مقدر بن چکا ہے۔ اس دھرتی نے سینکڑوں جابر حملہ آوروں اور سفاک بادشاہوں کے دورِ حکومت کو دیکھا اور ان کی زیادتیوں کو سہا ، اس کے باجود اس دھرتی نے ہمیشہ پھول ہی کھلائے ہیں اور سر سبز و شاداب رہنے کی ضد کی ہے۔
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دُنیا کی پستی میں اُتر جانا نہیں آتا
بکتا تونہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اُٹھائے کوئی آکر
زباں نے جسم کاکچھ زہر تو اُگل ڈالا
بہت سکون ملا تخلی نوا سے مجھے
عدیم ہاشمی کے ہاں صرف باغیانیہ عناصر کے موضوعات کی گہری چھاپ نہیں ہے بلکہ ان کے ہاں ہر وہ رنگ موجود ہے جو کلاسیکی غزل سے لے کر جدید اُردو غزل تک شعرا کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ عدیم نے غزل کے رنگ و آہنگ کو خاص اُسلوبِ بیان کے تیشے سے مقیش کیا ہے۔ محبت و اُنس ، ہمدردی و غم سوزی اور دلدوزی کا بیان عدیم کی غزل کا سراپا ہے۔ عدیم نے محبوب سے گلہ کرنے کی بجائے اس کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کی ہے۔ عدیم کے ہاں محبت کا تصور آفاقی سطح پر ٹریٹ ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ تسلیم ورضا کی اس ہم آہنگی نے عدیم کی غزل کو ان کے ہم عصر سے جُداگانہ شناخت عطا کی ہے۔
آؤ پھر دل کے سمند رکی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی ،وہی مچھلی،وہی جال اچھا لے
شام کے ہاتھ نے جس وقت لگائی مہندی
مجھے اُس وقت ترا رنگ ِحنا یاد آیا
آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
عدیم ہاشمی کی غزل کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کے ہاں کلاسیکی روایت کے تتبع کے باوجود جدت کی آمیزیش ملتی ہے۔ عدیم نے غزل کے فن کو عطائی خیا ل کیا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ و خیال کا دروبست ایسا منجھا ہوا ہے کہ اشعار کی روانی اور آمد کی شدت دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ شاعر کس طرح کائنات کے آفاقی نظام کےبارے میں سوچتا ہے اورزندگی کے تصور کو بقا کے زاویے سے متصل کر کے دیکھتا ہے۔
عدیم کا دینی تصور بہت واضح تھا۔ انھوں نے معتوب ہونے کے باوجود مشرقی اقدار کے رکھ رکھاؤ سے انحراف نہیں برتا بلکہ اپنی اُولاد کی تربیت بھی قدیم روایت کے کڑے معیار کے مطابق کی ہے۔ تہذیب و تمدن کی رقصاں پرچھائیاں عدیم کی غزل میں برابر جھلکتی ہیں۔
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
ایک دن تو ختم ہوگی لفظ و معنی کی تلاش
ایک دن تومجھ کومیرا مدعا مل جائے گا
زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا
عدیم ہاشمی کے کلام کا تجزئیاتی جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عدیم ہاشمی کی غزل تعمیری انداز کی حامل ہے جس میں فن اور فن کی باہمی آمیزیش کا وصف کمال خوبصورتی سےمدغم ہے۔ عدیم کے ہاں وہ سبھی رنگ موجود ہیں جو ان کے ہم عصر شعر اکے ہاں مستعمل ہیں۔ عدیم کی شخصیت،شاعری اور زندگی باہم متصل ہے،اس کے درمیان کہیں کوئی خلا موجود نہیں ہے ۔عدیم نے جس طرح زندگی گزاری ویسے ہی رقم کر دی۔
عدیم کے ہاں ظاہر وباطن کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ یہ ایک سچا،کھرا اور نرمل شاعر ہے جس پر نقادوں نے بہت کم توجہ دی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی شاعری کو پرکھا جائے اور ان کے کلام کے معیار کے پیشِ نظر انھیں وہ مقام دیا جائے جس کے یہ ہمیشہ سے مستحق رہے ہیں۔ مذکورہ رائے کے پیشِ نظر عدیم ہاشمی کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے جو آپ کو عدیم ہاشمی کی شاعرانہ قد رو قیمت کی تعین کے لیے مہمیز کر سکتے ہیں۔
اگر صحرا میں ہیں تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا
تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کا
تمہار اوصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آو
چاٹ لی کرنوں نے میرے جسم کی ساری مٹھاس
میں سمندر تھا وہ سورج مجھ کو صحرا کر گیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں