بربریت/ڈاکٹر مختیار ملغانی

“حقیقی راکشس بیرونی فطرت میں نہیں، بلکہ انسانی ذہن میں پایا جاتا ہے ”

یہ الفاظ معروف ادیب ولیم گولڈنگ کے ہیں۔
تاریخ کے سیاہ ترین ادوار میں انسانی فطرت نے بربریت کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جس کا موازنہ کسی دوسری مخلوق سے ممکن نہیں، بعض اوقات تو بربریت کی یہ تاریخ بظاہر کسی ذاتی فائدے اور مقصد کے بغیر بھی رقم کی جاتی رہی۔
اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ظلم کو برپا کرنے میں ظالم کو جو کچھ درکار ہے وہ ان تمام انسانوں کی غیر فعالیت ہے جو درد دل رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ کسی بھی وحشت کو برپا کرتے وقت گنتی کے چند افراد ہی بربریت کا آغاز کرتے ہیں اور اسے انجام تک پہنچانے میں بھاری اکثریت کی خاموشی کار فرما ہوتی ہے۔
ظالمانہ خاموشی کی یہ وجہ سماج میں بتدریج پروان چڑھتی ہے، تمام اخلاقی بھاشن اور مذہبی اصول یہ سوچ کر پیچھے دھکیل دیئے جاتے ہیں کہ عملی زندگی میں یہ سب تجریدی تصورات ہیں، حقائق کہیں تلخ ہیں اس لئے انسان کو زندگی کی جدوجہد میں فضول اخلاقیات سے جان چھڑا لینی چاہئے اور ویسے بھی اخلاقیات کا حسن اسی میں ہے کہ اسے دوسروں پہ تھوپا جائے، اپنی ذات کیلئے عملی زندگی کے تقاضوں کو اہمیت دینی چاہیے ۔

اجتماعی بربریت کی شروعات فرد سے ہوتی ہے، مادی آسائشوں کو لے کر فرد بہت لالچی واقع ہوا ہے، ان آسائشوں کو تلاشتے وقت جب وہ سماج میں اٹھتا بیٹھتا ہے تو اپنی کامیابی میں ، ھذا من فضل ربی ، کو ہی اصل وجہ بتاتا ہے، یہاں سے اس کی دوہری شخصیت کا جنم ہوتا ہے، شخصیت کی دوئی اسے اپنے چہرے پر ایک طرف ماکیاولی اور دوسری طرف حاجی صاحب کا نقاب چڑھانے پر مجبور کرتی ہے، میلاد کی محفلیں بھی جاری ہیں اور غریب کی جیب کاٹنے سے بھی دریغ نہیں، یہ رویہ وقت کے ساتھ عادت بنتے ہوئے کردار میں بدل جاتا ہے، یہاں صحیح اور غلط کی تفریق ختم ہو جاتی ہے، صرف فائدہ مدِنظر رہتا ہے اور عموماً خالص فائدے کیلئے صلہ رحمی کی بجائے طبیعت کی سختی درکار ہوتی ہے، طبیعت کی یہ سختی کب بربریت میں بدل جائے فرد کو معلوم ہی نہیں پڑتا ۔

انسانی شخصیت میں تین عناصر بڑے زور آور ہیں، تخیل، عقل اور ارادہ، تخیل یعنی فینٹسی ہمدردانہ جذبات سے پروان چڑھتی ہے، انسان خود کو ایدھی یا مدر ٹریسا تصور کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے، تخیل کی یہ قوت بے لگام ہو تو انسان کو یقین ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہا ہے ، لوگوں کا مددگار ہے، مسجد کی تعمیر بھی جاری ہے، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ بیمار فینٹسی پوری طرح ارادے (will) کے تسلط میں چلی جاتی ہے اور ارادہ ہر طرف سے بربری جذبات سے گھرا ہے، اچھا ہونے کا بیمار تصور جب ارادے کی بربریت میں قید ہوگا تو پھر انسان خود کو فرشتہ سمجھتے ہوئے بھی شیطانی امور سر انجام دے گا، اور عقل ہر وہ حربہ استعمال کرے گی کہ انسان اپنی اور سماج کی نظر میں فرشتہ ہی معلوم ہو، اس لئے اچھا انسان بننے کی خواہش ان حدود میں رہنی چاہیے جتنا آپ کو سماج ، جیب اور صحت اجازت دیتی ہیں۔

زندگی کی کسی سٹیج پہ اگر ایسے انسان کی آنکھ کھل جائے کہ وہ اب تک خود کو دھوکا دیتا رہا، حقیقت میں وہ خیر کا نہیں بلکہ شر کا علمبردار ہے تو یہاں گاہے بھیانک ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے، اخلاقی گہرائی کی معدومیت اسے ہٹ دھرمی پہ مجبور کرتے ہوئے مزید ظلم کی طرف دھکیل سکتی ہے، ملٹن کی گمشدہ جنت میں شیطان اس کیفیت سے گزرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے کہ جنت میں محکوم رہنے سے بہتر ہے کہ دوزخ کے حاکم کا عہدہ سنبھال لیا جائے، فرد بعینہ اسی نفسیاتی حالت سے گزرتا ہے کہ اگر آخری ٹھکانہ جہنم ہی ٹھہرا تو دو چار چھوٹی موٹی بے ایمانیوں سے بہتر ہے کہ ایک ہی دفعہ بڑا ہاتھ ڈالا جائے۔ ایسے میں وہ محدود ظلم و تشدد کی بجائے بھیانک بربریت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اسی لئے کسی شخص کو آئینہ دکھانے کی کوشش میں سنار والی لطافت سے کام لینا چاہئے، لوہار والی چوٹ اس کا وہ چہرہ بے نقاب کر سکتی ہے جس کا آپ نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کارل یونگ کا یہی کہنا تھا کہ انسان کو یہ جان لینا چاہیے کہ خیر و شر کے دونوں عناصر اس کی شخصیت کا حصہ ہیں، عموماً شر کی بابت فرد یہ ماننے سے انکار کرتا ہے اور پھر اسی گڑھے میں منہ کے بل گرتا ہے، بہتر یہی ہے کہ خود میں شر کی موجودگی کا اقرار کرتے ہوئے توازن کو برقرار رکھا جائے تاکہ فرد اور سماج ، دونوں محفوظ رہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply