انسانوں کو انسانوں کے
زہر سے آلودہ ہونے پر
جسم نیلے نہیں ہوتے
میلے نہیں ہوتے
موت نہیں ہوتی
ایک دن میں کچھ نہیں ہوتا
یہ بھی معلوم نہیں ہوتا
کس نے کاٹا ہے
کب دانت گاڑے ہیں
اور کیوں
انسانوں کو انسانوں کے زہر سے مرنے میں
قاتل کا پتہ نہیں لگتا
اور دیر سے لگتا ہے
بات صرف چند لمحوں پہلے تک نہیں ہوتی
زہر کی سرایت صدیاں لیتی ہے
لکیر پیٹتے ہوئے ممکن ہے
لاٹھی ٹوٹ بھی جائے
تو بھی
زہریلے دانت کس کے تھے
معلوم نہیں ہو پاتا
ممکن ہے کہ
دانت گاڑنے والا بہت پہلے پیدا ہوا ہو
انسانوں کو انسانوں کے زہر سے آلودگی کی تاریخ بہت پرانی ہو
واقعہ قدیم ہوتا ہے مگر
موت عصر حاضر میں ۔
انسانوں کا زہر کوئی گولی تو نہیں جس کی چلاتے ہوئے
شناخت ہوسکے
سانپوں سے بہت مختلف ہوتا ہے
انسانوں کے زہر کا معاملہ
پانی مانگ مانگ کر زندگی گزرتی ہے
معمہ حل کرتے کرتے
کھوج کے بعد مجرم کوئی دوسرا ہی نکلتا ہے
ڈسنے والا۔۔۔۔۔۔
ڈسے ہوئے انسانو !
اپنے تریاق خود نکالو
اپنے اپنے دانت
دانتوں کے نشان پر گاڑ کر
زہر چوس کر
تھوک دو
شاید یہی اک علاج ہے
یا کوئی ویکسین
ڈسنے والو ں سے
پناہ گاہ
2025 کی امید
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں