کپتان ، گلے کی ہڈی/گل بخشالوی

افریقی قائد نیلسن منڈیلہ کے بعد عمران خان دنیا کا وہ دوسرا بڑا لیڈر ہے جو خود تو جیل میں ہے لیکن نا  صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دوسرے مذاہب و اقوام کے لوگ یہاں تک کہ پاکستان کے ازلی دشمن ملک بھارت میں بھی اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے گیت گائے جا رہے ہیں ،عمران خان کی مقبولیت آج بام ِعروج پر ہے۔

سنہ 2002ء  میں عمران کو اپنے آبائی حلقے میانوالی سے پہلی کامیابی حاصل ہوئی تھی جو پاکستان تحریک انصاف کی پہلی انتخابی کامیابی تھی۔

تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی عمل میں جو ہوا، عمران خان نے اسے دل پر نہیں لیا تھا، اس لئے کہ عمران خان عزم اور استقلال کا دوسرا نام ہے وہ کبھی بھی کسی بھی موڑ پر شکست تسلیم نہیں کرتے ، عمران خان کی مقبولیت کی ابتدا ئی جھلک 30 اکتوبر 2011ء کو مینار پاکستان کے جلسہ عام میں دنیا نے دیکھی تھی۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء  کے الیکشن میں تحریکِ انصاف قومی سیاست میں تیسری قوت بن کر سامنے آئی اور 2013ء  کے الیکشن میں تحریک  ِ انصاف کو پہلی بڑی انتخابی کامیابی ملی اور خیبر پختو ن خوا  میں جماعت اسلامی سے اتحاد کر کے حکو مت بنائی ،قوم کی حوصلہ افزائی سے عمران خان کو حوصلہ ملا تو پھر عمران خان نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت  حاصل کرکے  قومی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عوامی   مقبولیت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ،جو آج تک نا  صرف بر قرار ہے بلکہ تخت اسلام آباد کے ہر ظلم و جبر کے باوجود مقبولیت میں روز برو ز اضافہ ہو رہا ہے۔ پا کستان کی غیر آئینی حکومت باوجود ہر ظلم و جبر کے عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے لانے میں ناکام ہے۔

ممتاز کالم نگار مظہر برلاس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں تحریک ِ انصاف کو پہلے کی نسبت زیادہ نشستیں ملیں، تاہم اب بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن تخت ِ اسلام آباد کیلئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے کردار ادا کیا اور یہی عمران کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی ۔اس غلطی کی  پاداش میں عمران خان جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا احسان چکانے میں لگ گئے۔

جب عمران خان کے جنرل باجوہ سے اختلاف بڑ ھ گئے تو وہ کردار جو انہوں نے عمران کی حکومت بنانے میں ادا کیا تھا و  ہی کردار عمران خان کی حکومت گرانے میں ادا کیا، اس طرح عمران خان جنرل باجوہ ا ور جنرل فیض حمید کے درمیان پھنس کر رہ گئے۔

رجیم چینج کے بعد عمران خان کو مقام مقبولیت سے گرانے کے لئے تحریکِ انصاف کی قیادت ، پارٹی رہنماؤں اور عمران خان کی سوچ کا ساتھ دینے وا لی عوا م پر ظلم وجبر کی داستان لکھنے والے تخت اسلام آباد اور ان کے سہولت کاروں نے جو ظلم کیا اس سے وہ تحریک ِ انصاف کے انصافیوں کو ڈرانے  اور دبانے میں تو ناکام رہے البتہ عمران خان کی مقبولیت کو بلندیوں کی  معراج پر پہنچا دیا۔

آج عمران خان   تخت ِ اسلام آباد کی غیر آئینی حکومت ، دو بڑی سیاسی جماعتوں ان کے درباریوں اور سہولت کاروں کے گلے میں پھنسی وہ ہڈی ہیں جو نہ تو وہ نگل سکتے ہیں اور نہ اُگل سکتے ہیں ۔دینا جانتی ہے کہ عمران خان دریا میں بہتا ہو ا وہ کالا کمبل ہے جسے پکڑنے والے چھو ڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل انہیں نہیں چھوڑ رہا ہے ، جیل میں بیٹھا ہوا پاکستان کا کپتان کہہ رہا ہے ، میں اس وقت تک جیل میں رہوں گا جب تک آخری سیاسی قیدی رہا نہیں ہو جاتا اور یہ ہی قومی لیڈر کی پہچان ہوا کرتی ہے۔

julia rana solicitors

پاکستان تحریک ِ انصاف کے قائد عمران خان نے کہا تھا کہ غیر آئینی حکومت بے اختیار ہے ،اس لئے ان سے مذاکرات کا کو ئی فائدہ نہیں، ہم افواج پاکستان کے ساتھ بیٹھ کر قومی مفاد میں بات کرنے کو تیا ہیں۔ عمران خان کے اس موقف پر درباری حکومت نے عمران خان کا مذاق اُڑایا تھا ۔ اس لئے تحریکِ انصاف نے حکومت اور ان کے اختیار کو بے نقاب کرنے اور انہیں آئینہ دکھانے کے لئے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دی اور مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد فارم 47 حکومت کے ترجمان مسلم لیگ ن کے امیر مقام کہہ رہے ہیں ، بانی پی ٹی آئی کے مطالبات پر فیصلہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے بس میں نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم تو غلاموں کے غلام ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply