شوہر ایک بار غلطی کرتا ہے یا پہلی بار بے وفائی کرتا ہے تو پکڑے جانے پر بیوی سے معافی مانگ لیتا ہے اور بیوی رونے دھونے کے بعد معاف بھی کر دیتی ہے مگر بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ مرد ایک غلطی کے بعد دوسری تیسری اور پھر غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے اور ہر بار عورت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کو معاف کر دے گی اور ہمارا معاشرہ اور خاندان والے عورت سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے حالات میں گزارا کرے اور سمجھوتہ کرے۔ بہت سی عورتیں اپنا گھر بچانے کے لیے بہت کچھ برداشت کرتی ہیں اور کوشش یہی کرتی ہیں کہ ان کے بچے اپنے باپ کے ساتھ ایک چھت تلے رہیں۔ بہت سی خواتین مالی طور پر خود مختار نہیں ہوتیں یا اتنی تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں کہ وہ علیحدگی لے کر اچھی زندگی گزار سکیں لہذا معاشی دباؤ کے خوف سے علیحدگی اختیار نہیں کرتیں۔ اس قسم کے گھٹن والے ماحول میں جہاں میاں بیوی کے آپس میں تعلقات اچھے نہ ہوں بچوں کی اچھی تربیت کا امکان کم ہوتا ہے۔ اگر حالات ناگزیر ہو جائیں تو خواتین کو یہ فیصلہ ضرور لے لینا چاہیے۔
مرد کو بہت سارے چانسز دینے کے باوجود بھی اگر وہ نہیں سدھرتا تو پھر کئی خواتین دل مضبوط کر کے آخر کار طلاق دینے کا فیصلہ کر لیتی ہیں۔ مردوں کے دوسری شادی یا خفیہ شادی تو ایک معمول کی بات بن کر رہ گئی ہے۔ جس شخص کے پاس تھوڑا پیسہ آجاتا ہے وہ عیاشی کو اپنا پہلا حق سمجھنے لگتا ہے۔ دوسری یا خفیہ شادی کے بارے میں بھی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایک کر لیتے ہیں اور اگر وہ کامیاب ہو جائے تو ٹھیک ورنہ ہوتا تو یہ ہے کہ کئی بار پیسے والے مردوں کے پیچھے کچھ لالچی غریب لڑکیاں پڑ جاتی ہیں جو اِن کو برباد کر کے چھوڑتی ہیں جھوٹ بول کر، دھوکہ دے کر پیسے اینٹھتی ہیں اور ایسے بے وقوف پیسے والے مرد اپنی وقتی عیاشی کے پیچھے اپنی باوفا گھریلو بیوی کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ ایک اور مشاہدہ یہ ہے کہ جب ایک بار ایسی حرکت کر لیتے ہیں تو پھر ان کی جھجک اُتر جاتی ہے پھر ان کو ایک کے بعد دوسرا افیئر چلانے میں شرم نہیں آتی، کہ اگر پکڑے گئے تو بیوی کے پیر پڑ کے معافی مانگ لیں گے یا پھر اس کو طلاق کی دھمکیاں دیں گے کہ اگر اعتراض کیا تو باہر کا راستہ ادھر ہے۔ دولت مند مردوں کو اس بات کا بڑا زعم ہوتا ہے کہ وہ دولت کے بل بوتے پر ہر چیز بلکہ محبت بھی خرید سکتے ہیں حالانکہ یہ محبت ، محبت نہیں ہوتی ان کی ہوس ہوتی ہے اور دوسری عورت کو پیسے کا لالچ جو ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتے ہیں۔ مگر ایک بار جب عورت کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور بار بار ٹوٹ چکا ہوتا ہے اور وہ اس قدر غمزدہ ہو جاتی ہے کہ مزید سمجھوتہ کرنے کے قابل نہیں رہتی تو بالآآخر ایک کٹھن فیصلہ لے لیتی ہے۔ جس کو پھر کوئی معافی تلافی خاندان یا رشتہ داروں کا دباؤ اور دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں بدل سکتی۔
اب شروع ہوتا ہے طلاق کا پروسیس، جہاں سے ایسے بے وفا اور سنگدل مردوں یا پھر کئی کیسز میں عورتوں کی اصلیت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ علیحدگی اور طلاق ایک مہذبانہ طریقے سے کی جائے۔ ہماری سوسائٹی میں زیادہ تر جوڑے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ کسی ایک فریق کی جھوٹی انا ہوتی ہے خصوصا ً ایسے بگڑے ہوئے مرد جو عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں کہ وہ ان سے اگر علیحدگی لے گی تو وہ اس کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے یعنی مالی اور معاشرتی دونوں لحاظ سے اس کا جینا حرام کر دیں گے۔ گھر سے بھی بیوی بچوں کو نکال دیتے ہیں۔ انہیں خرچہ دینا بند کر دیتے ہیں تاکہ اپنے سابقہ بیوی یا بچوں کی ماں کو اس بات کی سزا دی جائے کہ اس نے علیحدگی کیوں لی ، بھلے اس میں اس کے خود کے بچے ہی پس رہے ہوں۔ خود غرضی اور سفاکی کی انتہا ہے۔ لیکن ان کے برعکس کئی مردوں کے بارے میں سنا ہے کہ جنہوں نے باہمی رضامندی سے سلجھے طریقے سے طلاق کے معاملے کو نمٹایا، انہوں نے بیوی بچوں کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیا اور وہ خود کہیں اور شفٹ ہو گئے اور طلاق کے بعد وہ سابقہ بیوی اور بچوں کو باقاعدگی سے خرچہ بھی بھجواتے ہیں۔
ڈرامہ بسمل کی کہانی ایسے بے وقوف دولت مند مردوں کے لیے سبق آموز ہے جو صرف ہوس کی خاطر اپنے خاندان کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ پورے ڈرامے میں ہر چیز حقیقی رنگ میں دکھائی گئی سوائے موسیٰ کی خودکشی کے جہاں رائٹر نے شدید مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، موسی گھر چھوڑ کر امریکہ بھی شفٹ ہو سکتا تھا مگر یہ ایک انتہائی اقدام دکھایا گیا کہ بچے دل برداشتہ ہو کر اپنی جان بھی لے سکتے ہیں۔ ریحام جیسی شاندار عورت جسے اپنے شوہر سے اتنا بڑا دھوکہ فریب ملا ہو وہ کیوں کر اس کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے بھلے وہ کتنا ہی نقصان کی تلافی کرنا چاہے۔ ایک بار جب کوئی دل سے اتر جائے تو پھر دوبارہ وہ مقام نہیں پا سکتا۔ اور اسقدر انتہائی دکھ سے گزرنے کے بعد تو دل اتنا سنسان ہو جاتا ہے کہ اسے پھر کوئی آباد نہیں کر سکتا۔
بابا بلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے
“مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے
ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
ایک بندے دا دل نہ ڈھاویں
رب دلاں وچ رہندا”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں