رچرڈ فائن مین مشہور امریکی طبیعات دان تھے جنہیں 1965 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ اپنے مشہور زمانہ فزکس کے لیکچرز اور کتابوں اور انٹرویوز کی مدد سے سائنسی صحافت کے کام لئے مشہور تھے۔ انکا یہ انٹرویو 1983 میں بی بی سی لندن سے نشر ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ و مختصر ردوبدل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
انداز فکر
آپ پوچھ رہے تھے کہ کیا کوئی عام انسان محنت کر کے میری طرح ان چیزوں کے بارے سوچ سکتا ہے؟ بالکل! میں بھی تو ایک عام انسان ہی تھا جس نے سخت محنت کی۔ یہ کوئی معجزہ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو دنیا کے بارے دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور وہ سیکھ لیتے ہیں۔ یہ عام لوگ ہی ہوتے ہیں۔ برقی مقناطیسی میدان اور کوانٹم میکانیات وغیرہ کو سمجھنے کے لئے خاص کراماتی صلاحیتوں کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اسکے لئے مطالعہ اور تفکر درکار ہے۔ ایک عام انسان جو وقت لگا کر سیکھتا ہے، محنت کرتا ہے، ریاضی سے واقفیت پیدا کرتا ہے وہ بالآخر سائنسدان بن جاتا ہے۔
میں اکثر اپنے گہرے تفکر میں ہوتا ہوں یا ان گہرے سوالوں کو لے کر پریشان ہوتا ہوں، لیکن مجھے خود نہیں پتا کہ اس کیفیت کو کیسے بیان کروں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک کیکڑے کے بارے پوچھیں کہ اسکی کونسی ٹانگ کس وقت حرکت کرتی ہے۔ یہ سب ازخود ہوتا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ دماغ میں کونسی بات کس طرح جنم لیتی ہے۔ بس کچھ مساواتیں ہیں، ان مساواتوں کے حل ہیں اور ان سے نکلنے والے نتائج کا ایک مکسچر سا ہوتا ہے۔ مگر لفظوں کے برعکس، ریاضیاتی مفاہیم اتنے واضح نہیں ہوتے بلکہ معنی کا ایک الجھاؤ سا ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اسکو لفظوں میں کیسے بیان کروں یا اسکو بیان کرنا بھی چاہیے۔ ایک بات جس پر میں الجھا رہا ہوں اور وہ بہت دلچسپ ہے۔ وہ یہ کہ ہر انسان کے دماغ میں جو خیالات بن رہے ہوتے ہیں، وہ اس سے شاید بہت مختلف ہوتے ہیں جنہیں وہ خود لفظوں سے بیان کر رہا ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الفاظ بہت آسانی سے بات بیان کر رہے ہوتے ہیں یا دوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن اس گفتگو کے پیچھے دماغ میں ایک طرح کی ترجمہ کرنے کی مشق جاری ہوتی ہے جو دوسرے کے الفاظ کو ہماری ذہنی کیفیت کے مطابق ڈھال رہی ہوتی ہے۔
ایک دور میں، میں ہمارے ذہن میں وقت کے تصور کو لے کر سوچ رہا تھا اور اس پر کچھ تجربات کر رہا تھا۔ میں گنتی شروع کرتا تھا کہ ایک منٹ میں کہاں تک گن سکتا ہوں، فرض کریں ایک منٹ میں اڑتالیس تک گنتا ہوں۔ اگر آپ یہ مشق دہراتے رہیں تو آپکی گنتی ایک منٹ میں ساٹھ تک جانے لگے گی۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ اس عمل میں گنتی اور وقت کا آپس میں کیا تعلق ہوتا ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ گنتی کرتے وقت ساتھ ہم بہت سے کام کرسکتے ہیں۔ مثلاً میں کپڑے دھونے کے لئے جرابیں الگ کر رہا تھا اور ساتھ انکی گنتی کر رہا تھا لیکن میں انکو درست نہیں گن سکا حالانکہ یہ بس پانچ چھ جرابیں ہی تھیں۔ کیونکہ میرا دماغ گنتی کا کچھ وقت جرابوں کو الگ کرنے میں صرف کر رہا تھا۔ جب میں نے ان جرابوں کو ایک خاص پیٹرن میں ترتیب دیا تو مجھے گننے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اسطرح کی مشقوں سے میں گننے میں ماہر ہوگیا۔ اخبار کے صفحے پر بنے مختلف گوشوں کو سطروں کی شکل کی بنیاد پر یونہی دو دو تین تین کی ترتیب لگا کر گن سکتا تھا۔ میں اگر ایک صفحے پر سطروں کی تعداد کو معلوم کرنا چاہتا تو بس سیکنڈ گنتا رہتا، ایک منٹ پورا ہونے پر مجھے معلوم ہوجاتا کہ اڑتالیس تک گنتی ہوچکی ہے۔ یہ بہت دلچسپ تجربہ تھا اور میں نے اس تکنیک یعنی پڑھتے وقت گنتے رہنے سے بہت سی باتیں دریافت کیں۔ لیکن اس عمل کے دوران بولنا میرے لئے مشکل تھا۔ ہاں اپنے ذہن میں خود کے ساتھ بول کر گنتی کرتا تھا۔
پرنسٹن میں میرے ساتھ ایک مشہور ریاضی دان جان ٹوکی تھا جن کے ساتھ ناشتے کی میز پر میں اکثر گفتگو کرتا۔ میں نے اس سے اپنے اس تجربے کے بارے بات کی۔ اس نے میری بات سن کہا کہ یہ غیرمعقول بات ہے کہ تم گنتے وقت بول نہیں سکتے۔ اس نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ گنتے وقت تمہیں بولنے میں کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے اور نہ مجھے یقین ہے کہ تم گنتی کے ساتھ پڑھنا بھی جاری رکھ سکتے ہو۔ بہرحال، اس نے بھی میری طرح گننے کا تجربہ کیا اور وہ ایک منٹ میں شاید باون تک گن پایا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ تم اب کیا چاہتے ہو میں گنتے وقت باتیں کروں؟ میں ہرطرح کی بات کرسکتا ہوں جیسے میری کے پاس ایک بچھڑہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ وہ بولتا گیا اور پھر اس نے ایکدم کہا باون، اور ایک منٹ گزر چکا تھا۔ مجھ سے ایسا کبھی نہیں ہوسکا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں گنتے وقت پڑھ کر دکھاؤں کیونکہ اسکو یقین نہیں تھا۔ پھر ہم نے اپنے مشاہدات ایکدوسرے کو بتائے تو پتا چلا کہ جب وہ ذہن میں گنتی کرتا تو ایک ٹیپ اسکے سامنے چلتی جو کلک کلک کرتی رہتی اور اس پر نمبر لکھے ہوتے جن کو وہ دیکھ سکتا تھا۔ گویا وہ ایک طرح کا دیکھنے کا نظام استعمال کررہا تھا یعنی نمبر آنکھوں کے سامنے آتے تھے، نہ کہ میری طرح خود سے بول کر گنتا تھا۔ گویا وہ گنتے وقت بول سکتا تھا لیکن وہ پڑھ نہیں پاتا تھا کیونکہ اسکی گنتی میں آنکھوں کا استعمال زیادہ تھا۔ جبکہ میں ساتھ پڑھ لیتا تھا لیکن بول نہیں پاتا تھا۔ یوں مجھے معلوم ہوا کہ، کم از کم گنتی کے سادہ عمل میں، مختلف لوگوں کے ذہن میں مختلف عوامل ہوتے ہیں حالانکہ وہ ایک ہی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
اگر گنتی کے سادہ سے عمل میں مختلف لوگوں کے دماغ میں مختلف عوامل ہوتے ہیں، تو پھر پیچیدہ اور مجرد تصورات جیسے کہ برقی میدان، بیسل فنکشنز، ایکسپونینشل وغیرہ کو دماغ میں محفوظ کرنے اور انہیں متصور کرنے کا طریقہ سب کے ذہن میں کس قدر مختلف ہوگا! شاید اسی لئے کوئی ایک بات جو میرے لئے بہت ہی آسان ہے، کسی دوسرے شخص کے لئے اسکو سمجھنا بہت دشوار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک شخص کی بات کو جب دوسرا اپنے ذہن میں منتقل کرنا چاہے گا تو اسے اپنے ذہن کے مطابق ڈھالنا پڑے گا۔ اب میں شاید ایک ماہرنفسیات کی طرح باتیں کررہا ہوں جبکہ نفسیات کے بارے مجھے کچھ بھی معلوم نہیں۔ ہمارا دماغ وقت کے ساتھ نشوونما پاتا ہے اور ہم ایک خاص پیمانے کی چیزوں کے بارے تصورات بنانے کے قابل ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی ایسی چیز سامنے آجائے جو ہمارے عام پیمانے سے بہت مختلف ہو تو اس کو تصور میں لانا اور سمجھنا بہت دشوار ہوجاتا ہے۔ یہی وہ دشواری ہے جو ہمیں آجکل پیش ہے۔
ایٹمی پیمانے کی چیزوں کی حرکت، ہمارے عام پیمانوں کی نسبت بہت ہی مختلف اور شاندار ہے ۔ جیسے اگر کوئی کہے کہ الیکٹران لہروں کی طرح ہیں یا ذرات ہیں یا ایٹم کے نیوکلئیس کے گرد ایک بادل کی طرح حرکت کرتے ہیں، تو یہ تمام باتیں مکمل طور سے درست نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ الیکٹران کی صرف ایک واضح تصویر اپنے ذہن میں بنا لیں جو حقیقت کی درست عکاسی کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ الیکٹران کی درست تصویر، الفاظ یا صورت سے نہیں بلکہ ریاضی کی مساواتوں میں بیان ہوتی ہے۔ ہم مساواتوں سے بتاسکتے ہیں کہ اس کی حرکت کیسے ہوگی لیکن ہم لفظوں میں اسکی درست تصویر پیش نہیں کرسکتے۔ یوں سمجھیں جیسے ایک کمپیوٹر پروگرام کو کسی گاڑی کی رفتاراور طے شدہ فاصلہ وغیرہ بتا کر یہ معلوم کریں کہ منزل تک جانے میں کتنا وقت لگے گا۔ کمپیوٹر حساب لگا کر جواب تو دے سکتا ہے مگر وہ کار کی تصویر نہیں بنا سکتا۔ چاہے وہ کار ہو یا کوئی بھی شے ہو، کمپیوٹر صرف فارمولے استعمال کررہا ہے۔
بہرحال، کچھ اندازے لگا کر مساواتوں کا ایسا حل نکل سکتا ہے جسکی تصویر ذہن میں بنائی جاسکے۔ جیسے ایٹم کے مرکز کے گرد الیکٹران ایک دھند یا بادل کی شکل میں حرکت کرتا ہے جسکو دبایا جائے تو یہ دفع کرتا ہے۔ یہ ماڈل مختلف مٹیریلز کی ساخت سمجھنے کے لئے کافی موثر ہے۔ یونہی کچھ دیگر مظاہر میں اسے ایک لہر کی مانند متصور کرسکتے ہیں۔ یا جیسے میں نے حرارت کی وضاحت پیش کرتے وقت ایٹموں کو چھوٹی گیندوں کی طرح پیش کیا تھا، یہ اندازے صرف اس حد تک کام آتے ہیں جس سے کسی مظہر کی مطمئن وضاحت ہوسکے۔ لیکن دوسرے مظاہر میں یہ تصور کام نہیں آتے۔ جیسے اگر آپ پوچھیں کہ ہیلیم گیس کو زیرو کیلون درجہ حرارت تک ٹھنڈا کرنے سے اسکے ایٹموں کی حرکت بالکل رک جانی چاہیے مگر یہ ایک سپرفلوئڈ کیوں بن جاتی ہے؟ سپر فلوئڈ ایسا مائع ہے جس میں توانائی کا ضیاع صفر ہوجاتا ہے یعنی بنا مزاحمت بہاؤ ہوتا ہے۔ ایٹمی دنیا کی ایسی تصویر بنانا ممکن نہیں ہے جس میں مندرجہ بالا تمام مظاہر کی وضاحت ہوسکے۔ ہاں مساواتوں کی مدد سے ان مظاہر کی وضاحت ممکن ہے۔ یعنی ہم تھیوری سے وضاحت کر پاتے ہیں لیکن اسکو متخیل کرنا مشکل ہے۔ اسکی کیا وجہ ہے؟ کیا انسانی ذہن ان کو متصور کرنے سے عاجز ہے؟ یا ایسا تخیل ہی نہیں موجود جو ذہن میں روزمرہ خیالات سے مدد لے سکے؟ اگر ایسا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ روزمرہ سے ہٹ کر ایسے خیالات ذہن میں بنائے جاسکیں جن سے عام واقفیت نہ ہو اور جنہیں ایٹموں کی خصوصیات، کوانٹم میکانیات اور اسکی مساواتوں کے مطالعے کی مدد سے متصور کیا جاسکے؟ یعنی ایک طرح سے دماغ کی فطرت ثانیہ بنائی جا سکے؟ بالکل جیسے فطرت اولیٰ میں یہ تصور واضح ہے کہ دو گیندیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ٹوٹ سکتی ہیں لیکن اپنا رنگ نہیں بدل سکتیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جوں جوں وقت گزرے اور نئی نسلیں پیدا ہوں تو وہ تعلیم و تدریس کے ایسے نئے طریقے بنا لیں اور انکی ایسی تربیت ہوجس سے وہ ایٹم جیسی پیچیدہ چیزوں کو بآسانی متصور کرسکیں؟ ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جویہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ایٹمی دنیا کے مظاہر ، عام دنیا کی چیزوں سے بہت مختلف ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک تعصب ہے جو ہر چیز کو عام دنیا جیسا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اس دن کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ جب سائنسدان، کوانٹم میکانیاتی مظاہر کی تہہ میں بھی عام گیندوں جیسی اشیاء تلاش کرلیں گے تو پھر روزمرہ خیالات سے( کوانٹم میکانیات کی بھی) وضاحت ہوجائے گی۔ میرے خیال میں ایسا دن کبھی نہیں آئے گا۔ میرے مطابق، فطرت کا تخیل ہم انسانوں سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہے اور وہ ہمیں اتنی آسانی سے چین نہیں لینے دے گی!

(ختم شد)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں