پیٹر جیسن/شاہین کمال

یہ 2009 نومبر کی سرد ترین دھند میں لپٹی شام تھی جب میری منیجر نے کہا کہ ،شاہین تمہارے لیے فون ہے۔

او۔کے، شکریہ ۔
ہیلو! جی بیٹا الحمداللہ سب خیریت؟
لائین پر میرا بھانجا تھا۔
لالا 2009 کا ماڈل ہے 30000 کلومیٹر چلی ہوئی، سولہ ہزار مانگ رہا ہے۔
ارے بیٹا تم مناسب سمجھتے ہو تو سودا کر لو ،ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ جانتے تو ہو بچے کہ گاڑی کے متعلق میری معلومات فقط اتنی ہی ہے جتنی روجر فیڈر کی گلی ڈنڈا کے متعلق ۔ تم مطمئن ہو تو ڈیل فائنل کر دو۔
ٹھیک ہے لالا پھر ہم سودا ڈن کر دیتے ہیں ۔
او۔کے میری جان، اللہ حافظ ۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ اس سال کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی اور ہم لوگ، یعنی ہم اور تینوں بچیاں اور دو عدد بلے، برینٹ وڈ کے اپارٹمنٹ کے چودھویں فلور سے اتر کر دوبارہ خاک نشین ہو گئے تھے، یعنی رینچ لینڈ کہ ایک کونڈو میں منتقل ہو چکے تھے. یہ بہت ہی مناسب اور سہولیات سے مزین جگہ تھی اور سب سے بڑی بات کہ بجائے فلیٹ، گھر تھا ۔ ہم لوگ فلیٹ کے عادی نہیں تھے اور چودھویں منزل پر دو بیڈروم کا مختصر فلیٹ نہایت ناکافی بھی۔ ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں سو باوجود مختصر ہونے کہ اس فلیٹ کی سب سے بڑی خوبی کہ یہ یونیورسٹی سے فقط بیس منٹ کی واک پر تھا. ایمن اور سعدیہ کی اسکول کی بس بھی ان کو اپارٹمنٹ کے دروازے ہی سے پک کرتی اور سونے پہ سہاگہ کہ میری نوکری پڑوس کی بلڈنگ میں سو کسی بھی قسم کی سواری کا ٹنٹا ہی نہ تھا۔ مسئلہ صرف ایک کہ ہم خود اپنی تلون مزاجی سے تنگ ہیں ۔گویا
دل مجھ سے تنگ اور میں دل سے تنگ

گو کہ فلیٹ موجودہ صورت حال میں آئیڈیل مقام مگر… مگر یونیورسٹی اور سرکلر ٹرین اسٹیشن کی قربت کے باعث مہنگا بھی. سچی بات کہ پچھلے تین سالوں سے فضا میں معلق رہ رہ کر ہم سب ہی تنگ آ چکے تھے ۔ جیسے ہی ہم لوگوں کو یہ گھر ملا تو سب کی رائے یہی ہوئی کہ نہیں بھئ اب بس ہو گئ ہے سو اب فلیٹ چھوڑ دینا چاہیے ۔ اس وقت تک تیسری بیٹی بھی یونیورسٹی میں آچکی تھی ۔ نئے گھر سے تین منٹ کی واک پر بس اسٹینڈ تھا اور بس سے یونیورسٹی پہچنے میں بیس سے پچیس منٹ لگتے ۔ اتنا ہی وقت ہمیں بھی اپنے کام تک پہچنے میں لگتا ۔ لہذا سب کی متفقہ رائے سے ہم لوگ ستمبر 2009 کو رینچ لینڈ منتقل ہو گئے ۔
خوشی کا عالم نہ پوچھیں، زمین زادیاں پھر زمین پر تھیں ۔ ہم اس لیے خوش کہ کچن وسع تھا اور بیک اور فرنٹ یارڈ بھی۔ اس نئے گھر میں کچھ کچھ کراچی کے گھر کی بو باس بھی آتی تھی ۔ یعنی کچھ کچھ دل کی رفو گری کا سامان بہم تھا۔ اس نئے گھر میں آ کر سب زیادہ خوش بلے تھے، غریبوں کو عرصے بعد کھل کر دوڑنے بھاگنے کی آزادی میسر آئی تھی. میابی کی خوشی دیدنی تھی ۔ اسی محاورے مطابق جس میں بلی اور چھینکے کا ذکر ہے۔

پھر قدرت کی کرنی ایسی ہوئی کہ موسم نے کروٹ لی اور ایسی لی کہ لگا بیل نے سینگ ہی بدل لی۔ ایسی سردی، ایسی سردی کہ کہ الاماں الاماں. کیلگری بیچارا ویسے ہی سردی کے معاملے میں بدنامِ زمانہ، سو لگتا ہے کہ اُس سال اس نے بھی یہ الزام دل پر لے لیا کہ ٹھیک ہے باسیو !! ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی۔
نومبر میں جو سرد ترین اسپل آیا تو نہ پوچھیں کہ ہم مثبت 40 والوں نے منفی 40 سنٹی گریڈ کا سفر کیسے طے کیا ۔ ایسا ہی ایک سرد ترین دن تھا اور ہم بس کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑے تھے اور بس تھی کہ نہ کل آتی ہے اور نہ ہی آج ۔ کسی بدگماں محبوب کی طرح ناراض و برہم۔ آخر پیتالیس منٹ کے شدید انتظار کے بعد جب میرے ہونٹ نیلے، ناک سرے سے غائب اور ہاتھوں اور پیروں کی موجودگی کا احساس تک جاتا رہا تو ہم نے گرتے پڑتے گھر آنے ہی میں عافیت جانی کہ جان ہے تو جہان ہے. اس دن سوچا کہ نہیں بھئ بچت کی خیر ہے پر اب جیسے بھی بن پڑے گاڑی لے ہی لی جائے ۔
بازار میں گاڑیاں تو ہر ماڈل اور حلیے کی موجود مگر میرا مسئلہ یہ تھا اور ہے کہ گاڑی کے معاملے میں میری معلومات فقط اتنی ہے کہ اس میں چار پہیے اور ایک عدد اسٹرینگ ویل ہے اور ایک جاندار پرزہ جو کراچی میں بہت با اختیار پر یہاں کیلگری میں بلکل بے اختار یعنی ہارن ہوتا ہے ۔ میری خواہش تھی کہ گاڑی، گاڑی ہی ہو بلیلہ نہ ہو۔ سو تلاش کا اختیار بھانجے کو سونپا اور نشچینت ہو کر بیٹھ گئے ۔ اب بھانجے کا طرہ امتیاز یہ کہ آپ نے کوئی کام اُس کے حوالے کر دیا تو پھر آرام سے بیک سیٹ لے لیجئے ۔ نہ یاد دہانی کی ٹینشن نہ ہی بھولنے کا دھڑکہ ۔ وہ لڑکا الادین کے چراغ کے جن کی طرح مستعد و متحرک ۔ سو اسی دن شام میں سات بجے چمچمامتی ہوئی ٹویوٹا 2009، میرے دروازے پر کھڑی تھی ۔ الحمداللہ، احسان اس رب کریم کا جس نے بےکار کو صاحب کار کیا ۔ پھر دوسرے دن انشورنس وغیرہ کی فارمیلٹی سے فارغ ہوکر صاحبِ کار ہونے کی سرخوشی سے لذت کشید کی.
کار کے سبب میرا کام پہ جانا آسان ہوا اور بچیوں کو واپسی پر یونیورسٹی سے پک کرنے میں سہولت ہوئی ۔ غرض اللہ تعالی نے زندگی بہت آسان کردی۔ الحمد للہ. گو یہاں نقل و حمل کی سہولت بہت اعلیٰ مگر اس میں وقت زیادہ لگ جاتا ہے. خراب موسم میں بسیں قدرے ناقابلِ اعتبار بھی البتہ سرکلر ٹرین زندہ باد. چاہے آندھی آئے رے، چاہے طوفاں آئے آئے رے،
یہ منزل پر پہنچا کر ہی دم لے گی.
گاڑی کے سبب اب ذرا تفریح کا عنصر بھی ہم لوگوں کی زندگیوں میں در آیا ورنہ ان پچھلے ڈھائی تین سالوں سے ہم لوگ تھے اور چکی کی مشقت تھی. ان دنوں لگتا تھا اس بیس کروڑ(پاکستانی )کی عوام میں صرف ہم ہی لوگ قائداعظم کے پیروکار اور متعقد رہ گئے ہیں یعنی کام کام اور صرف کام!!
اپنی جڑوں سے اکھڑ کر بلکل نئی جگہ، مختلف آب و ہوا اور یکسر اجنبی ماحول میں پنپنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ کتنی ہی دفعہ آپ کا فزیکل اور ایمونشنل بریک ڈائون ہوتا ہے۔ انجانے دیس میں اپنا آپ منوانے کے چکر میں آپ کا دن چوبیس نہیں بلکہ تیس گھنٹوں کا ہو جاتا ہے۔ خیر یہ ایک الگ جہد مسلسل کی کہانی ہے۔ اس کو فلحال رہنے ہی دیتے ہیں ۔

اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ 2010 میں کیلگری میں ژالہ باری ہوئی اور ایسی ہوئی کہ پچھلے ڈیڑھ سو سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔ یہ آفت اہسی عدیم المثال تباہی لائی کہ گاڑیوں کے انشورنس پالیسی کا قانون ہی بدل گیا۔ گورا بڑا سیانا، ہمشہ اپنے ہاتھ پیر بچا کر چلتا ہے ۔ اس آسمانی آفت میں میری خوب صورت گولڈن ٹویوٹا کی باڈی بری طرح متاثر ہوئی، یعنی دل کے ارماں آنسوؤں میں بہ گئے ۔ اتنی چاہت اور تمنا سے خریدی گئی گاڑی ژالہ باری سے بری طرح مضروب ہوئی ۔
خیر رب کریم بہت مہربان ہے اور گاڑی ابھی اپنی مدت وارنٹی ہی میں تھی۔ ٹویوٹا والوں سے رجوع کیا، انہوں نے دن مقرر کے کے آنے کا وقت دے دیا کہ گاڑی لیکر فلاں فلاں ورک شاپ پر آ جائیں گاڑی کی assessment کے لیے. اسیسمنٹ کے بعد جو رپورٹ موصول ہوئی وہ یہ تھی کہ یا تو مرمت کے لیے دس ہزار ڈالر لے لیجیے یا گاڑی واپس کمپنی کو دے کر سولہ ہزار ڈالر لے لیجیے ۔ کمپنی گاڑی کو اسکرپ کر دے گی۔ ہائے ! اسکرپ (scrape ) کے خیال سے ہی دل پر گھونسا لگا۔ میری ایک مصیبت یہ بھی کہ ہم بےجان چیزوں سے بھی بہت اٹیچڈ ہو جاتے ہیں ۔ اتنی لاڈلی گاڑی کے اسکرپ ہونے کا تصور ہی پریشان کن تھا۔
خیر گھر میں رائے مشورہ ہوا ،تو متفقہ فیصلہ یہی تھا کہ پوری قیمت مل رہی ہے تو گاڑی کمپنی کو دے کر سولہ ہزار ڈالر لے لیا جائے کیونکہ انشورنس والے ژالہ باری سے متاثر شق کو پالیسی سے خارج کر رہے تھے ۔بڑے بھاری دل سے ہم نے اس فیصلے کو قبول کیا اور دوسرے دن فجر کی نماز کے بعد گاڑی پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا، اس سے اپنی سنگ دلی کی معافی چاہی۔ جیسے ہر بقرعید کی صبح میرے اپنے قربانی کے جانوروں سے معاملہ ہوتا تھا۔ ان کو پیار کرتے تھے اور پانی پلا کر چارہ اپنے ہاتھوں سے کھلاتے تھے ۔ دکھے دل سے گاڑی کو سنٹر جا کر چھوڑ دیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر سولہ ہزار ڈالر کا چیک بذریعہ ڈاک گھر پہنچ گیا. یوں یہ باب اختتام پذیر ہوا۔

نئے سرے سے گاڑی کی تلاش شروع ہوئی یعنی اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو! میری بے بسی اور اناڑی پن کو دیکھتے ہوئے ایک جانے والے نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ یہ ایک انڈین لڑکا تھا وقاص اور اس سے staple میں ملاقات ہوئی تھی ۔یہاں ایم۔ ایس کرنے آیا تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسٹپل میں پارٹ ٹائم نوکری بھی کرتا تھا، وہی امیگرنٹ والی مشقتوں بھری کہانی ۔ خیر جب دوسری گاڑی کی تلاش شروع ہوئی تو دل میرا ہنڈا پر آیا پر وہ مغرور حسینہ میری جیب کی اسطاعت سے باہر۔ کرولا نے دل کو اپنی اور کھینچا کہ میرے پاس کراچی میں کرولا ہی تھی اور دل اس کی کارکردگی کا شاہد بھی ۔ چلتے چلتے ایک کانی نظر مزدا پر بھی ڈالی کہ اس کا پک اپ بہت زبردست تھا. اس کا زوم زوم والا اشتہار بھی دل کو بھرماتا مگر تھا بہت جوانوں والا سو عافیت اسی میں جانی کہ مزدا سے نظریں چرا لی جائیں.
اس دوران وقاص میاں نے میری ضرورتوں اور جیب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی ریسرچ کا خلاصہ میرے سامنے رکھا اور کہا آنٹی آپ کے لیے نسیان کی ” سینٹرا” بہتر رہے گی کیونکہ اس میں tyres traction بھی ہے جو یہاں کے موسم کے لحاظ سے بہت اہم فیچر بھی۔ بالکے کا مشورہ میرے جی کو لگا سو نیسان کے شو روم جانے کا شبھ مورت سنیچر کو طے ہوا کہ اس دن ہم دونوں ہی کی چھٹی ہوتی تھی.

سنیچر کو چاشت کے وقت گاڑی کی نیت سے نماز حاجت پڑھ ہی رہے تھے کہ بیٹی نے خبر دی کہ امی وقاص آ گئے ہیں، اس لڑکے کی خوبی یہ بھی کہ اپنی ٹانگوں پر سفر کرنے کے ساتھ ساتھ گھڑی کے کانٹے کے ساتھ بھی نتھی رہتا ہے۔ جلدی سے باہر نکلے ہی تھے کہ اوپر بالکونی سے سر نکال کر چھوٹی نورِ نظر نے فرمائش کی کہ امی پلیز کونہ بین رنگ ہی لیجئے گا۔ لو اور سنو یک شد نہ دو شد۔
چھوٹی کا مزے کا قصہ بھی سن لیجیے. کراچی میں گاڑی خریدنے ٹویوٹا کے شو روم جا رہے تھے کہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی چھٹکی نے آگے سرک کر میرے کانوں میں سرگوشی کی، امی! ہر رنگ کی گاڑی لیجیے گا تاکہ میں اپنے فراک سے میچ کر کے گاڑی میں بیٹھوں.
اللہ اکبر!!!
بوٹی کے لیے بکرا تو سب نے سنا ہو گا مگر میری چھٹکی کی میچنگ کا لیول ہی الگ. ہم سب ہنستے ہنستے دہرے ہو گئے تھے کہ گنی بوٹی ناپا شوربہ اس پہ ان کی فرمائش. دراصل ان دنوں رنگ برنگی santro سے بازار سر پلس تھا.

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر بھئ دھڑکتے دل کے ساتھ نیسان کے شو روم پہنچے ۔ آخاہ! چمکتی دمکتی رنگ برنگی گاڑیاں دل کو بے طرح لبھاتی تھیں ۔ اتنے میں ایک طویل قامت، نہایت سجل اور شستہ خدوخال کا خوش رفتار شخص ہم دونوں کی طرف متوجہ ہوا ۔ نکھری ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ وقاص سے ہاتھ ملایا اور پھر میری طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
او نو! یہاں مغرب میں یہ مرحلہ بڑا سخت ہوتا ہے۔ ہم نے جلدی سے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر کو ہلکا سا خم کیا ۔ اس غریب نے تھوڑا سا سٹپٹاتے ہوئے ہم لوگوں کی رہنمائی اپنے کیبن کی طرف کی۔ ہم دونوں کے بیٹھتے ہی اس نے دو کپ شبِ دیجور جیسی کافی ہمارے آگے رکھ دی اور ساتھ ہی شگر کیوبز بھی ۔ یہاں رہتے بستے عرصہ ہو گیا مگر ہمیں بلیک کافی کی عادت نہ ہوئی ۔ خیر بندہ مرتا کیا نہ کرتا، اس کا دل رکھنے کی خاطر ایک کیوب شگر کا ڈال کر پہلا گھونٹ بھرا۔ اللہ! دل ،جگر، گردہ اور معدہ سب کڑوا ہو گیا۔ اس خوش رو نے اپنا تعارف “پیٹر جیسن” کہ کر کروایا اور ہماری خواہشات کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوا ۔
وقاص نے سینٹرا میں دلچسپی ظاہر کی اور کہا کہ گاڑی کیش پر لینی ہے۔ یہ سن کر برخوردار پیٹر کی آنکھوں کی پتلیاں کچھ پھیل سی گئیں اور وہ مزید تندہی سے کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ہم نے دبی زبان میں کونہ بین کی خواہش کا اظہار کر دیا کہ بھئ لاڈلی بیٹی کی خواہش تھی۔ اس پر برخوردار پیٹر نے مسکراتے ہوے بتایا کہ ہاں یہ اس سال کا ہوٹ کلر ہے اور فلحال اوٹ اف اسٹاک بھی۔
لیجیے ! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے. خاصی دیر تک کمپیوٹر کے بٹنوں سے کھیلنے کے بعد سر اٹھایا اور خوشخبری دی کہ اسٹاک میں دو سینٹرا موجود ہے اور قیمت ہے فقط تئیس ہزار ۔
کیا!!! ہم نے چشم تصور سے دوبارہ اپنے آپ کو واپس بس اسٹاپ پر پایا. ہم نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور کہا میاں برخوردار میرے پاس تو صرف سولہ ہزار ہی ہیں، اس میں کوئی گاڑی آ سکتی ہے تو بتاو۔ اس نے ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو، گھر میں نہیں دانے بڑی بی چلیں بھنانے ۔ اس نے تھوڑی دیر غور سے میری طرف دیکھا، ہم نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر سرخ ہیں ۔ دل میں خیال گزرا کہ
یا اللہ!! یہ کہیں آشوبِ چشم کا مارا تو نہیں. میری وہی ازلی پرسنل ہونے کی عادت،( جس سے ہم خود اور چاروں بچیاں نالاں رہتی ہیں )جیسن سے پوچھ لیا کہ تمھاری آنکھیں اتنی لال کیوں ہیں؟
تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟
ایسا لگا جیسے کسی زخم کو نشتر لگ گیا ۔ جیسن میاں کی تھوڑی گردن سے لگ گئی اور آنکھوں سے سیلِ اشک رواں ۔ یا الہی! یہ کیا ماجرہ ہو گیا؟
ہم اور وقاص دونوں دم بخود ۔ ہم نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو ہزار بار برا بھلا بولا. ہمیں یقین واثق کہ یہ عادتِ بد کسی دن ہمیں بری طرح خوار کروائے گی۔ خیر ہم نے وقاص کو اشارہ کیا تو اس نے قریبی کولر سے پانی لا کر جیسن کے سامنے رکھ دیا اور ہم نے خاموشی سے ٹشو کا ڈبہ اس کی طرف سرکا دیا۔
دفعتاً جیسن معذرت کرتا ہوا اٹھ گیا۔
ہم دونوں ہونق بنے بیٹھے رہے اور میری شرمندگی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔خیر بمشکل دس منٹ گزرے ہونگے کہ برخوردار جیسن کی تشریف آواری ہوئی اور پھر اسی نکھری ستھری پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی کرسی پر براجمان ہو گئے ۔ اس کے بیٹھنے کے بعد ہم نے اس کے آگے گرما گرم سیاہ تلخ کافی رکھ دی۔
اس نے شکریہ ادا کیا اور پھر ہنستے ہوئے اپنے جذباتی پن کی معذرت کی۔
ہم کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ جذباتی ہو، یعنی زندہ ہو کہ جذبات زندگی کی حرارت ۔
بجھتی آنکھ اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بتایا کہ گزشتہ رات اس کا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ بریک آپ ہو گیا ہے. میں نے اپنی گرل فرینڈ کی بہت منتیں کیں، اسے بہت روکا مگر وہ نہیں مانی اور چلی گئی ۔
خیر اب اس بات پر کوئی کیا تبصرہ کرسکتا تھا۔ ہم نے صرف اتنا کہا کہ “جیسن بعض اوقات چیزیں ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں مگر یقین کرو اس بات میں اللہ تعالی نے ہمارے لیے کوئی نہ کوئی بہتری رکھی ہوتی ہے. لہٰذا اپنے دل پر بوجھ مت لو. جو ہوتا ہے بہتری ہی کے لیے ہوتا ہے۔”
کہنے لگا کہ تم کیا واقعی ایسا سمجھتی ہو یا محض ہمیں تسلی دے رہی ہو۔
ہم نے کہا ” نہیں تسلی نہیں کہ اس بات پر تو میرا ایمان ہے ۔”
پھر اس نے پوچھا تم کیا کہ رہیں تھیں کہ تمھارے پاس صرف سولہ ہزار ہے مگر یہ گاڑی تو تئیس ہزار ڈالر کی ہے۔
ہم نے کہا ہاں یہ میری قوتِ خرید سے باہر ہے، یہ ہم نہیں لے سکتے ۔ کہنے لگا نہیں تم لو گی اور ضرور لو لگی۔ پھر اللہ جانے اس نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کون کون سا ڈسکائوٹ نکالا، پھر پوچھا تمہارا کوئی بچہ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے؟
ہم نے کہا ہاں دو بیٹیاں انجنیئرنگ کر رہیں ہیں.
خوش ہو گیا، کہنے لگا چلو یہ ڈسکائوٹ بھی ہو جائے گا ۔حساب کتاب کرتے کرتے آخر وہ سترہ ہزار پانچ سو ڈالر پر آ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنا کمیشن بھی چھوڑ دیا ہے مگر اب مزید قیمت کم نہیں ہو سکتی.
ہم تو ششدر رہ گئے اور ہمیں اب شرمندگی بھی محسوس ہو رہی تھی ۔
ہم نے کہا منظور، مگر تم اپنا کمیشن بتا دو، وہ ہم ضرور ادا کر دیں گے ۔
بہت ہنسا، پھر کہنے لگا اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں ۔ میں صبح سے آفس میں اپنے کولیگ کے درمیان ہوں،کسی نے ایک دفعہ بھی میری اداسی کا سبب نہیں پوچھا۔ تم نے نہ صرف پوچھا بلکہ میرا غم سنا اور تسلی بھی دی۔ کمیشن کا کیا ہے ابھی کوئی دوسری پارٹی آئے گی اور میں دوگنا کمیشن کما لوں گا۔
ہم نے کہا جیسن ہمیں شرمندگی ہو رہی ہے۔ کہنے لگا بھول جاؤ سب کچھ ۔
یہ بتاؤ کون سا رنگ لو گی؟ اسٹاک میں صرف دو گاڑیاں ہیں. ایک لال اور ایک سلور۔ تمہاری بیٹی کی پسند کا رنگ نہیں ہے۔
دل کمبخت تو چاہا کہ لال کے لیے ہاں کہ دیں مگر بروقت کانوں میں لال لگام والا ظالمانہ محاورہ گونجا اور اسے سوچ کر ہی جھرجھری آ گئ. ہم نے سلور کے لیے ہامی بھری. خیر ساری کاغذی کاروائی مکمل ہوئی اور پیمنٹ کا چیک اس کے حوالے کیا ۔ اس نے مجھے گاڑی کی چابی پکڑائی۔
الحمدللہ! دل تو اسی وقت سجدہ ریز ہو گیا۔
جیسن کا بہت شکریہ ادا کیا اور نئی نکور گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوئے ۔
کبھی کا پڑھا ہو جملہ ذہن میں گھومنے لگا کہ جب اللہ تعالی کسی کام کو کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کی خدائی کا ذرہ ذرہ آپ کا مدد گار ہو جاتا ہے۔ تئیس ہزار کی گاڑی کا ساڑھے سترہ ہزار میں مل جانا ناقابلِ یقین لگتا ہے ۔جس کو بھی بتایا اس نے شدید حیرت کا اظہار کیا ۔ کبھی کبھی دل میں شرمندگی بھی ہوتی تھی کہ جیسن کا کمیشن مارا گیا پھر دل ہی دل میں اسے ڈھیروں دعائیں دیتے ۔
اللہ تعالی پر بڑا پیار آیا کہ وہ کیسے سبب بناتا ہے۔ کیسے دلوں میں چھپی ان خواہشات کا، جن کا خود آپ کو بھی ادراک نہیں ہوتا. وہ تمنائیں جن کا آپ خود سے بھی اعتراف نہیں کرتے. وہ ربِ کریم ان آرزوؤں اور خواہشوں کو کن فیکون کے مرحلے تک لے جاتا ہے ۔
سبحان تیری قدرت۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply