مصنوعی ذہانت پر پہلی قومی کانفرنس/ناصر عباس نیر

سماج ہی نہیں، ادب میں بھی ایک طبقہ نئے نظریات، نئی ٹیکنالوجی ، نئی صورتِ حال کے ضمن میں ڈر اور انکار کی حالت میں رہتا ہے۔ وہ ایک سیل کو بڑھتے دیکھتا ہے،مگر اسے سراب یا سازش یا دونوں کا نام دیتا ہے ،اور اپنے پرانے تصوراتی خول میں پناہ لے لیتا ہے،اور وہاں سے نئی چیزوں کے خلاف ایک مورچہ قائم کر لیتا ہے۔ اب جب کہ جنریٹو مصنوعی ذہانت کی لکھی ہوئی سیکڑوں کتابیں ، امیزون اور دوسری جگہوں پر باقاعدہ براے فروخت ہیں ، انسانوں کے ساتھ ساتھ ورچوئل مصنف اپنی کتابیں لارہے ہیں ، ہمارے کئی احباب اسی حالت ِ انکار یعنی اپنے محفوظ پناہ گاہ میں، ،مورچہ بند ہیں۔

ساہیوال آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر ریاض ہمدانی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس موضوع پر پاکستان میں اوّلین دور روزہ قومی کانفرنس منعقد کی ،اور اس سیل بلا کوسمجھنے،اس کے مواقع، خطرات اور چیلنج کو سمجھنے کا موقع پیدا کیا۔ اگرچہ اس موقع پر زیادہ تر گفتگوئیں، جنریٹو مصنوعی ذہانت پر نظری و عملی تحقیق کے بغیر ہوئیں، مگر کچھ کام کی باتیں بھی بہ ہرحال ہوئیں۔

سب سے بڑھ کر یہ احساس عام ہوا کہ ہمارا سامنا ایک ایسی نئی، انقلابی ایجاد سے ہے، جو ’صاحبِ شعور وارادہ ‘ ہے ، خود فیصلے کرسکتی ہے ،اور اپنے فیصلوں کی جارحیت سے ،انسانوں کے لیے گہرے خطرات پیدا کرسکتی ہے۔خاص طور پر تخلیقی میدان میں وہ انسانوں کی غیر معمولی حریف ہے۔ اس کاٹھیک ٹھیک ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر ریاض ہمدانی نے مجھے اس کانفرنس میں کلیدی خطبے کی دعوت دی۔ میں نے اپنی کلیدی گفتگو میں ، مصنوعی ذہانت اورا نسانوں کے تخلیق کردہ ادب کے امتیاز کو سمجھنے کے لیے بورخیس سے مدد لی۔ اس خطبے کے آخری حصے سے چند اقتباسات آپ احباب سے شیئر کررہا ہوں۔

’’بورخیس، صحیح معنوں میں نابغہ تھا۔ اس کا تخیل ،اپنے زمانے، روایت ، تمام طرح کی قائم کی گئی ہیئتوں ، حدوں کو اکثر پار کرجاتا ہے۔ وہ انوکھے ،نئے اور صدمہ انگیزسوالات بھی اٹھاتا ہے۔ بورخیس نے انسان کے ٹیڑھے فکری ، وجودی ،وجدانی ،جمالیاتی پر افسانے لکھے۔ اس کا ایک افسانہ ، ٹھیک اس سوال پر ہے جو مصنوعی ذہانت نے پیدا کیا ہے۔ یہ کہ انسان اور مشین کے تخلیق کردہ ادب میں فرق کیسے کیا جاسکتا ہے؟

بورخیس نے ۱۹۳۴ء میں Pierre Menard, Author of Don Quixote لکھا۔اس افسانے میں بورخیس نے ایک مصنف پیری مینادرڈ کی کہانی لکھی ہے۔ پیری مینارڈ ایک زود نویس مصنف تھا۔ اس کے نجی آکارئیو میں ،اس کی ڈیڑھ درجن سے زائد کتب کا ریکارڈ موجود تھا۔ وہ زود نویس مصنف ہونے کے علاوہ ،ایک اولاالعزم مصنف بھی تھا۔ اس نے اٹھارویں صدی کے ہسپانوی ناول نگار سروانٹس کے ناول ’’ڈان کیہوٹے ‘‘ کے کچھ ابواب کی لفظ بہ لفظ نقل کی۔ اس کے اس فیصلے کا جوا ز بورخیس نے جن لفظوں میں لکھا ہے، اس کا انگریزی ترجمہ تو ہوا ہے ، مگر اردو ترجمہ مشکل محسوس ہوتا ہے۔ میں انگریزی ترجمہ ہی درج کرتا ہوں:
He did not want to compose another Don Quixote – which would be easy –
but the Don Quixote.

یعنی وہ ایک نیاڈان کیہوٹے نہیں چاہتا تھا، بلکہ ڈان کیہوٹے۔ ان سب خصوصیات کے ساتھ جن کی وجہ سے ڈان کیہوٹے پہچانا جاتا ہے۔بورخیس لکھتا ہے کہ ’’اس بات کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کایہ مقصد بالکل نہیں تھا کہ وہ اصل کی مشینی نقل سامنے لائے۔اس کا مقصود ، نقل تھا ہی نہیں۔اس کا قابلِ تعریف عزم ایسے صفحات وجود میں لاناتھاجو لفظ بہ لفظ ، سطر بہ سطر، سروانٹس کے صفحات سے ہم آہنگ ہوں‘‘۔ غور کیجیے: بورخیس کس مہارت سے ،اصل متن کی مشینی نقل اوراصل متن سے لفظ بہ لفظ ، سطر بہ سطرہم آہنگ متن میں فرق کرتا ہے۔

پیری مینارڈ لفظ بہ لفظ ، سطر بہ سطر ’’ڈان کیہوٹے ‘‘لکھنے کے لیے جو طریقہ اختیار کرتا ہے، وہ آج،مصنوعی ذہانت کے عہد میں، ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اس نے جو ابتدائی طریقہ سوچا ،وہ قدرے آسان تھا۔ یہ کہ ہسپانوی اچھی طرح سیکھے۔کیتھولک عقیدہ از سر نو اختیار کرے۔مورزاور ترکوں کے خلاف لڑے۔۱۶۰۲ اور ۱۹۱۸ء تک کی یورپی تاریخ بھول جائے۔اور وہ پوری طرح سروانٹس بن جائے۔ لیکن پیری مینارڈ نے اس طریقے کو آسان سمجھ کر ترک کردیا۔

بورخیس کہتا ہے کہ اس کا قاری یہ تصور کرے گا کہ یہ طریقہ آسان نہیں ، مشکل تھا۔ بورخیس اپنے قاری سے اتفاق کرتا ہے،مگر ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ تمام طرح کے دستیاب طریقوں سے، یہ طریقہ سب سے غیر دل چسپ تھا۔ وجہ یہ کہ ’’بیسویں صدی میں ، سترھویں صدی کا ایک مقبول نگار ہونا،اسے ایک کمزوری محسوس ہوا۔کسی نہ کسی طرح سر وانٹس بننا اور ڈان کیہوٹے تک پہنچنا،اسے کم دشوار اور اسی لیے کم دل چسپ لگتا تھا۔ اس کے لیے دشوار اور دل چسپ یہ بات تھی کہ پیری مینارڈ ہے اوربیسویں صدی کے پیری مینارڈ کے تجربات کے ساتھ ، ڈان کیہوٹے تک پہنچے۔ پیری مینارڈ کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اسی صورت میں ابدی حیات پاسکتا ہے۔

پیری مینارڈ نے ڈان کیہوٹے بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں پڑھا تھا ۔اس کے بعد، اس کے متعدد ابواب اس نے کئی بار پوری توجہ سے پڑھے۔پیری مینارڈ کی اس ناول سے متعلق یادداشت کو بورخیس نے اپنے مخصوص پیراڈاکیسکل اندا ز میں لکھا ہے۔ ’’ڈان کیہوٹے کی میری عمومی یادداشت،جو فراموشی اور بے اعتنائی کے سبب، سادہ ہوچکی ہے،ڈان کیہوٹے کی وہی مبہم اور ابتدائی تصویر سے عبارت ہے، جوابھی لکھی نہ گئی ہو‘‘۔ بورخیس دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس نوع کی معمائی یادداشت کے بغیر مینارڈ بیسویں صدی میں ڈان کیہوٹے لکھ ہی نہیں سکتا تھا۔

چناں چہ مینارڈ کہتا ہے کہ کیا مجھے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ میں اکثر خیال کرتا ہوں کہ سر وانٹس نے ڈان کیہوٹے مکمل کیا اور میں اس پورے ناول کو پڑھ رہا ہوں،اس طور جیسے میں نے ، مینارڈ نے اس ناول کا تخیل باندھاتھا؟
’’میرے خوش مزاج پیشرو نے قسمت کے تعاون کو رد نہیں کیا؛ انہوں نے اپنی لازوال تخلیق کو قدرے بے پروائی سے تخلیق کیا، زبان اور تخلیق کی روانی کے دھارے میں بہتے ہوئے۔ مجھے ان کے اس بے ساختہ کام کو لفظی طور پر دوبارہ تخلیق کرنے کا ایک پراسرار فریضہ سونپا گیا ہے۔

میرا یہ تنہا کھیل دو قطبی قوانین کے تابع ہے۔ پہلا قانون مجھے رسمی اور نفسیاتی نوعیت کی مختلف شکلیں آزمانے کی اجازت دیتا ہے؛ دوسرا قانون مجھے مجبور کرتا ہے کہ ان مختلف شکلوں کو اصلی’ متن کی خاطر قربان کر دوں اور اس فنا کو ناقابل تردید طور پر معقول بناؤں‘‘۔ چناں چہ مینارڈ کہتا ہے کہ میرا لکھا ہوا ڈان کیہوٹے ، سروانٹس کے ڈان کیہوٹے کے مقابلے میں زیادہ دقیق اور نازک ہے۔وجہ یہ کہ سروانٹس خطاب یافتہ جاگیرداروں اور بے مایہ انسانوں کی ایک دوسرے سےیکسر جداکہانیوں میں ملوث ہوتا ہے، یعنی اپنے ملک مقامی حقیقت کو پیش کرتا ہے،جب کہ مینارڈ ، فلپائن کی سرزمین کارمن کو اپنی حقیقت کے لیے منتخب کرتا ہے۔مینارڈ اس بات کو نہیں بھولتا کہ وہ ولیم جیمز، برٹرینڈ رسل کا ہم عصر ہے۔یعنی بیسویں صدی کا مصنف ہے۔

ڈان کیہوٹے کواز سر نو لکھنے کا محرک ، افسانے کے مطابق ، فلسفے اور ادب کی تاریخ کا ایک سبق ہے۔ ’’یہ کہ کوئی ایسی دانشورانہ سرگرمی نہیں جو بالآخر بے کار نہ ہوجاتی ہو۔ایک فلسفیانہ نظریہ آغاز میں کائنات کاحقیقی نقشہ محسو س ہوتا ہے،لیکن جیسے جیسے وقت گرزتا ہے،وہ فلسفے کی تاریخ میں ایک باب ، یا ایک پیراگراف یا محض ایک اسم بن کر رہ جاتا ہے۔ادبیات میں یہ ناگزیز انحطاط زیادہ واضح اور بدنام ہے’’۔مینارڈ نے مجھے ایک روز بتایا کہ ڈان کیہوٹے،تمام خوش آئند کتابوں سے برتر تھا۔اب یہ حب الوطنی کا جام ہے، لسانی قواعد کی متکبرانہ تشریحات اورفحش مہنگے ایڈیشنز کا ذریعہ بن گئی ہے۔ ناموری، ناقابل فہم چیز ہے اورشاید بدترین بھی۔‘‘گویا مینارڈ تسلیم کرتا ہے کہ سترھویں صدی کا ڈان کیہوٹے، ادبیات کی تاریخ میں ایک پیراگراف یا اسم بن کر رہ گیا ہے ،اور بیسویں صدی کو بیسویں صدی کا ڈان کیہوٹے، مینارڈ ہی دے سکتا ہے۔ کیوں کہ مینارڈ کے پاس بیسویں صدی کے تجر بات ہیں۔

بورخیس کا یہ افسانہ ادب ،عصر ، تاریخ ، متن پر متن بنانے کے عمل سمیت، انسانی تخلیق کی خصوصیات کا احاطہ کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت بھی متن پر متن بناتی ہے ؛ وہ پہلے سے موجود متون کے پیٹرن کو دریافت کرتی ہے، اس پیٹرن کو اصل سے منقطع، خود مختار تصور کرتی ہے۔

انسانی تخلیق ، خواہ روایت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو، اس میں انسان کے معاصر زندگی اور اس کی شخصی زندگی کی حسیت، تجربات اور سوالات موجود ہوتے ہیں۔ یہ تجربات معمولی ہوسکتے ہیں ، عام روزمرہ زندگی سے متعلق ہوسکتے ہیں، ان میں کئی غیر عقلی ، مجنونانہ عناصر ہوسکتے ہیں، ان میں خود رحمی سے لے کر ، غصہ،رنج ، بے سبب اداسی ، بلاوجہ اضطراب ، ناقابل ِ فہم بے زاری ، گھر ،شہر ، خود اپنے آپ سے وحشت، اپنے ہی گھر اور شہر میں بے گھر ودربدر ہونے کا عجب احساس وغیرہ ہوسکتے ہیں ، اور یہی وہ تجربات واحساسات ہیں، جو انسان کے لکھے ہوئے ادب کو مصنوعی ذہانت کے لکھے ہوئے ادب سے مختلف بناسکتے ہیں۔اسی طرح انسان کے پاس اپنے ، اپنے زمانے ، ماضی ، تاریخ ،روایت سے متعلق حقیقی سوالات ہونے چاہییں، چاہے ان سوالات کو رائج علوم اور ماہرین کا استناد حاصل نہ ہو، مگر وہ مصنف کے اپنے سوچے ہوئے ہیں ، اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا نتیجہ ہوں۔ ضروری نہیں کہ وہ بڑے سوالات ہوں،مگر وہ گہرے طور پر محسوس کیے گئے سوالات ہوں۔ سوالات کے رائج پیٹرن کو توڑنےو الے سوالات ہوں۔ ایک نابغہ اور کچھ نہیں کرتا، اپنے حقیقی محسوسات اور سوالات کو جرأت کے ساتھ اور مہمل سمجھے جانے کے ڈر کے بغیر لکھتا ہے۔

مگر یہاں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ چوں کہ ان میں سے اکثر احساسات اور سوالات، ادب کی روایت میں پہلےسے ظاہر ہوتے رہے ہیں، اور ان کی ایک زبان اور اسلوب وجود میں آگئے ہیں، جن کی نقل اور سیمولیشن ، مصنوعی ذہانت ، نہایت نفاست کے ساتھ کرسکتی ہے۔ اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ انسانوں کے لکھے ہوئے ادب میں،ان کے تجربات، اپنے حسی وطبیعی ماخذ کے ساتھ موجود ہوں۔اور یہ کام آسان نہیں ہے۔ہم اپنی حقیقی صورتِ حال سے گریز کی لمبی تاریخ رکھتے ہیں، اور بڑے اور مقبول نظریات ، بیانیوں، تصورات میں پناہ لینے کی عادت کاشکار ہیں۔ اپنے وجود کے دشت اور اپنے زمانے کے جہنم سے بھاگنا ، لوگوں کے لیے ، اور اکثر ادیبوں کے لیے آسان ہوا کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واضح رہے کہ نقل اور سیمولیشن میں ، متن کا کوئی حسی و طبیعی ماخذ موجود نہیں ہوتا۔ صاف لفظوں میں ، ایلیٹ کا روایت کا تصور، مشینی ذہانت کے حق میں زیادہ ہے، انسانی تخلیق کے لیے شخصیت کی قربانی کی ضرورت نہیں ۔ ایک اوسط درجے کا ادیب بھی جب، اپنے تجربات کو اپناسیاق بناتا ہے تو خواہ وہ بڑا ادب پارہ تخلیق نہ کرسکے، انسانی پیمانے پر مستند ادب پارہ ضرور سامنے لانے میں کامیاب ہوتا ہے‘‘۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply