رُشدی کا ناول اور مذہبی منافرت/ عبدالرحیم خان

۱۹۸۸ میں راجیو گاندھی نے رُ شد ی  کے  مشہور ناول “دِی سیٹ نک ور سیز” کو ہندوستان میں بین کردیا تھا۔ وجہ کو ئی مسلم دوستی نہیں تھی بلکہ اس وقت گرمایا ہوا ایودھیا معاملہ اور مسلم ووٹ بینک پریشر اس کے پیچھے کارگر تھا۔ دہلی کی ایک کورٹ میں ایک پٹیشن کافی وقتوں سے چل رہی تھی اس پابندی کے خلاف، اور بالآخر تقریباً 36  سالوں بعد کورٹ کے پابندی ہٹانے کیوجہ سے اب یہ کتاب دِلی اور این سی آر کی کچھ بُک اسٹورز میں موجود بھی ہے، ممکن ہے کہ امیزون پر بھی دستیاب ہو۔

آپ سب کو پتہ ہے کہ بوکر پرائز نہ ملنے، لیکن دیگر کئی  ایوارڈز حاصل کرنے کے باوجود تقریباً تین دہائیوں بعد اس کتاب کا کریز بھی ختم ہوچکا ہے اور ر شد ی کی اپنی شہرت کی کہانی بھی ٹھنڈے بستے میں جاچکی ہے، پر ہندوستان میں اسے پُنرجنم دیا جارہا ہے صرف مذہبی منافرت پھیلا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے۔ ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو علم ہوگا کہ یہ ناول انگریزی زبان میں ہے اور شاید جاپانی کے علاوہ ایک دو اور زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہوئے ہیں۔ اب ہوگا یہ کہ مذہبی جوش میں سڑکوں پر دونوں طرف کے وہ لوگ بھی اتریں گے جنہیں نہ انگریزی آتی ہے اور نہ ہی مذہب کا کچھ اتا  پتا  ہے، اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ اس کتاب میں کیا کچھ لکھا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ کتاب بکے نہ بکے، پر سیاست کی روٹیاں ضرور ٹھیک ٹھاک پُھلا لی جائیں گی اور شاید دِلّی صوبائی  الیکشن کی سبزی کے ساتھ اس سے سیاسی شکم سیری بھی کر لی جائے۔

میں نے ناول پڑھ رکھا  ہے۔ پورا  ناول دراصل 29000 فٹ اونچائی  پر ایک جہاز میں بلاسٹ ہوجانے کے بعد آسمان سے زمین کی طرف بِنا کسی پیراشوٹ کے نیچے گر رہے جبرئیل فرشتہ اور صلاح الدین چمچہ نامی دو آدمیوں کی گفتگو ہے۔ گرنے کے دوران ان دونوں میں عجیب قسم کا ٹرانسفارمیشن ہوجاتا ہے اور یہ دونوں بادلوں کے بیچ اُڑنے پر قادر ہوجانے کے ساتھ ساتھ ماضی و مستقبل کی بعید از امکان چیزیں بھی دیکھنے سننے لگتے ہیں۔ اسی دوران چمچہ کی درخواست کے بعد جبرئیل اپنے ہاتھوں کو پنکھ کی شکل میں پھیلاتا ہے اور ایسی ایسی زبانوں میں باتیں کرنا اور گانا گانا شروع کرتا ہے جسے ان لوگوں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا ۔ اس پوری گفتگو میں باتوں اور گانوں کی صورت محمد (صل اللہ علیہ وسلم)، عائشہ و امہات (رضی اللہ عنھما  )، فرشتوں (بالخصوص جبرئیل و ازرائیل علیہما السلام)، دور جاہلیت، معراج، دو سمندروں کا الگ ہونا (سورہ رحمن میں جس کا ذکر ہے) وغیرہ جیسے موضوعات پر باتیں ہوتی ہیں، جن کا نا  صرف   اسلام سے تعلق نہیں ہوتا ہے بلکہ اسلام کے خلاف ہوتی ہیں۔   ظاہر سی بات ہے کہ ان موضوعات کا اصل ہدف اسلام، نبی، قرآن اور اسلامی تاریخ و شعائر کی تضحیک ہی ہے کیونکہ یہ سب حقائق سے بہت دور کے مفروضے پر مبنی گفتگو ہے۔

ناول کے اس مختصر پس منظر کو اگر آپ سمجھ گئے ہوں تو مجھے دو باتیں بلکہ درخواستیں کرنی ہیں۔

ایک – اس ناول کو یا اس جیسی دوسری کتابوں مثلاً لجّا، رنگیلا رسول، کو ایک بار ضرور پڑھیے۔ پڑھنے کے بعد ہی آپ کو پتہ چلے گا کہ دشمن کی منافرت کیا اور کیسی ہے اور اس پر آپ کو کیسا ردعمل کرنا ہے۔

دو- کبھی بھی ایسے موقعوں پر جذباتیت کا شکار نہ ہوں۔ ر شد ی یا تسلیمہ کوئی  آج کا نومولود معاملہ نہیں ہے، بعثت کے بعد ہی سے ایسے اتہامات شروع ہوچکے تھے، واقعہ افک سے لیکر آپ کو ساحر مجنوں اور جنات قابو میں رکھنے والا گرداننے تک سب اسی سلسلے کی اولین تمثیلات ہیں۔ رہی بات ان جیسوں کے انجام کی، تو ابو جہل و عبداللہ بن سبا سے لیکر آج ر شد ی و تسلیمہ تک سب اپنی زندگیوں میں ہی عبرت کی شکل میں آپ کے سامنے ہیں۔ نہ بھولیں کہ اسلام کا “عسى أن تكرهوا شيئا و هوا خيرا لكم” کا فلسفہ آج بھی پورے طور پر کام کر رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو کبھی گوگل کرکے صرف اتنا معلوم کرلیں کہ ر شد ی و تسلیمہ جیسوں سے اسلام کی شبیہ کو تو ذرہ برابر نقصان نہ ہوا البتہ انکی وجہ سے اسلام و نبی علیہ السلام کو سمجھانے کی کوشش میں ہزارہا لوگ دامن اسلام میں آگئے ہیں۔ یقین جانیں، رب کا طریقہ کچھ الگ ہوسکتا ہے پر ایسی ذہانتوں کا ارتداد یا ایسی کتابوں کا پابندی کے بعد بازار میں ورود آپ ہی کے مفاد کے لئے ہے۔

julia rana solicitors london

بس ایک آخری درخواست  ۔ روایتی فکر اور اپروچ سے تھوڑا باہر نکلیں۔ اگر آپ کسی مدرسے یا کالج کے فارغ ہیں تو اتنا باشعور تو ہیں ہی کہ آپ میں اچھے و غلط کی خاطر خواہ تمیز آچکی ہے، لہذا ایسی کتابوں کو بھی پڑھیں، ان پر آپس میں گفتگو کریں، اپنے بیوی بچوں کو انکی سلبیات گنواتے ہوئے متعلقہ اسلامی ایجابات انکے سامنے رکھیں۔ بات بات پہ یہ کہنا کہ ایسی کتابوں کو مت پڑھیں دراصل خود کو کمزور اور غیر مستحکم باور کرانا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply