• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہم کچھ تھوڑی بہت اپنی بھی خود احتسابی کرلیں/محمد علم اللہ

ہم کچھ تھوڑی بہت اپنی بھی خود احتسابی کرلیں/محمد علم اللہ

حالانکہ مایوسی اور نامیدی کی اسلام میں گنجائش نہیں مگر حالات بے قابو ہوجائیں اور جب کوئی حل نظر نہ آئے تو بعض اوقات ان کیفیات کا اثرہونا انسانی کمزوری ہے۔ کچھ ایسا ہی حال خاص طور پر گزشتہ دہائی میں ملک کی سیاسی صورتحال نے ملت کا کیا ہے اور نظام کے تئیں ایک غصہ اور حالات سے مایوسی نے بڑی حد تک ہماری سوچ اور فکر کو طرح متاثر کیا ہے یہاں تک کے کہ ہم نے اس کا قصوروار نظام کو ٹھہرادیا جبکہ ایک کثیرالسانی اور کثیرالمذہبی معاشرے میں اس سے بہتر قابل عمل نظام کا تصور کرنا مشکل ہے۔

دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کیا جائے کہ آزاد ہندوستان نے تقسیم کی سیاست سے بلند ہوکر ملک کو ایک ایسا دستور دیا جس کے مطابق ایک سیکولر، جمہوری اورفلاحی ریاست کا وجود عمل میں آیا ۔ اگر دستور کی سفارشات پر قرار واقعی عمل ہوتا تو بہت سے عقدے جو آج لاینحل ہیں کب کے حل ہوچکے ہوتے۔ موجودہ صورت حال جمہوریت کی پیدا کردہ نہیں ہے، یہ اس ناتوانی کی طرف اشارہ کرتی ہے جوتعصبات، چند غیر تاریخی تصورات، چند معروضات اور بعض حلقوں کی طرف سے جان بوجھ کر کچھ غلط فہمیوں کے عام کرنے کی وجہ سے گھر کر گئی ہے۔ ان کا علاج جمہوری مزاج کو دبانے اور سیکولر ازم کو وظیفہ لب رکھنے کے بجائے دل کی دھڑکن اور زندگی کی رہ نما بنانے میں ہے، اور یہ کام صرف اقلیت کا نہیں بلکہ اکثریت کا بھی ہے، بلکہ اکثریت کی ذمہ داری زیادہ ہے۔مگر افسوس یہ ہے کہ حکومت اپنی طاقت کے نشے میں اور تعصبات کا شکار ہوکر اس مقصد کو فراموش کررہی ہے۔

مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کچھ تھوڑی بہت خود احتسابی بھی کرلیں۔ اقلیت کےلیے یہ رویہ مناسب نہیں ہے کہ وہ خود کچھ نہ کرے اور اس کا انتظار کرے کہ اکثریت کیا کرتی ہے۔ اس کے یہاں عمل نہ ہو صرف رد عمل ہو۔ ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے ملکی مسائل سے کم ، عالم اسلام کے مسائل سے زیادہ سروکار رکھا ہے ۔ اس میں کافی حد تک سچائی بھی ہے ۔بے شک ہم عالم اسلام سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ ہمارا روحانی مرکز بہرحال مکہ ومدینہ ہے، مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ ہم اپنے گھر کے معاملات سے اور اپنے سماج سے کوئی واسطہ نہ رکھیں، قومی مسائل سے علاحدگی یالاتعلقی اس کی صلاح وفلاح سے بے نیازی اورساحل سے دریا میں موجوں کے زیروبم کا تماشادیکھنا، اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا نہ صرف قومی نقطہ نظر سے کوتاہی ہے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی درست نہیں ہے۔

مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہرؒ نے 19 نومبر 1930 کو لندن میں گول میز کانفرینس میں اپنی آخری اور شہرہ آفاق تقریر میں کیا خوبصور بات کہی تھی: ‘‘میرا تعلق برابر رقبوں والے دو دائروں سے ہے جو ہم مرکز نہیں ہیں۔ ایک دائرہ ہندوستان ہے اور دوسرا مسلم دنیا ہے[۔۔۔]ہم ہندوستانی مسلمان دونوں دائروں سے تعلق رکھتے ہیں [۔۔۔] اور ہم دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم نہ قوم پرست ہیں نہ بہت بڑے قوم پرست اور بحیثیت مسلمان میرا کہنا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اور شیطان نے انہیں قومیتوں میں تبدیل کردیا۔’ ’

جدیدیت کی جو رو ہندوستان میں اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں آئی، مسلمانوں تک دیر میں پہنچی، مولانامحمد علی جوہر نے ۱۹۲۳ میں کوکوناڈا کانگریس کے صدارتی خطبے میں ہندوئوں میں بیداری اورمسلمانوں کی بیداری میں تیس سال کا وقفہ بتایا تھا۔ پروفیسر آل احمد سرور نے اس کو پچاس سال کا وقفہ قرار دیا ہے۔ یعنی سرسیدکی تحریک کی طرف مسلمانوں نےدیرمیں توجہ کی۔ ہماری ملت کی قیادت، علماء کے ہاتھ، میں رہی جو اس وقت کے حالت اور انگریزوں کو مسلم اور اسلام دشمنی کے تناظر میں انگریز وں اور ان کی لائی ہوئی ہرچیز کی مخالفت کو مذہبی فریضہ سمجھتے تھے۔ان کا خیال یہ تھا کہ انہیں ان کی ضرورت نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں نئے حقائق کو قبول کرکے نئے سرے سے زندگی کی تنظیم کرنے کی صلاحیت اور دنیا کی کھیتی سے آخرت کےلیے نئے نئے حاصل بہم پہنچانے کی استعداد کو وہ بھول گئے، حالانکہ اسلام مشاہدے، مطالعے، علم، تحقیق، وتخصص اور اقبال کے الفاظ میں ہر لحظہ، نیا طور، نئی برق تجلی پر زور دیتا ہے۔ ہم یہ کہنے پر بھی مجبور ہیں کہ اس معاملے میں جتنی شدت علماء سے منسوب کی جاتی ہے اس میں علما دشمنی میں ایک طبقے نے خاص کردار ادا کیا ہے۔

بات لمبی ہوجائے گی مگر مثال دینا اور یہ بتاناضروری ہے کہ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتویؒ نے سرسید کے خلاف کفر کے فتوے پر دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ:’’ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تہ بجا ہے۔ مگر اتنا یا اس سے زیادہ ان کی فسادِ عقائد سن سن کر ان کا شاکی اور ان کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں۔۔۔‘‘ (تصفية العقائد، صفحہ نمبر 6) جن قارئین کو اس موضوع میں دلچسپی ہے انہیں نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب کی کتاب ’’مرج البحرین، سوانح شیخ الاسلام مولانا عبداللہ انصاریؒ‘‘ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔

یہ تو ہندوستان کی بات ہوئی ذرا اسلامی ممالک کا حال دیکھیے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد تیل کے بڑے ذخیروں کی دریافت ، اور ان کو زمین کی تہہ سے نکالنے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مسلم ممالک بڑے مالدار ہوئے ، جس کے اثر سے عالم اسلام میں ایک نئی زندگی دیکھنے کو ملی، مگر مگر بدقسمتی سے سائنسی ایجادات کے معاملے میں معاملہ صفر رہا۔

نہ موذی امراض کے خاتمے کی کوئی دوا ایجاد ہوپائی نہ ان سہولیات میں سے کسی ایک میں بھی کوئی تعاون ہوا جن کا عوام الناس کی زندگیاں آسان کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے اور جن کے بغیر کوئی مولانا ہوں یا مسٹر سب کی زندگیاں نامکمل نظر آتی ہیں ۔ہمیں فلسطین، پر اسرائیل کے مظالم کا بڑے دکھ درد کے ساتھ احساس ہے مگر ایسا کیوں ہے کہ مٹھی بھر اسرائیلی فلسطینیوں کو اس کے گھر سے نکالنے اور پھر ریگستانوں کو ہرا بھرا بنانے میں کامیاب ہوگئے اور دوسرے عرب ممالک ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔

کیا وجہ ہے کہ صارفیت جو مغربی سرمایہ داری اور اس کی اقتصادیات کی وجہ سے مغرب میں بھی لعنت بنتی دکھائ دیتی ہے۔ اب ترقی پذیر ممالک کا فلسفہ زندگی ہے اور ذیل میں ہندوستان، پاکستان بھی آتے ہیں۔ علماء نے توخیر ہماری ذہنی قیادت کا فرض انجام نہیں دیا اور موجودہ دور اور اس کے تقاضوں کو انہوں نے پرکارہ سے زیادہ وقعت نہ دی۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کو مشورہ دیا تھا کہ تیل کے عوض دریافت ہوئی نئی دولت کو سائنسی تحقیقات کے لئے استعمال کیا جائے اور سعودی حکومت کو دنیا بھر کے مسلمان سائنس دانوں کو سعودی عرب بلا کر یونیورسٹیاں اور تجربہ گاہیں کھلوا کر یہ کام اسی طرح کرنا چاہئے جس طرح امریکہ نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو اپنے یہانں جمع کر کے کیا ہےئ۔ افسوس کہ ان کے بات سنی اور ان سنی کردی گئی۔

بہرحال ان باتوں سے ہٹ کر کیا ہمارا نیا تعلیم یافتہ طبقہ ہمارے تعلیمی اداروں کے استاد،ہمارے سرکاری ملازم ، ہمارے سیاست داں ، ہمارے تاجر اور ہمارے دست کار اپنا فرض پہچانتے ہیں۔ کیا وہ صرف اپنا گھر بھرنے ، اپنے در و بام کی آرائش و زیبائش کرنے ، اپنے خانہ باغ کو سجانے، دولت جمع کرنے، اور اس کے ذریعہ سے اپنے عیش و آرام کا سامان فراہم کرنے میں مصروف نہیں رہتے؟۔

علماء کا تعلق تو بہر حال عوام سے اب بھی ہے اور یہ ایک حد تک ان کی فلاح کے لیے مساعی بھی کر رہے ہیں مگر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کچھ کو چھوڑ کر زیادہ تر صرف اپنی خدمت کرتا ہے، اپنا گھر بھرتا ہے اور اپنی دنیاوی جنت تعمیر کرتاہے ۔ ہم علما کے کٹر پن کا بجا طور پر ماتم کرتے ہیں لیکن ہمارے بعد تعلیم یافتہ طبقے میں جونئی کٹھ ملائیت آگئی ہے اس کا احساس کیوں نہیں؟۔ بقول رومی اس کا علم تن کے لیے ہے دل کے لیے نہیں۔ یہ سطحی علم پر اتراتا ہے، یہ جزویات کا ماہر ہے کُل سے واسطہ نہیں رکھتا ۔ اس کا مطالعہ محدود اور علم مانگے کا ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا وہی مقام ہے جو ہونا چاہئے۔ کہا جدید علوم میں انہوں نے مطلوبہ کردیا ادا کیا ہے؟ ان اداروں اور تقریباً ہندوستان کے ہر ضلعے میں مسلمانوں کے ہائی اسکولوں اور کالجوں کی خستہ حالی کے ذمہ دار کیا علماء کو قرار دیا جا سکتا ہے؟

آزادی کے ۷۷ سال گزر جانے کے باوجود ہندستان اور پاکستان کے مسلمان علوم کے معیار کے لحاظ سے مسلمہ اور معنی خیز تحقیق کے لحاظ سے، سچے دانش وروں اور مفکروں کے لحاظ سے خاصے تہی مایہ ہیں۔ ان کے خلاف تعصب بھی ضرور ہو گا مگر ان کی پس ماندگی صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان میں محنت اور لگن کی کمی ہے، علم کی پیاس ، علم کے ذریعے سے سماج کو بہتر بنانے کا جذبہ نہیں ہے۔ یہ مقابلے کے قائل نہیں تحفظات کی بیساکھی مانگتے ہیں۔ انھوں نے نئی نسل کو اس تنکے کی طرح بنا دیا ہے جو وقت کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہتا رہے ، مسلمانوں کے اس طبقے نے جو کھیتی کرتا ہے یا مزدوری کرتا ہے یا چھوٹی چھوٹی دست کاریاں چلا رہا ہے۔

ایک طبقہ شکایت کرتا ہے کہ ہر طرف نئی نئی مسجدیں تو وجود میں آرہی ہیں مگر نئے صنعتی اسکول کم کھل رہے ہیں۔ اب بھی مروجہ تعلیم کے لیے ، اداروں کی تعداد کم ہے۔ علوم میں نئے افق اور نئی فضائیں ہمیں بلارہی ہیں مگر ہم نے ابھی روایتی مروجہ علوم کا اکتساب بھی نہیں کیا۔ مگر کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ آبادی بڑھنے کی وجہ سے ہمیں مساجد کی ضرورت ہے۔ ذہن میں رہے کہ یہ مساجد غریب مزدور طبقہ اپنے وسائل سے بنارہا ہے۔ ان کی بھی ضرورت ہے ۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہجس طبقے کا یہ اعتراض ہے اس نے اس معاملے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ بات ملت کو قیادت فراہم کرنے اور راہ دکھانے کی ہے۔ قیادت سے مراد سیاسی قیادت نہیں بلکہ تخلیقی کاموں میں قیادت ہے۔

ہماری ملت کا مزاج اب تک جاگیر دارانہ ہے ۔ ہم فضول خرچی کے قائل ہیں۔ ہم میں سے بیشتر نام و نمود کے لیے یا ہم چشموں میں سرخرو ہونے کے کے لیے فضول کاموں پر روپیہ برباد کرتے ہیں۔ ہم عام رشوت ، بد عنوانی ، بداخلاقی پر بڑھ چڑھ کر اعتراض کرتے ہیں مگر اپنی اصلاح ضروری نہیں سمجھتے۔ ہم کو دو سروں کے کردار کی بڑی فکر ہے مگر اپنے کردار کی رتی برابر بھی نہیں۔ ہم نے اسلام جیسے جامع اور ہر شعبہ حیات کے لیے مشعل راہ مذہب کو صرف عقائد اور عبادات میں محصور کر لیا ہے ۔ معاملات کی کوئی پروانہیں، حالانکہ معاملات کے ذریعہ سے ہی ہم سماجی زندگی میں صالح قدروں کو عام کر سکتے ہیں۔

ہم اپنی پس ماندگی کا ڈھول پیٹتے ہیں اور تحفظات کی بیساکھی چاہتے ہیں مگر مقابلے میں آنے سے تھکتے ہیں۔ ہم اگر اپنا مفاد خطرے میں دیکھتے ہیں تو اسلام خطرے میں رہنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایک زمانے میں مغرب کے آسیب سے ڈرتے تھے اب ہندو اکثریت ہمارے سر پر آسیب کی طرح سوار ہوگئی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے اس بات پر زور نہیں دیتے کہ ہندستان میں مسلمانوں کا مستقبل ان کی اپنی تخلیقی صلاحیت، وسائل اور عقیدے اور ہم وطنوں کے ساتھ ان کے رویے پر منحصر ہے۔ انھیں سب کو باور کرانا ہے ۔

دراصل ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت اقتصادی اور سماجی تو ہے ہی مگر نفسیاتی بھی ہے ۔ وہ خوف اور عدم تحفظ کے شکار ہو گئے ہیں۔علماء اپنے محدود دائرے کی وجہ سے ان کی زیادہ سے زیادہ مدد نہیں کر سکتے اور جدید دانش ور اور مفکر جو جدید مغربی علوم سے آشنا ہیں نہ کوئی مشن رکھتے ہیں اور نہ کوئی عقیدہ ہے ۔ان کو جدید پر تو اعتماد ہے، اسلام پر نہیں، حالانکہ اسلام کا کوئی بھی سنجیدہ اورگہرا مطالعہ یہ واضح کردے گا کہ اسلام دنیا اور دین دونوں سے واسطہ رکھتا ہے، اور دنیا کی فلاح دین کی فلاح کا ذریعہ ہے، یہ ایک اخلاقی اور سماجی شعور عطا کرتا ہے، یہ انسان دوستی کی طرف لے جاتا ہے، یہ مذہب کو ایک بند نظام نہیں سمجھتا، اس میں اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا ہے، جس کے ذریعہ سے ہر منزل پر اسلام کی بنیادی تعلیم کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی اجازت ہی نہیں دعوت بھی ہے۔

آل احمد سرور نے اس حوالے سے ۱۹۸۹ کے آس پاس ” ہندوستانی مسلمان اورم محمد مجیب ایک تنقیدی جائزہ“ کے عنوان سے دوسرا محمد مجیب میموریل لیکچر دیا تھا،یوں تو پورا لیکچر پڑھنے کے قابل ہے لیکن خلاصہ کلام کے طور پر انہوں نے اخیر میں جو نکات، مسلمانوں کو کیاکرناچاہئے؟ کے تحت بیان کیے تھے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا ذکر یہاں کردیاجائے۔ یہ باتیں اگر چہ انہوں نے آج سے تیس پینتس سال قبل کہی تھی لیکن آج بھی یہ اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کچھ اہم نکات ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) اسلام اور قومیت میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہندوستانی مسلمان اسلام کے سچے پیروکار ہوتے ہوئے ہندوستانی قومیت میں دل سے شریک اور اس کا ایک قابل فخر حصہ ہوسکتے ہیں۔ اس راہ میں رکاوٹیں حسن تدبیر سے دور کی جاسکتی ہیں۔ رکاوٹوں کی ذمہ داری اکثریت اور اقلیت دونوں کی ہے مگر اقلیت کو اس معاملے میں پہل کرنی چاہئے۔

(۲) قومیت کا جارحانہ تصور اور ہندو احیا پرستی کا جذبہ ہندوستانی قومیت کے ساتھ انصاف نہیں ہے کیونکہ دراصل یہ قومیت ایک مشترکہ تہذیب کے احساس کی بنا پر ہے۔ صرف جغرافیہ اور علاقہ یا اکثریت کا مذہب ہندستانی قومیت کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔

(۳) اکثریت کے مذہب کی بنیاد پر یا اقلیت کے مذہب کی بنیاد پر سیاست جمہوریت کی روح کے منافی ، جدید دور کی ضروریات کے لیے نقصان دہ اور عالمی بساط پر اپنی جگہ بنانے کے لیے مضر ہے۔

(۴) ایک سیکولر ریاست میں اس کا امکان ہے کہ اسلام کے زریں اصول غیر مسلموں کو بھی متاثر کریں بشر طیکہ مسلمان اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ پوری قوم کا مفاد بھی سامنے رکھیں اور اس وقت دونوں میں جو خلیج ہے، اُسے پاٹنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔

(۵) ہمارے کچھ ایسے ادارے ضرور ہونے چاہئیں جو سب کے لیے کھلے ہوں ۔ اس سلسلے میں عیسائیوں اور سکھوں سے سبق لیا جا سکتا ہے۔ اس وقت ایسے صنعتی اداروں ، اسپتالوں، اقامت گا ہوں اور راحت گھروں کی زیادہ ضرورت ہے جنھیں چلانے والے مسلمان ہوں اور جو سب کے لیے ہوں۔

(۶) وفاداری ریاست سے ہوتی ہے کسی حکومت سے نہیں، قوم سے ہوتی ہے ، کسی سیاسی پارٹی سے نہیں مسلمانوں کو کسی کے سامنے وفاداری کی سند پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ملک کی صلاح و فلاح سے دلچسپی اس کا اشاریہ ہے۔

(۷) مسلمانوں کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ وہ لوگ جو جدید و قدیم دونوں پر نظر رکھتے تھے ، زیادہ ترکسی نہ کسی وجہ سے حکومت سے وابستہ ہو گئے۔ مالرو کے ڈی گول کی حکومت میں شریک ہونے پر سارتر کا یہ قول کہ دانش ور حکومت سے باہر رہ کر قوم کی زیادہ خدمت کر سکتا ہے ، کیونکہ اس طرح اس کی طرف سے حکومت کی تائید اور تنقید دونوںزیادہ معتبر ہوں گی، آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہو سکتا ہے۔

(۸)تبلیغی جماعت عقیدے اور عبادت پر جو زور دیتی ہے اس کے ساتھ ایسے معامات پر بھی پوری توجہ کرنی چاہیے ۔ اچھا مسلمان اچھا انسان بھی ہوتا ہے ۔ یہ کافی نہیں کہ عبادات پر تو توجہ ہوا ور معاملات میں اخلاقی قدروں اور سماجی قوانین کو نظر انداز کر دیا جائے۔

(۹) مسلمانوں میں جو فرقہ بندی ہے وہ اُن کے لیے مہلک ہے شیعہ سنی، یا دیوبندی بریلوی اختلافات سب کٹر پن کی وجہ سے ہیں۔ جزوی اور فروعی مسائل میں ہر اختلاف گوارا کرناچاہئے ۔اگر مسلمانوں میں جو اقلیتیں ہیں ہم ان کے ساتھ ہمدردی یا انصاف نہیں کر سکتے تو کیسے اکثریت سے ہمدردی یا انصاف کی توقع کر سکتے ہیں۔

(۱۰) قرآن کی تفسیر وتشریح اور ترجمانی کا حق سب مسلمانوں کو ہےیہ صرف علما کی جاگیر نہیں ہے ۔ ہاں بغیر قرآن اور حدیث کی واضح ہدایات کے علم کے ہر قسم کی ترجمانی گمراہ ہوگی ۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ جدید تعلیم سے بہرہ ور اشخاص کو قرآن سمجھایا جائے تاکہ وہ اس کی روح تک پہنچ سکیں۔

(۱۱) سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف پوری توجہ کرنے، سائنس کی تعلیم مذہبی مدارس تک پہنچانے ، سرکاری ملازمت کی طرف میلان کے بجائے اپنا کام شروع کرنے کا میلان زیادہ مفید ہے۔

(۱۲) جب ہم مسلم پرسنل لا پر اصرار کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ آج بھی اس کے مقابلے میں کچھ مسلمان رواجی قانون کی آڑ لیتے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان خود اپنے علما اور دانشوروں کی مدد سے وقتاً فوقتاً مسلم پرسنل لا پر غور کرتے رہیں اور اگر وہ اس بات پر متفق ہوں کہ چند معاملات میں اجتہاد کی ضرورت ہے تو اس اجتہاد کو نافذ کرانے کی کوشش کریں۔

(۱۳) مسلم مورخوں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی لکھی ہوئی یک رخی تاریخوں پر اعتراض کرنے کو کافی نہ سمجھیں بلکہ علی گڑھ اور جامعہ اور کشمیر یونی ورسٹی کے اشتراک سے ہندستان میں اسلام کو صحیح تناظر میں پیش کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اخیر میں بس یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود اپنا جائزہ لیں ،جب تک مرض کی تشخیص نہیں ہوگی ، علاج نہیں ہوگا۔ ہم اپنی اہمیت کو سمجھیں ، ہمارے پاس مساجد و مدارس اور اوقاف کی شکل میں جو اثاثے ہیں اس کا فائدہ اٹھائیں اور مل جل کر کام کا آغاز کریں تو یقینا حالات بدلیں گے اور نفرت و عداوت کا بازار سرد پڑے گا۔ لوگ چین کی سانس لیں گے اور ہمیں بھی اطمنان نصیب ہوگا کہ محمد کے امتی کا یہی تقاضہ تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply