ریاست ہو گی ڈائن جیسی؟- احمد شہزاد

طویل عرصے سے سُنتے آئیں ہیں کہ ” ریاست ہو گی ماں کے جیسی” ریاست کو ماں کہا جاتا ہے کیونکہ ماں کا دل نرم گداز سمندر جیسا گہراا ور آسمان کی طرح وسیع ہوتا ہے۔ ماں اولاد سے حد درجہ پیار کرتی ہے ، نفرت کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ غلطی در غلطی پر معاف بھی کرتی ہے اور سینے سے بھی لگاتی ہے۔ کبھی کبھار اولاد کا لہجہ تلخ بھی ہو جاتا ہے تو معاف کرنے کا حوصلہ ماں کا ہی ہوتا ہے۔
ریاست ہو گی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی
دیکھا جائے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس ریاست کو ایک سیاسی جمہوری فیصلے کی صورت حاصل کیا گیا ۔ افسوس تو اسی بات کا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس جمہوریت کو آمریت کے شکنجے میں جکڑدیا گیا ہے۔ ریاست کا بنیادی مقصد اپنے ہر شہری کو تحفظ اور امن و امان فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بلا خوف وخطر گزار سکے ۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 16 ریاست کے ہر شہری کو پُرامن احتجاج کا حق دیتا ہے جبکہ احتجاج کو آمریت کی بنا پر ریاست مخالف تصور کیا جاتا ہے ، ریاست حقِ آواز بلند کرنے والے کو کچلنے کے درپے رہتی ہے۔
26 نومبر 2024 کا دن بھی کلینڈر پر ایک سیاہ دھبے کی طرح ثبت ہو گیا ہے۔نہتے پُرامن سیاسی کارکنوں کے احتجاج کو بزورِ طاقت ختم کرنے کے لیے وقت کے جنرل ڈائر نے اسلام آباد کی شاہراؤں کو جلیاں والا باغ بنا دیا گیا۔رات کی تاریکی میں مکمل بلیک آؤٹ کرتے ہوئے ریاست کے “عظیم سپوتوں” نےدشمن کا منہ توڑنے کی بجائے اپنے ہی بیٹوں کے جگر چھلنی چھلنی کر دیئے۔ جیسے جیسے فائرنگ شدید ہوتی گئی نہتے پُرامن لوگ لہولہان ہو کر ڈھیر ہوتے گئے۔
وہ ریاست جو ماں ہے اُسے ڈائن بنتے دیر نہیں لگی ۔ ڈائن وہ خون آشام بلا جو اپنے ہی بچوں کا خون پیتی ہے ۔اندھا دھند فائرنگ اور لہولہان جسم بربریت کی ایک نئی داستان رقم کر گئے ، ایسی قتل و غارت پر امرتا پریتم کے الفاظ میں وارث شاہ کو یاد کیا ” اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول”پھر دوسرے ہی لمحے ایک اور مصرعہ سماعتوں میں گونجا”اج بیلے لاشاں وِچھیاں تے لہو دی بھری چناب” چند عاقبت نا اندیشوں نے اسلام آباد کی شاہراؤں کو لاشوں سے سرخ کر کے چناب بنا دیا ۔پھر ایسے میں احمد فراز کی یاد آئی کہ اس نے کہا تھا
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو اتنی غارت گری کس کی ایما پہ ہے
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے کس کی خاطر ہے کشت و خوں غازیو
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں
پھر ذہن میں فیض کے شعر گونجنے لگے
جا بہ جا ” گرتے ” ہوئے کو چہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
نثار میں تیری گلیوں میں اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی سر نہ اٹھا کے چلے
سانحہ 1971 ہو، اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجدکا واقعہ ، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ، بلوچ و دیگر نوجوانوں کا اغوا، ریاست ہر موقع پر ناکام ہی دکھائی دی ہے ۔ اس سے بھی بڑا المیہ تو 26 نومبر کو یہ ہوا کہ حکومت نےلاشوں اور زخمیوں کا ریکارڈ چھپا کر جمہوریت کو زندہ لاش بنا دیا ۔
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
حکومت نے نیشنل میڈیا کو تو کنٹرول کر لیا لیکن انٹرنیشنل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور آزاد صحافیوں کو کنٹرول نہیں کر سکے، باضمیر صحافی اور وی لاگرز نے حقیقت کھول کر بیان کر دی۔ جہاں پورا معاشرہ گراوٹ کا شکار ہے وہاں عدلیہ بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئی حالانکہ عدل کا منصب اللہ نے ان منصفوں کو دیا ہے وائے افسوس کہ قتلِ عام پرآنکھیں موندے ہوئے ہیں۔
جبر کا ماحول ہے ، ظلم کا بازار خوب گرم ہے، جن کے پیارے زندگی کی بازی ہار گئے وہ غم و الم کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ اہلِ سیاست کے سینے میں دل تو ہوتا نہیں ، مخالف سیاسی رہنما لاشوں اور زخمیوں کی تعداد پر ٹھٹھا اور تمسخر اُڑا رہے ہیں حکومت اور وزراء سرے سے انکار کر رہے ہیں۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ حرف کی حرمت کے داعی بھی سچ سے گریزاں ہیں۔ریاستی اداروں کی طرف سے طاقت کا استعمال معاشرتی توازن کو بگاڑ دیتا ہے ، نفرت کو بڑھاتا ہے ۔ ایسا عمل ریاست کے وجود کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ریاستی انکار اور بربریت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بہت سی ماؤں کو اپنے بیٹوں کے لاشے بھی میسر نہ ہوں گے جنہیں منوں مٹی میں دفنائے بغیر قرار بھی نہیں ملے گا ، ریاست ان ماؤں کو کیسے دلاسہ دے گی اور زخموں پر مرہم کیسے رکھے گی۔
جب جسم لہو لہو، دامن زخم زخم اور آنکھ اشک اشک ہو تو ایسے میں نفرتوں کے دھارے پھوٹتے ہیں اور پھر یہی نفرتوں کے دھارے سیلاب بن کے ریاست کے وجود کو خس و خاشاک کی طرح بہا کے لے جاتے ہیں۔ ایسے میں کاش !!! کوئی تو ہو جو غمزدوں کی ڈھارس بنے ،انہیں تسلی اور اطمینان کی دولت سے نوازے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply