سعادت ازلی ہے۔ شقاوت تک انسان خود پہنچتا ہے۔ سعادت معصومیت ہے۔ معصومیت سے فرار انسان خود اختیار کرتا ہے۔ خود ساختہ اصلاحِ احوال انسان کو معصومیت کی سعادت سے محروم کر دیتی ہے۔ اصلاح کے نام پر فساد مفسدوں کا پرانا شیوہ ہے۔ قرآن میں مفسدوں کا ایک مکالمہ درج ہے۔ تاقیامت اس کی روشنی میں مفسدوں کی پہچان ہوتی رہے گی۔ ارشاد ہے:’’ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت پیدا کرو، تو یہ کہتے ہیں ہم ہی تو ہیں اصلاح کرنے والے‘‘۔ کمال است! یعنی باطل پرست خود کو حق پرست کہتے چلے آئے ہیں۔ باطل پر ، اپنے نفس کے حکم پر جنگیں کرنے والے بھی قرآن نیزے پر اٹھائے ہوتے ہیں۔ ان کی پہچان احادیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی عبادتیں اور تلاوتیں بہت بلند آہنگ ہوں گی۔ ایک طرف قرآن پڑھا جا رہا تھا، بلکہ قرآن نیزوں پر بلند کیا جا رہا تھا اور دوسری قرآن کے وارث تھے۔ کتاب اور وارثِ کتاب کو مقابل میں لانے والے خارجی کہلائے۔ عرصہ ہوا، اْمتِ مسلمہ نے خوارج کو داخل دفتر کر دیا گیا۔ آج کے دور کیفکری فتنوں میں یہ فتنہ بھی سرِ فہرست ہے کہ وحدت کے نام پر کسی طرح خوارج کو دین میں داخل کر لیا جائے۔ یہ سفرِ معکوس وحدت کا سفر ہر گز نہیں۔ قرآن میں ہے، کہ فتنہ قتل سے بھی شدید جرم ہے۔
انسان کے مزاج میں خوئے تسلیم نہ ہو تو تزکیہ ِ نفس ممکن نہیں ہوتا۔ تزکیہ ِ نفس نہ ہو تو انسان قرآن کے معانی بھی روح کی روشنی کی بجائے اپنے نفس کے حکم پر کرتا ہے۔ امرِ الٰہی کو صاحبِ امر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:’’ الہامی کلام کی ذہنی تفسیر اَزخود غیر معتبر ہے‘‘۔ سائیں فضل شاہ صاحبؒ کے نزدیک :’’فسق اَمرِ الٰہی میں اپنی رائے داخل کرنا ہے‘‘۔ فسق کی اس تعریف کی سند قرآن پاک میں یوں ملتی ہے کہ ابلیس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ’’ اس نے فسق کیا، اپنے رب کے امر میں ‘‘ … تھا تو وہ عبادت گزار ، اس کے فسق سے مراد کسی لہو ولعب میں مشغولیت نہ تھی ، بلکہ وہ رائے تھی جو اس نے حکمِ ربی کے سامنے پیش کی، کہ مجھے تْو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے، اب آگ مٹی کے سامنے کیسے جھکے؟ اور پھر یہ رائے بھی پیش کی کہ ’’میں اعلیٰ ہوں‘‘۔ اپنی رائے کو اعلیٰ جاننے والے… ’’اَنا ربکم الاعلیٰ‘‘ کے فرعونی نعرے پر عمل پیرا ہیں۔
اپنے من کی مرضی کرنے والوں نے ضروری سمجھا کہ معیارِ حق کو عوام کی نظروں میں دھندلا دیا جائے۔ معیارِ حق جس فرقان کا نام ہے وہ حق پر قائم کوئی ذی روح انسان ہی ہوتا ہے۔ وہ انسان ماضی میں بھی ہو سکتا ہے اور حال میں بھی کوئی صاحبِ حال ہو سکتا ہے۔ فرقان کو انسان سے جدا کرنے والے اور کتاب تک محدود کرنے والے خود کو اہلِ قرآن کہتے ہیں۔ وہ قرآن سے ہدایت کے طالب ہوتے ہیں ، حالانکہ قرآن خود بتا رہا ہے کہ اس کتاب سے ہدایت صرف متقین کے لیے ہے۔ ہدایت ہادی سے ملتی ہے اور ہادی بصورتِ انسان کلام کرتا ہے۔
اپنے نفس کے غرے میں آیا ہوا شخص قرآن کے نام پر حدیث سے اور حدیث کے نام پر محدثین سے انحراف کرنے کی روش اپنا لیتا ہے۔ اگر اس کے سامنے اولیاء کے اقوال رکھیں تو وہ احادیث سنانے لگے گا، اگر اس کے سامنے احادیث رکھیں تو وہ قرآن کی آئتیں تلاوت کرنا شروع کر دے گا۔ یزید کے محل میں حضرت زینب سلام اللہ علیہ کے خطبے کو خاموش کرانے کے لیے اہلِ دربار نے مؤذن کواشارہ کیا کہ وہ آذان دینا شروع کر دے۔ یزید نے اسیرانِ کربلا ، اہلِ بیت کے محل میں داخل ہوتے ہی اْن کے سامنے قرآن کی یہ آیت پڑھی… ’’اللہ جسے چاہتا ہے ، اسے حکومت دیتا ہے‘‘۔ قرآن سے اس طرح اپنی غاصبیت اور حکومت کا جواز اہلِ شقاوت کا شیوہ ہے۔ اللہ اور اہل اللہ کو مقابل میں کھڑا کرنا اہلِ شقاوت کا پرانا وتیرہ ہے۔ وراثینِ قرآن کے مقابلے میں قرآن کی تلاوت کرنا یزیدی فکر کا خاصہ ہے۔
انسان کا نفس جب اسے دھوکہ دینے پر آتا ہے تو اْسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔کشف المحجوب میں سیّدِ ہجویرؒ فرماتے ہیں: ’’نفس کی فریب کاریوں کی کوئی حد نہیں‘‘۔ غیر اصلاح شدہ نفس امن کینام پر جنگ کر تا ہے۔ دین کے نام پر دولت اکٹھی کرتا ہے۔ وحدتِ ادیان کے نام پردین سے انحراف کرتا ہے۔ قرآن کے نام پر فرقان سے گریز کرتا ہے۔ وحدتِ اسلام کے نام پر روحِ اسلام سے اعراض کرتا ہے اور دین کے نام پر وارثِ دین پر اعتراض کرتا ہے۔ توحید کے نام پر رسالت سیاور رسالت کے نام پر ولایت سے اعراض غیر مزکّی نفوس کے ہاں شیوہِ عام ہے۔

غیر مزکّی نفس نفاق کے مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ نفاق محبت سے اعراض سے پہچانا جاتا ہے۔ محبّت کو عربی میں ولا اور ولایت بھی کہتے ہیں۔ جس طرح کفر اور ایمان کے درمیان حدِّ فاصل رسالت پر ایمان ہے ، اس طرح ایمان اور نفاق کے درمیان فرقان ولایتِ علی پر ایقان ہے۔ حضرت ابوسعید خذریؓ سے مروی ہے کہ ہم کسی مومن اور منافق میں فرق ذکرِ علیؓ سے کیا کرتے تھے۔ اگر ذکرِ علیؓ سے کسی کے چہرے پر بشاشت آ جاتی تو ہم سمجھ لیتے کہ ہمارامخاطب ایک بندہِ مومن ہے۔ اگر کسی کے چہرے پر ذکر علیؓ سے تنگی کے آثار ابھر آتے تو ہم اسے منافق کے طور پر پہچان لیتے، کیونکہ ہم نے رسولِ کریمؐ سے سنا تھا کہ اسے علیؓ مومن کے علاوہ تم سے کوئی شخص محبّت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی شخص بغض نہیں رکھے گا۔ حضرت علی ابنِ ابی طالبؓ امام المتقین ہیں۔ متقی ہونے کے دعویٰ کرنے سے پہلے ہمیں اپنے ایقان و ایمان کے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ آیا ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اپنے ایمان کا امام تسلیم کر رہے ہیں یا کسی پس و پیش کا شکار ہیں؟
ہدایت تو متقین کا نصیبہ ہے۔ اکثریت اگر فاسقین کے قبضے میں ہو تو وحدت کے نام پر فاسقین اور متقین کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کا فیصلہ “لایستوی” کی تمام آیات میں طے ہے۔ قرآن کا فیصلہ ہے کہ ہم فاسقین کو متقین کے برابر نہیں کریں گے، قرآن کا فیصلہ ہے کہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ قرآن ہی کا اعلان ہے کہ نابیناشخص دانا و بینا کے برابر نہیں ہو سکتا… اصحاب النّار اور اصحاب الجنّہ برابر نہیں ہو سکتے۔ عدل ہر چیز کو اس کے درست مقام اور مرتبے کا نام ہے۔ کوئی ذی عدل ، ظلم اور انصاف کو برابر نہیں لکھ سکتا۔ قاتل اور مقتول کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑے کردینا ظلم بھی ہے اورظلمت بھی… اور یہ ظلمت، دراصل ظلمتِ نفس کا شاخسانہ ہے۔ امن وو حدت کے نام پر عدل و انصاف کا خون کسی ذی فہم کے نزدیک قابلِ قبول نہیں … کائناتی اصول ہر جگہ ایک ہی ہیں… ماضی ، حال اور مستقبل ہر جا ایک ہی قانون روا ہے… اور یہ قانونِ عدل ہے۔قرآن کہتا ہے کہ عدل کرو، عدل ہی تقویٰ کے قریب ترین ہے۔ عدل کرو، خواہ مقابل میں تمہارا عزیز رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
فکر میں عدل نہ ہو تو عمل میں اعتدال کہاں؟ فکر قبلہ رْو نہ ہو تو زیارت، سیاحت میں بدل جاتی ہے اور عبادت، ریاضت میں! اللہ کے حضور دعا ہے کہ ہمیں ضائع ہونے والی عبادتوں اور زیارتوں سے بچائے!۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں