ذوق تخیل ۔ فائن مین (2)-محمد علی شہباز

رچرڈ فائن مین مشہور امریکی طبیعات دان تھے جنہیں 1965 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ اپنے مشہور زمانہ فزکس کے لیکچرز اور کتابوں اور انٹرویوز کی مدد سے سائنسی صحافت کے کام لئے مشہور تھے۔ انکا یہ انٹرویو 1983 میں بی بی سی لندن سے نشر ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ و مختصر ردوبدل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔

ربڑ کے بینڈز

اکثر چیزیں جو لچکدار ہوتی ہیں ان میں لچک کی قوت دراصل برقی قوت ہی کی شکل میں ظاہر ہورہی ہوتی ہے۔ کسی چیز کو موڑتے وقت اس کے مختلف ایٹم ایک دوسرے سے دور ہونے لگتے ہیں اور چونکہ ان میں کشش ہوتی ہے اسلئے ایٹم دوبارہ آپس میں جڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ربڑ کے بینڈز کا اصول مختلف ہے۔ ان میں مالیکیولوں کی زنجیریں ہوتی ہیں جن سے دوسرے ایٹم مسلسل ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔ مالیکیولوں کی زنجیریں مختلف شکل کی ہوتی ہیں۔ جب ربڑ بینڈ کو کھینچا جاتا ہے تو یہ زنجیریں سیدھی لائن کی شکل میں آجاتی ہیں۔ دوسرے ایٹم ان سیدھی زنجیروں سے ٹکراتے رہتے ہیں اور انکی شکل بگاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر یہ زنجیریں اپنی پہلی شکلوں میں واپس جانے لگتی ہیں۔ آپ یہ دلچسپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اگر ایک ربڑ بینڈ کو لٹکا کر اس پر کوئی وزن ڈالیں اور پھر آگ کی لو سے اسکو گرم کریں تو یہ زیادہ مضبوط ہونے لگتا ہے اور سکڑنے لگتا ہے۔ ایک اور مشاہدہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بینڈ کو تیزی سے کھینچ کر سیدھا کریں تو بھی یہ گرم ہونے لگے گا کیونکہ اسکے مالیکیولوں کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور اگر اسکو تیزی سے سکڑنے دیا جائے تو مالیکیولوں کی توانائی واپس ماحول میں منتقل ہونے لگتی ہے اور یہ بینڈ سرد ہوجاتا ہے۔ یہ تجربہ کرنے کے لئے ایک ربڑ بینڈ کو دانتوں میں پکڑ کر زور سے کھینچیں تو آپ کو ہونٹوں کے درمیان بینڈ کا حصہ گرم لگے گا اور تیزی سے سکڑنے پر سرد لگے گا۔

میں اکثر ربڑ بینڈ سے بہت لطف اٹھاتا ہوں۔ جیسے کاغذات پر چڑھائے ہوئے ایک ربڑ بینڈ کو دیکھئے جو کافی عرصہ سے کسی جگہ پڑے ہوئے ہوں۔ کاغذوں کو باندھ کر رکھنے کے لئے یہ ربڑ بینڈ کے ایٹم مسلسل مالیکیولوں کی زنجیروں سے ٹکراتے رہتے ہیں تاکہ انکی شکل بگاڑ سکیں اور یہ سلسلہ مہینوں یا سالوں تک چلتا ہے (جب تک مالیکیولوں کی زنجیریں ٹوٹ نہیں جاتیں)۔ اس طرح دنیا کی تمام اشیاء حتمی تجزیے میں محض بے ہنگم تھرتھراہٹ سے بھری پڑی ہیں۔ بس آپ ذرا (بظاہر رکی ہوئی) چیزوں کو اتنا نزدیک سے دیکھیں کہ آپ کو یہ چھوٹے چھوٹے ایٹم یا مالیکیول نظر آسکیں تو ہر چیز دراصل تھرتھراہٹ کی ایک بے ہنگم تصویر بن کر رہ جائے گی اور کسی شے کی اپنی الگ کوئی خاص ماہیت نہیں ملے گی۔ یہ تو انسانوں کی خوش قسمتی ہے کہ ایٹموں کے اس ہنگامے میں وہ بڑے پیمانے پر اشیاء کو دیکھ کران کی ماہیتیں دریافت کرپاتے ہیں۔

مقناطیس

(انٹرویو کرنے والا سوال کرتا ہے کہ دو مقناطیسوں کے درمیان تجاذب یا دفع کا احساس کیا چیز ہے؟جس پر فائن مین کہتے ہیں کہ احساس سے آپکی کیا مراد ہے۔ انٹرویو کرنے والا مزید وضاحت کرتا ہے کہ مقناطیسوں کے درمیان دفع یا تجاذب آخر کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟)

آپ کے خیال میں ’’کیوں‘‘ کے سوال کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے؟ مثال کے طور پر خالہ منی اسپتال کیوں داخل ہیں، اس سوال کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ باہر برف پر پھسل کر گر پڑی تھیں اور انکی کمر پر چوٹ آئی۔ اس جواب سے عام لوگ مطمئن ہوجاتے ہیں لیکن کسی دوسری دنیا سے آیا فرد جسے اس سیارے کی زندگی کا کچھ معلوم نہیں وہ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوپائے گا۔ وہ مزید سوال کرے گا کہ کمر پر چوٹ لگنے کا اسپتال سے کیا تعلق ہے؟ اگر کمر پر چوٹ ہے تو اسپتال کیسے پہنچی؟ مزید جواب ملے گا کہ اسکے شوہر نے اسکو گرتے دیکھا تو اسپتال فون کیا تاکہ کوئی آکر اسے اسپتال پہنچا سکے۔ یہ سب باتیں عام لوگوں کے فہم میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ اس لئے جب آپ ’’کیوں‘‘ کی وضاحت کرتے ہیں تو آپ کو ایک فریم ورک متعین کرنا پڑتا ہے جس میں کچھ تصدیقات پہلے سے موجود ہوں جن تک پہنچ کر مطمئن ہوا جاسکے وگرنہ آپ ہمیشہ ’’کیوں کیوں‘‘ کی رٹ لگائے رکھیں گے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ جیسے مندرجہ بالا قصہ اس سوال کو جنم دے گا کہ شوہر نے اسپتال میں فون کیوں کیا؟ جواب ملے گا کہ شوہر کو اپنی بیوی کی خیریت درکار تھی۔ لیکن یہ بھی لازم نہیں کہ شوہر کو ہمیشہ بیوی کی خیریت درکار ہو، کیونکہ کبھی شراب پی کر یا غصے کی حالت میں بیوی کی خیریت بھول بھی جاتی ہے۔ گویا آپ کے مسلسل ’’کیوں‘‘ والے سوالات بالآخر دنیا کی پیچیدگی میں الجھ کر رہ جائیں گے۔

آپ پھر پوچھیں گے کہ خالہ برف پر پھسلی ہی کیوں؟ کیونکہ برف پھسلنے والی چیز ہے۔ سب جانتے ہیں۔ پھر آپ پوچھیں گے برف کیوں پھسلنے والی چیز ہے اور کیسے پھسلنے کی صفت برف میں پیدا ہوتی ہے؟ یا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں اب مطئمن ہوگیا ہوں اور جان گیا ہوں کہ برف پر کیسے پھسلتے ہیں اور یا پھر مزید سوال کرسکتے ہیں کہ آخر برف پر ہی کیوں پھسلتے ہیں؟ٹھوس حالت میں بہت سی چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ جن پر پھسلا جا سکے لیکن مائع یا جیلی کی شکل میں بہت سی چیزیں پھسلن رکھتی ہیں۔ وجہ یہ کہ برف پر کھڑے ہونے سے دباؤ کے باعث کچھ لمحے کیلئے اس جگہ برف پگھلتی ہے اور پانی کی ایک تہہ برف کے اوپر بنتی ہے جس پر آپ پھسلتے ہیں۔ لیکن دباؤ سے برف ہی کیوں پگھلتی ہے ؟ کیونکہ پانی جب جمتا ہے تو سکڑجاتا ہے اور برف کی حالت میں اس پر دباؤ کے زیر اثر پانی پھیلنے لگتا ہے جس سے برف پگھلتی ہے۔کچھ دوسری اشیاء سرد ہونے پر سکڑتی ہیں اور دباؤ کے باوجود ٹھوس رہتی ہیں پگھلتی نہیں ہیں۔ اگلا سوال یہ بنتا ہے کہ پانی ہی کیوں ٹھنڈا ہوکر سکڑتا ہے؟

میں کوشش کر رہاہوں کہ آپ کو واضح کروں کہ ’’کیوں‘‘ کا سوال کس قدر مشکل ہوسکتا ہے۔ آپ یہ سوال کرتے وقت پہلے یہ طے کریں کہ آپ کو کہاں تک اسکی وضاحت درکار ہے اور کس گہرائی تک آپ اسکو سمجھنا چاہتے ہیں۔ جیسے اوپر کی مثال میں سوال در سوال کرنے سے پہلا سادہ سوال کہ خالہ اسپتال کیوں گئیں، مزید سے مزید دلچسپ ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ میرے مطابق گہرے سوالات زیادہ دلچسپ ہوتے ہیں۔ جیسے ہم یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ خالہ پھسلنے کے بعد گر کیوں گئیں؟ اس کا جواب کشش ثقل یا گریوٹی میں ہے جس پر مزید سوالات بن سکتے ہیں۔

اب آپ کے سوال کو لیجئے کہ مقناطیس ایک دوسرے کو دفع کیوں کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کو بہت سے انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک فزکس کے طالبعلم اور ایک عام انسان جسے فزکس کے بارے زیادہ علم نہیں، دونوں کے لئے جواب مختلف سطح کا ہوگا۔ اگر ایک ایسا شخص پوچھے جسکو فزکس بارے کچھ بھی علم نہیں تو میرا سادہ جواب ہوگا کہ مقناطیسوں کے درمیان ایک قوت ہے جس کا اثر آپ محسوس کرتے ہیں۔ آپ  دیکھیں کہ یہ جواب کتنا عجیب ہے کیونکہ مقناطیس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہم ایسا اثر محسوس نہیں کرتے کہ ایک ہی شے دفع و کشش دونوں کی خوبی رکھے۔ اس جیسی ایک مثال، برقی قوت ہے جو مقناطیسی قوت ہی کی طرح عجیب ہے۔ ایک کرسی کو چھوتے وقت انگلی کو جو دباؤ محسوس ہوتا ہے تو اسکی وجہ یہ برقی قوت ہے جو مقناطیسی قوت کی طرح دفع کا احساس پیدا کر رہی ہے۔ کیونکہ ہر چیز چھوٹے برقی ذروں پر مشتمل ہے جن کے مابین برقی قوت موجود ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ برقی و مقناطیسی قوتوں کی گہرائی میں وضاحت کروں کہ یہ آخر کیا ہیں مگر ہمیں کہیں سے تو شروع کرنا ہے۔لیکن اس گہری وضاحت سے پہلے ایسی چیزوں کا ذکر لازم ہے جن سے ہماری واقفیت ہے۔ جیسے یہ بات روزمرہ معلوم ہے کہ آپ کرسی میں سے ہاتھ کو آر پار نہیں کر سکتے۔ کیوں نہیں کرسکتے؟ اسکی وجہ دفع کی وہی خاصیت ہے جو مقناطیسوں میں بھی موجود ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ دفع کی یہ قوت مقناطیس میں اتنے بڑے پیمانے پر کیونکر عمل کرپاتی ہے جبکہ کرسی میں محسوس نہیں ہوتی؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ مقناطیسی مادے میں تمام الیکٹران ایک ہی سمت میں سپن spin کرتے ہیں اور سب الیکٹرانوں کا باہمی اثر میکروسکوپک پیمانے پر محسوس ہوتا ہے۔ مگر یہ مقناطیسی و برقی قوتیں ہمیشہ اور ہر جگہ موجود ہوتی ہیں، اسی لئے انکو فطرت کی بنیادی قوتیں کہا جاتا ہے۔ اگرچہ میں زیادہ ٹیکنیکل گہرائی میں بھی بات کر سکتا ہوں مگر ابتدائی طور پر آپ کو ان قوتوں کو فطری عناصر کے طور پر قبول کرنا پڑے گا۔ میں ان قوتوں کو کسی اور انداز سے نہیں سمجھا سکتا کیونکہ مزید طبیعی تصورات ایک عام انسان کے لئے نامانوس ہوتے ہیں۔

مثلاً اگر میں یہ کہوں کہ مقناطیسوں کی کشش اس لئے ہے کیونکہ وہ ایک طرح کے ربڑ بینڈ سے جڑے ہوتے ہیں تو یہ دھوکہ دینے والی بات ہے۔ اول تو یہ غلط ہے کہ وہ ربڑ بینڈ سے نہیں جڑے ہوتے کیونکہ آپ پھر پوچھیں گے کہ وہ ربڑ بینڈ کیا ہیں تو میں مشکل میں پڑ جاؤں گا۔ دوم اگر آپ کو یہ دلچسپی ہوئی کہ ربڑ بینڈ کیسے کام کرتے ہیں تو مجھے پھر لوٹ کر برقی قوت کا سہارا لینا پڑے گا اور ہم دورے کا شکار رہیں گے۔اس لئے میں اس سوال کا جواب نہیں دے پاؤں گا کہ مقناطیس کیوں ایک دوسرے کو دفع یا جذب کرتے ہیں۔ میں صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ دنیا میں کچھ بنیادی قوتیں پائی جاتی ہیں، جن میں برقی و مقناطیسی قوت اور گریوٹی وغیرہ شامل ہیں، اور کچھ دوسری چیزوں سے ملکر یہ دفع یا جذب کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ فزکس کے طالبعلم ہوتے تو میں مزید بتاتا کہ برقی و مقناطیسی قوتیں آپس میں جڑی بھی ہوتی ہیں اور یہ کہ سائنسدان ابھی تک گریوٹی اور دیگر قوتوں کے مابین کوئی تعلق نہیں قائم کر پائے۔ مگر میں کسی اور انداز سے مقناطیسی قوت کی وضاحت پیش نہیں کرسکتا جس سے آپ واقف ہوں۔

بجلی

دنیا کو دیکھنے کے لئے تخیل کا سہارا لینا، اور یہ محض تخیل (یا مجرد اوہام) نہیں کیونکہ آپ حقیقی دنیا کو سمجھنا چاہ رہے ہیں، کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایک دن میں دانتوں کے معالج کے پاس تھا اور وہ برقی مشین کی مدد سے میرے دانت میں سوراخ کرنے کی تیاری کر رہا تھا تو میں نے سوچا کہ مجھے جلدی سے تخیل کی دنیا میں کھوجانا چاہیے وگرنہ درد بہت ہوگا۔ تو میں اس برقی مشین کے بارے سوچنے لگ گیا کہ یہ کیسے گھومتی ہے؟ میں نے سوچا کہ دور کہیں پانی کا ایک ذخیرہ ہے جس میں سے پانی ایک بڑے پہیے پر گرتا ہے۔ یہ پہیہ، تانبے کی لمبی تاروں کے ساتھ منسلک ہے اور یہ تاریں پورے شہر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہی تانبے کی تاریں پھر اس چھوٹے سے آلے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور یوں اسکی موٹر گھوم رہی ہے۔ شہر بھر کی بجلی سے چلنے والی چیزوں کی وجہ وہ پہیہ ہے جو پانی کے گرنے سے گھومتا ہے۔ پہیہ اگر گھومنا رک جائے تو تمام چیزیں بند ہوجاتی ہیں۔میں نے سوچا کہ یہ کیسی شاندار بات ہے۔ صرف تانبے اور لوہے کے واسطے یہ ساری حرکت ہورہی ہے۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ انسان کا بنایا جنریٹر کتنا پیچیدہ ہے اور اسے بنانے کے لئے ایک خاص طریقہ درکار ہوگا لیکن دراصل فطرت کے نزدیک یہ سب کتنا سادہ ہے۔ صرف لوہے اور تانبے کا کرشمہ ہے۔اگر تانبے کا ایک بڑا سا دائرہ بنایا جائے اور اسکے دو مخالف سروں پر لوہا جوڑا جائے تو ایک کو گھمانے سے دوسرا خود گھومتا ہے اور بس اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ تانبے اور لوہے کے گھومنے سے بجلی پیدا ہورہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ فطرت کتنے پراسرار انداز سے کام کرتی ہے! بلکہ لوہے کو بھی چھوڑیے، صرف تانبے ہی کے دو گچھے جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر جڑے ہوں ان سے بھی یہ یہی کام لیا جاسکتا ہے۔ صرف تانبہ اور اس میں خاص حرکت!

ہم اپنے اردگرد جن چیزوں سے مانوس ہیں وہ برقی طور پر نیوٹرل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں مختلف برقی قوتیں ایک دوسری کے اثر کو زائل کردیتی ہیں ۔ اسلئے برقی ذروں کے درمیان دفع و کشش کی قوتوں کا تصور ہمارے لئے اتنا وجدانی نہیں ہوتا۔ لیکن فطرت میں بہرحال یہ قوتیں موجود ہیں اور اپنا اظہار کرتی ہیں۔ مثلاً جب آپ بالوں میں کنگھی کرتے ہیں تو کنگھی میں عجیب سی خاصیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ دور پڑے کاغذ کے ٹکڑوں کو نچانے لگتی ہے۔گویا یہ قوتیں روزمرہ کی اشیاء کے اندر چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہم روزمرہ کی زندگی میں جن قوتوں سے واقف ہیں وہ براہ راست رابطے والی قوتیں ہیں۔ جیسے کسی چیز کو انگلی سے دبانا۔ کیا آپ یہ سوچتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو انگلی سے دبانے کا کام کروا رہی ہے؟ انگلی ایٹموں سے ملکر بنی ہوئی ہے۔ وہ چیز جس کو دبانا ہے وہ بھی ایٹموں سے بنی ہے۔ مختلف ایٹموں کے درمیان کچھ خالی جگہیں ہوتی ہیں۔دبانے کے عمل میں انگلی اور اس چیز کے ایٹم ایک دوسرے کی خالی جگہیں پر کررہے ہوتے ہیں۔

یونہی کنگھی اور کاغذ کے معاملے میں یوں ہوتا ہے کہ کنگھی اور کاغذ کا فاصلہ ان ایٹموں کے باہمی فاصلے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ایٹموں میں چھوٹے چھوٹے الیکٹران ہوتے ہیں جو برقی طور سے ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔برقی قوت بہت مضبوط ہوتی ہے اوراسکی طاقت فاصلے کے مربع کے معکوس متناسب ہوتی ہے، بالکل جیسے گریوٹی میں ہوتا ہے مگر گریوٹی کشش کی قوت ہے جبکہ الیکٹرانوں کے مابین دفع کی قوت ہے۔ الیکٹرانوں کے مابین گریوٹی کی کشش بھی ہوتی ہے مگر وہ انتہائی کم ہوتی ہے جبکہ برقی دفع بہت زیادہ ہوتا ہے۔برقی قوت، گریوٹی کے مقابلے اتنی زیادہ مضبوط ہے کہ اس کی طاقت کے نمبر کا نام تک نہیں رکھا جا سکا۔ ایک کے بعد تیس چالیس صفر لگا لیں۔بہرحال، برقی چیزوں میں ایک دوسری قسم مثبت بار کے حامل ذرات ہیں۔پروٹون کی مثال لیجیے جو ایٹم کے مرکز یعنی نیوکلیئس میں موجود ہوتے ہیں وہ مثبت برقی بار رکھتے ہیں اور الیکٹرانوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یکساں برقی بار والے ذرات ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں جبکہ مخالف برقی بار والے کشش رکھتے ہیں۔

اب ذرا تصور کیجئے کہ اتنی زیادہ طاقت کے ساتھ برقی ذرات دفع و کشش کی قوت لگا رہے ہوں۔ ہوگا یہ کہ سب یکساں بار والے مخالف بار والوں سے اس طرح گھل مل جائیں گے کہ کہیں مثبت بار والوں کے گھچے ہوں گے تو کہیں منفی بار والے اور گھچے بننے کی وجہ کوانٹم میکانیات کے اثرات ہیں کہ ذرات کو ایک خاص حد سے زیادہ قریب نہیں لایا جا سکتا۔ مثبت بار والوں کے گھچے کو نیوکلیئس کہہ لیجئے اور ان کے باہر منفی بار والے گچھے الیکٹران ہیں اور اس سارے توازن کو ایٹم کہتے ہیں جو بذات خود ایک نیوٹرل چیز ہے کیونکہ برابر مقدار کے مثبت اور منفی بار ایک دوسرے کے اثر کو زائل کرتے ہیں۔ لیکن جب آپ کنگھی کرتے ہیں تو رگڑ کے باعث مثبت و منفی بار کا یہ توازن کچھ دیر کے لئے تھوڑا سا بگڑ جاتا ہے اور یہ ہلکا سا عدم توازن اتنی مضبوط برقی قوت کو جنم دیتا ہے جو دور پڑے کاغذ کے ایٹموں میں بھی عدم توازن پیدا کردیتی ہے اور کنگھی کا اثر کاغذ پر ہونے لگتا ہے۔ یہ ایک اثر ہے جسے انسانی آنکھ  دیکھتی ہے اور ذہن اسکی وضاحت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس وضاحت کے لئے ہم عموماً ایسی قوتوں کا سہارا لیتے ہیں جو ربڑ بینڈز، سٹیل کی ٹکڑیوں اور سپرنگ نما چیزوں میں نمایاں نظر آتی ہوں۔ کیونکہ ہم عام طور پر کھچاؤ اور دباؤ وغیرہ جیسی چیزوں سے ہی واقف ہوتے ہیں۔ حالانکہ چھونے، کھینچنے یا دبانے والی قوتیں بھی اسی بنیادی برقی قوت کے مظاہر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ چھونے کے عمل میں چیزیں ایک خاص فاصلے کی نزدیکی پر ہوتی ہیں۔ یہ بھی تخیل کا ایک عجب لطف ہے کہ کیسے دو انتہائی مضبوط مخالف اثرات (دفع و جذب) توازن میں ایک دوسرے کو زائل کرتے ہیں اور ہلکے سے عدم توازن سے پراسرار برقی قوت اپنا اظہار کرنے لگتی ہے۔ میں اس پراسراریت کو کسی دوسرے انداز سے کیسے واضح کروں؟ میں کیوں اس برقی قوت کو کسی لچکدار چیز جیسے ربڑ بینڈسے سمجھانے کی کوشش کروں جو انسان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں؟ یہی حال دیگر بنیادی قوتوں کا ہے۔ ہمیں انہیں فطرت کی بنیادی چیزیں تسلیم کرنا ہوگا۔ ان بنیادی چیزوں کی مدد سے ہم باقی ہر چیز کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ یہ سمجھنا ذرا مشکل ہے کیونکہ ہمارا روزمرہ مشاہدہ ایسا نہیں ہےاور اسلئے آپ کو تخیل کا سہارا لینا پڑے گا۔

julia rana solicitors

اور جنریٹر کی مثال یا ڈیم میں بجلی بننے کی مثال میں دراصل تانبے کی دوری حرکت سے ایٹموں کے الیکٹرانوں میں بھی دوری حرکت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ تانبے میں موجود ایک جگہ کے الیکٹران، دوسری جگہ والوں کو دھکیلتے ہیں اور پھر وہ اپنے سے آگے والوں کو اور یہ سلسلہ چلنے لگتا ہے۔ بالکل جیسے پانی کے ذرات ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے ایک بہاؤ کی شکل اختیار کرتے ہیں یونہی الیکٹرانوں میں دفع کے باعث ایک طرح کا برقی بہاؤ تانبے کی تاروں میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ بہاؤ ہی برقی کرنٹ کہلاتا ہے جو تاروں کی مدد سے پورے شہر میں جابہ جا پہنچ جاتا ہے۔ اس برقی بہاؤ سے آپ ٹیلی فون پر بات کرسکتے ہیں، اس سے آپ سگنل بنانے کا کام لے سکتے ہیں۔ شہر بھر میں پھیلی لمبی تاروں کا یہ جال برقی بہاؤ کو شہر بھر لئے پھرتا ہے کیونکہ پیچھے ڈیم پر ایک پیہہ تانبے کے گچھوں کو گھماتا رہتا ہے اور ہر چیز کے اپنے الیکٹران اس اثر کو قبول کرتے ہیں۔ برقی و مقناطیسی یا برقناطیسی قوت کی دریافت جسکی مساواتیں 1873 میں میکسول نے ڈھوںڈ  نکالی تھیں، شاید انسان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بنیادی اور معرکۃ الآراء دریافت ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply