پیپلز پارٹی کا حصّہ /محمد اسد شاہ

پاکستان کی دونو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی الگ الگ ذاتی پہچان بھی ہے – شریف خاندان کا تعلق شعبہ تجارت سے ہے اور زرداری خاندان کا تعلق زراعت سے – لیکن سیاست کے میدان میں یہ ثابت ہو چکا کہ زرداری صاحب زراعت کے علاوہ تجارت میں بھی شریف خاندان سے کہیں آگے ہیں – 2008 کے بعد کبھی قومی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل نہیں کی – لیکن اپنی ذاتی “تاجرانہ” مہارت کی وجہ سے زرداری صاحب اہم آئینی عہدوں پر خود فائز ہوتے آئے ہیں یا اپنے ذاتی وفادار ساتھیوں کو یہ عہدے دلواتے رہے ہیں – فروری 2024 کے انتخابی نتائج میں بھی پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز کے مقابلے میں بہت پیچھے رہی – وفاق ، پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ نواز واحد اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی – سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو اکثریت ملی – جب کہ خیبرپختونخواہ میں آزاد امیدوار بہت بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے – صرف سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی اس وقت ملک کے تقریباً تمام حساس آئینی عہدوں پر قابض ہے – جس طرح اوپر ذکر ہو چکا ، اس وقت مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی ، سینیٹ ، بلوچستان اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے – اس کے باوجود مسلم لیگ نواز نے صدر مملکت ، چیئرمین سینیٹ ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ، گورنر گلگت بلتستان ، گورنر خیبرپختونخوا اور گورنر پنجاب جیسے تمام اہم ترین آئینی و سیاسی عہدے پیپلز پارٹی کو دے دیئے – سیاست کی نظر سے دیکھا جائے یا تجارت کی نظر سے ، یہ “حصہ” پیپلز پارٹی کی موجودہ انتخابی حیثیت سے بہت زیادہ ہے – تجارت تو شریف خاندان کی پہچان تھی ، لیکن زرداری صاحب نے وڈیرہ داری و جاگیرداری پہچان رکھنے کے باوجود شعبہ تجارت میں بھی خود کو پاکستان کا سب سے کامیاب شخص ثابت کر دکھایا ہے – مسلم لیگ نواز کی جانب سے سراسر گھاٹے کا یہ سودا شہباز شریف نے کیا – اس سے قبل کبھی ایسی نالائق سودے بازی مسلم لیگ نواز نے نہیں کی تھی – پیپلز پارٹی اس پر بھی راضی نہیں – پیپلز پارٹی کے نامزد موجودہ گورنر پنجاب ، اپنے آئینی منصب کے تقاضوں کے مطابق صرف خاموش رہنے اور وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے بھیجے گئے مسودات پر دست خط کرنے تک محدود نہیں رہ پائے – بل کہ آئے دن وہ مسلم لیگ نواز کی منتخب صوبائی حکومت پر کھلم کھلا سیاسی تنقید بھی کرتے رہتے ہیں – وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے بھجوائے گئے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن پر دست خط کرنے سے انھوں نے صاف انکار کر دیا اور اعتراض بھی عائد کر دیا جس کا انھیں کوئی اختیار ہی نہ تھا – اس سے قبل صوبائی اسمبلی کے منظور کردہ ایک آئینی بل پر بھی دست خط کرنے سے انھوں نے انکار کیا – علاوہ ازیں وہ پنجاب کے خصوصاً سرائیکی علاقوں میں پیپلز پارٹی کے مقامی لیڈرز سے ملاقاتیں کرتے اور مسلم لیگ نواز کے خلاف شکوے شکایتیں کرتے رہتے ہیں – ان کی تان ہمیشہ اس بات پر ٹوٹتی ہے : “پیپلز پارٹی کو اس کا پورا حصہ نہیں دیا جا رہا!” – حیرت ہے کہ ابھی حصہ پورا نہیں ہوا – بلاول زرداری بھی پارلیمان کے علاوہ جلسوں اور میڈیا کے ذریعے مزید حصہ طلب کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں – مسلم لیگ نواز کے ووٹ سے بنے صدر مملکت نے تو اپنے ہر دفتر میں پیپلز پارٹی کے اصل قائدین کی تصاویر آویزاں کر رکھی ہیں – لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کی تو اتنی جرأت بھی نہیں کہ اپنے دفتر میں اپنی جماعت کے صدر کی تصویر ہی لگا سکیں – ابھی تو مسلم لیگیوں کو اللّٰہ کا شکر کرنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کے طاقت ور لیڈرز اپنے مقدمات کی وجہ سے جیلوں میں ہیں – ورنہ میڈیا میں مسلم لیگ نواز کی رہی سہی آواز بھی کہیں سنائی نہ دیتی – مسلم لیگ نواز کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مصنوعی قیادت کے ذریعے سیاست سراسر گھاٹے اور ذلت کا سودا ہے – مسلم لیگ نواز نے شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت بھی قائم کر رکھی ہے اور بلاشبہ ملکی معیشت کے حوالے سے بہت زبردست کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں – لیکن ہمارے عوام کے مزاج کو سمجھنے میں اس سے مسلسل غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں – بدقسمتی ہی سہی ، لیکن حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی نمایاں اکثریت کو ترقیاتی کاموں اور معاشی ترقی و استحکام سے کوئی سروکار نہیں – وہ صرف الٹے سیدھے ، جھوٹے سچے ، بڑھک مار قسم کے پروپیگنڈے کو پسند کرتے ہیں – اور پروپیگنڈے کے معاملے میں مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سے بہت بہت پیچھے ہے – محترمہ مریم نواز شریف پنجاب میں عوامی فلاح کے لیے بہت کام کر رہی ہیں اور صرف چند ہی ماہ میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگا دکھایا ہے – لیکن اس کے باوجود بر سرِ زمین مسلم لیگ نواز عوامی حمایت کے جوش سے محروم نظر آتی ہے – خاص طور پر سیاسی حقائق اور ملکی خودمختاری و استحکام کے تقاضوں سے نابلد کم فہم نوجوانوں کی اکثریت پروپیگنڈے سے شدید متاثر ہے – اس میدان میں مسلم لیگ نواز کی ٹیم کہیں نظر نہیں آتی – پروپیگنڈا سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور عوامی جلسوں کی شکل میں ہوتا ہے ، لیکن مسلم لیگ نواز نے شاید یہ سارے میدان مخالفین کے حوالے کر رکھے ہیں – صرف پریس کانفرنسز سے عوامی رائے کو متاثر نہیں کیا جا سکتا – اس کی وجوہات پہ غور کرنا مسلم لیگ نواز کی قیادت کا کام ہے – میاں محمد نواز شریف صاحب سیاسی محاذ خود اپنے ہاتھ میں کیوں نہیں لے رہے؟ عوام سے براہِ راست رابطے کیوں ختم ہیں؟
دوسری جانب 9 مئی 2023 کو افواجِ پاکستان کی حساس تنصیبات پر حملے کرنے والوں میں سے مجموعی طور پر 85 افراد کو ملٹری کورٹس کے ذریعے سزائیں سنائی جا چکی ہیں – ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کو سزائیں دلوانے میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے بہت کام کیا تھا – تب عمران خان ، شہریار آفریدی، مردا سعید اور عمران ریاض بہت زور و شور سے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی حمایت کیا کرتے تھے – سینکڑوں سویلینز کو عمران خان کے دست خط سے ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ، انھیں سزائیں بھی دلوائی گئیں اور ان میں سے اکثر ابھی تک جیلوں میں پڑے وہی سزائیں بھگت رہے ہیں – لیکن جب خود عمران اور ساتھیوں کے اپنے مقدمات ملٹری کورٹس میں آئے تو وہ پاکستانی عدالتوں سے لے کر یورپی و امریکی اسٹیبلشمنٹ تک ، ہر جگہ انھی ملٹری کورٹس کے خلاف شور مچا رہے ہیں – اس کھلم کھلا تضاد پر بھی سرکاری وکلاء عدالتوں میں ، اور سرکاری سیاسی قیادت عوامی محاذ پر گونگے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں – وجہ کیا ہے ، معلوم نہیں –
ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ دنوں بہت مدلل پریس کانفرنس کی ہے – لیکن چند نکات ایسے تھے جن پر بولنا ڈی جی آئی ایس پی آر کی بجائے وزیر خارجہ یا وزیرِ دفاع کی ذمہ داری تھی – منتخب سیاسی قیادت کو ان معاملات پر سوچنا چاہیے –
کالم کے اختتام پر لاہور پریس کلب کی نومنتخب قیادت کو مبارک باد – امید ہے کہ مسلسل دوسری بار جیتنے والے صدر صاحب اپنی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھیں گے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply