مہران کے ساتھ ساتھ/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

سندھ دھرتی کے بارے میں کیا لکھوں۔۔۔؟

سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے پھر یہاں تو اس خطے کا ذکر ہے جس کی ثقافت اتنی زرخیز ہے کہ لکھنے پہ آئیں تو کئی قلم سوکھ جائیں اور کئی کتب بھر جائیں۔
اس بار کی یاترہ سندھو ندی کے مغربی کناروں پر تھی جو اپنی قدامت اور پرانی تہذیبوں کی باقیات کے حوالے سے مشہور ہیں، کیا سفر تھا، مزہ آ گیا۔
سندھ کو عموماً ایک پسماندہ، غریب، کم مایہ اور کم تعلیم یافتہ خطہ سمجھا جاتا ہے۔
ہو گا، آپ کے لیئے سندھ ایسا ہی ہو گا شاید۔۔۔۔۔۔
لیکن جو سندھ میں نے دیکھا ہے وہ رنگین ہے، اس میں سات رنگوں کا اِندردھنوش ہے۔
وہ انتہائی دلکس ہے، بالکل کسی چھوٹے بچے کی مسکراہٹ جیسا۔
وہ اتنا میٹھا ہے جیسے بانسری کی کوئی مدھُر سی دُھن۔
وہ سندھ جفا کشوں اور پُر خلوص لوگوں کا وطن ہے۔
وہ سندھ با شعور اور وسیع ذہنوں کے مالک لوگوں کا ہے۔
یہ سندھ دیکھا ہے میں نے۔۔۔۔۔

سکھر جو سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے، میری پہلی منزل تھا۔
یہ شہر بالکل نیا نہیں ہے میرے لیئے۔ اس کی ہر تاریخی عمارت سے واقف ہوں میں لیکن اس بار بکھر کا پرانا قلعہ ایک ایسی نئی جگہ تھی جہاں میرے قدم پہنچے۔ سندھو دریا پر بِچھے لینس ڈاؤن اور کمانی پُل کے ساتھ میرا تعلق وہی ہے جو سوہنی کا چناب کے ساتھ تھا۔ یہ میرا محبوب ہے اور ہمیشہ مجھے اپنی جانب کھینچتا ہے۔
سادھو بیلہ کے گھاٹ ہوں یا ستین جو آستان کا چبوترہ، معصوم شاہ کے تنگ مینارے کی چوٹی ہو یا لائیڈ بیراج اور گھنٹہ گھر، روہڑی کے اس جڑواں شہر میں ایک بجلی سی بھری رہتی ہے۔

  • سکھر کے بعد جانا ہوا گڑھی خدا بخش جہاں پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی خاندان محو استراحت ہے۔ ایک خالص سیاح کی نظر سے دیکھوں تو بھٹو خاندان کا یہ مقبرہ انتہائی خوبصورت اور جاذبِ نظر ہے جو اپنے پیچھے علاقے کی گندی گلیوں اور کچے گھروں کو کامیابی سے چھپائے ایسی شان سے کھڑا ہے جس شان سے بھٹو صاحب، اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر کھڑے تھے۔
    اِسی مقبرے کے پہلو میں شہر کا وہ ریلوے اسٹیشن بھی ہے جہاں سے صرف دو گاڑیاں گزرتی ہیں۔
    گڑھی خدا بخش سے دو راستے نکلتے ہیں ایک وادئ سندھ کی قدیم تہذیب کے نمائندہ شہر موہنجو دڑو کو جاتا ہے جبکہ دوسرا لاڑکانہ کو۔ ہم پہلے پر گامزن ہوئے۔

    Exif_JPEG_420

    موہنجو دڑو، یوں تو قدیم مصر کا ہم عصر تھا لیکن کئی معاملوں میں اس سے آگے رہا۔ اس کے بارے جتنا سوچا تھا اس سے زیادہ صاف ستھرا اور بہتر پایا۔ اپنی قدیم ترین پکی گلیوں، نالیوں، اناج گھروں اور حمام کے ساتھ یہ شہر تو وہیں موجود تھا لیکن نجانے اس کے باشندے اب کہاں ہوں گے۔َ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
    کیا پاس بہتا اباسین بھی یہی سوچتا ہو گا جو اس وقت ایک ٹیلے پر بیٹھ کر میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
    یہاں کا عجائب گھر دیکھ کے نکلے اور لاڑکانہ پہنچے۔
    یہ شہر تیر کا سیاسی گڑھ ہے جہاں کے لوگ بھی تیر کے مانند سیدھے ہیں۔ یہاں جا بجا بے نظیر بھٹو کے مجسمے و تصاویر ملتی ہیں۔ شہر کیا ہے ادب کا ایک جہاں ہے جو آرٹس کونسل کی ثقافتی رنگینیوں سے شروع ہوتا ہے اور سر شاہ نواز بھٹو میموریل لائبریری کے دالانوں تک چلا جاتا ہے۔ یہ خوبصور ت و وسیع کتب خانہ نئے سندھ کی روشن خیالی کا عکاس ہے۔
    لاڑکانہ کو خدا حافظ کہہ کر نکلے تو اگلی منزل بالکل ایک سنسان بیابان میں تھی جس کا راستہ خیر پور ناتھن شاہ سے نکلتا ہے۔ یہ میاں نصیر محمد کلہوڑو اور ان کے خاندان کے مقبرے ہیں جو سیلاب سے متاثرہ اس علاقے میں شان سے کھڑے ہیں۔ کوئی چالیس پچاس مقبرے ایک ویرانے میں کسی سیاح کو مل جائیں تو وہ تو پاگل ہو جائے گا۔۔۔۔۔ ہم بھی ہو ہی گئے تھے۔
    یہاں سے نکلے تو انڈس ہائی وے کے پاس واقع ایک قصبے، بہاولپور جا پہنچے۔
    ہو سکتا ہے کہ عباسی نوابوں سے روٹھ کے کوئی نواب یہاں آن پہنچا ہو اور دل کے بہلانے کو اپنا چھوٹا سا بہاول پور بسا لیا ہو۔۔۔۔
    یہاں حسن سمو کے لاڈلے بیٹے اور صوفی بزرگ مخدوم بلاول رح کا مزار ہے جہاں ہر ماہ کے پہلے جمعے ”ماہ پیر جمعو” لگتا ہے۔ مزار کے ساتھ ہی مخدوم صاحب کی تعمیر کردہ قدیم و خوبصورت مسجد واقع ہے جس کے کئی سفید گنبدوں کے بیچ میں ڈوبتا سورج، کسی پینٹر کی حسین پینٹنگ معلوم ہوتا ہے۔
    اگلی منزل خدا کا خدا آباد تھا جہاں کی حسین ترین جامع مسجد پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اب ہمیں اندھیرے میں یہ مسجد دیکھنا تھی، مگر اندر روشنی خوب تھی اور ایک مسجد کا بوڑھا خادم بھی تھا جو بے قراری سے یہاں وہاں پھر رہا تھا، مانو ہم نے اس کی اور خدا کی ملاقات میں خلل ڈال دیا ہو۔ مجھے اس پہ بہت پیار آیا۔

اُس روز کی آخری منزل سندھ کے شہنشاہ کا آستان تھا۔ سیوستان کا آستان۔
سہون شریف کی شہرت کے کئی حوالے ہو سکتے ہیں جیسے دھمال، نوبت، ساز، سر، قلندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ان سب کا ماخذ ایک ہے عثمان مروندی۔
افغانستان کے مروند (اب میوند) میں پیدا ہو کر سندھ کے سہون میں دفن ہونے کے بیچ امام جرفر صادق رض کے اس لاڈلے نے محبوب کو راضی کرنے کے لیئے جو جو کیا اسی نے عثمان مروندی کو لعل شہباز قلندر بنایا۔
یاقوتی رنگ کا خرقہ پہننے والے ”لعل” نے مذہبی رواداری کا ایسا زبردست پیغام پہنچایا کے کیا ہندو اور کیا مسلمان، سب آپ کے عقیدت مند بن گئے۔
ہم نے بھی کچھ فیض حاصل کیا اور اپنے حجرے میں جا سوئے۔
اگلی صبح سہون سے نکلے اور ہجرتی رندوں کے سب سے بڑے مسکن پہ جا پہنچے۔ سہون کے کچھ جنوب میں ایک ذیلی سڑک نکلتی ہے جس پہ چلتے جائیں تو پاکستان کی سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل، منچھر آپ کے سامنے اپنی پیاس کا ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے کہ خشک ہوتی اس جھیل کو بھی قلندر کے مزار پہ جا کے دھمال ڈالنا پڑے گا، تب جا کے شاید کچھ بنے۔
انڈس ہائی وے پر ایک شہر لکی شاہ صدر کے نام سے بھی ہے جہاں ایک چشمے کے ساتھ ساتھ صوفی بزرگ اور اسلامی سکالر، شاہ صدر الدین لکیاری کا سنہرے گنبد والا خوبصورت مزار ہے۔ اس مزار میں آج کل تزئین و آرائش سمیت سہرے بنانے کا کام جای تھا، شاہ جی کا عرس جو قریب ہے۔
اس کے بعد ہم پہنچے آؐمری، جو بظاہر تو ایک عام سا گاؤں ہے لیکن ہزاروں سال کی تاریخ کا نگہبان ہے۔ وادئ سندھ کی تہذیب کا یہ شہر موہنجو دڑو سے بھی قدیم مانا جاتا ہے۔ یہاں دو بڑے ٹیلے ہیں جن کی اوپری سطح پہ اب بھی کئی ٹوٹے ہوئے برتن اور مٹی کی اشیاء دیکھی جا سکتی ہیں۔
آؐمری کو سلام کر کے نکلے تو ہماری اگلی منزل تھی رانی کوٹ۔
جی ایم سید کے گاؤں سَن سے ایک سڑک رانی کوٹ تک چلی جاتی ہے۔ یہ قلعہ کیا ہے طاقت، جبر اور بادشاہت کی ایک پُختہ اور اونچی دیوار ہے جو کیرتھر کے چٹیل پہاڑوں سے لپٹی ہوئی ہے۔ تبھی اسے دیوارِ سندھ کہا جاتا ہے۔ اس کی برجیاں آج بھی اس شان سے کھڑی ہیں مانو کئی لوگوں کا خون پی چکی ہوں۔ 32 کلومیٹر زمین کو گھیرے ہوئے اس عظیم الشان قلعے کو تعمیر کرانے والا تاریخ میں ایسے گُم ہے جیسے تابوت سکینہ۔ میر شیر محمد تالپور کے دور میں یہ منظرِ عام پر آیا اور اس کے بھاگ جاگے۔ اس کے کئی دروازے ہوا کرتے تھے لیکن اب تو چند ایک ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ رانی کوٹ کے آگے ایک اور چھوٹا قلعہ میری واقع ہے، جو اسی کا ذیلی حصہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رانی کوٹ میں شاماں پئے گیاں تو ہم نے واپسی کا قصد کیا۔
سندھو کو جامشورو سے پار کیا اور اس شیر دریا پہ بنے آخری بیراج، کوٹری کو ہاتھ ہلا کے سندھ کے دل حیدرآباد میں جا پہنچے۔ یہاں سے مابدولت نے واپسی کی اور لوٹ کے بدھو گھر کو آ گئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply