کل صبح سے بانگ درا کو پڑھنا شروع کیا اور دیکھتے دیکھتے شام ہو گئی. دسمبر کے آخری ہفتے نرم اور شرمائی ہوئی دھوپ “بانگ درا’ کی پہلی اشاعت کو وقت کا مفہوم سمجھا رہی تھی،یا خود وقت کا مفہوم سمجھنا چاہتی تھی۔”بانگ درا” کا اولین ایڈیشن سو سال کے بعد کیا کچھ کہتا ہے۔اس کی چمک دمک ظاہری طور پر ماند پڑ چکی ہے لیکن اصل تو “بانگ درا” کی شاعری ہے جس پر 100 سوسال کا عرصہ بیت چکا ہے۔اس خیال سے کئی سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔
,1-“بانگ درا “سے ہمارے رشتے کی نوعیت پہلے سے کتنی بدل گئی ہے۔اگر بدل گئی ہے تو اس سے ہمارا مطالبہ بھی پہلے سے مختلف ہوگا.
2-اس مطالبے میں جو وقت اور سیاست کا عمل دخل ہے اس کی معنویت کا رشتہ ہمارے دور سے کتنا ہے۔
3-“بانگ درا” کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔یہ حصے کیا ایک دوسرے سے اتنے گریزاں ہیں جتنا کہ بتایا جاتا ہے۔
4- کسی بڑے شاعر کے فکر و خیال کی دنیا اتنے عرصے میں کیا اتنی بدل سکتی ہے۔
5- بدلی ہوئی فکر و خیال کی دنیا اقبال کی تخلیقی شخصیت سے کتنا انصاف کرتی ہے۔کیا اس سے تخلیقی آگہی کا نام دیا جائے یا نظریاتی وابستگی کا۔
6-اقبال کی حمایت میں کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظریاتی وابستگی دراصل وہ شعور ہے جو وقت کے ساتھ گہرا بھی ہوتا گیا اور بالیدہ بھی۔
7ـ ہندی کے نامور نقاد نامور سنگھ نے ایک موقع پر کہا تھا,اقبال کہاں سے چل کر کہاں پہنچے۔بانگ درا سے اس سوال کا گہرا رشتہ ہے.
8ـ”بانگ درا” کی ابتدائی نظموں سے قربت کو مقامیت کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
یہ مقامیت آج بھی تہذیبی سطح پر ہمارے ساتھ ہے۔دنیا کا جغرافیہ چاہے جتنا بدل گیا ہو مگر اقبال کی نظموں میں پہاڑ،دریا،ہوا،پانی،پھول پھل،صحرا اور دوسرے مظاہر ہمارے لیے تہذیبی حوالے ہیں۔تہذیبی حوالے جب تخیلی حوالے بن جاتے ہیں تو ان کی عمر لمبی ہوتی جاتی ہے۔ان حوالوں کو اقبال کی نظموں کے حوالے سے پڑھتے اور دیکھتے ہوئے ایک نئی لذت کا احساس ہوتا ہے
۔فطرت پر کتنا مشکل وقت اس عرصے میں آیا ۔طرح طرح سے فطرت پر حملے ہوئے۔اقبال نے فطرت کو بلا شبہ ایک مخصوص جذبے کے ساتھ دیکھا۔یہ وہ فطرت تھی جو اقبال کے لیے زندگی کی طرح تھی۔
“بانگ درا “کی پہلی نظم “ہمالہ”کتنی بلندی سے کلام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے،اور دھیرے دھیرے مٹی کی بوباس کے ساتھ ہمارے وجود میں اترنے لگتی ہے۔کتنی خوبصورت ترکیبیں وضع کی گئیں۔ہر طرف سے فطرت “ہمالہ” کے ساتھ گھیر لیتی ہے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فطرت بارش کی صورت میں ہمارے وجود کو نہلا رہی ہے۔
” بانگ درا” کا ایک بڑا حصہ دن کے اجالے میں کچھ اس طرح پڑھا جیسے کہ مجھے رات کا انتظار ہو. “بانگ درا” کی ایک نظم “آفتاب صبح ہے۔اس نظم تک پہنچنے میں تھوڑا وقت لگا۔دن اٹھ چکا تھا اور صبح کا آفتاب ٫آفتاب کی طرف مائل تھا۔
“بانگ درا” کی اشاعت کی ایک صدی کا جشن۔ کچھ جلسے اور مذاکرے ہوئے ،مگر ایک تشنگی کا احساس باقی رہا۔1924 اور 2024 کی سماجی سیاسی اور ادبی صورتحال پر غور کریں تو دونوں کے درمیان مماثلتوں کو تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔بانگ درا کے ساتھ دنیا کی جو بڑی کتابیں 1924 میں شائع ہوئیں انہیں کتنا یاد رکھا گیا۔حافظہ اتنا کبھی کمزور ہو جاتا ہے کہ کسی کتاب کا ایک ورق بھی یاد نہیں رہتا۔کبھی خود ہی کسی کتاب کی اوراق فکر و خیال کی دنیا میں کچھ اس طرح پلٹنے لگتے ہیں کہ جیسے اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہ ہو ۔اب جب کہ2024 رخصت ہوا چاہتا ہے تو بانگ درا کے بارے میں کچھ لکھ رہا ہوں۔
بانگ درا کو پہلی مرتبہ اسی گھر اور آنگن میں پڑھا تھا،جہاں صبح سے دھوپ کھلی ہوئی تھی۔وہ وقت کچھ اور تھا۔نظموں کے عنوانات اور کچھ مصرعے شعوری کوشش کے بغیر یاد ہو گئے۔جس مقامیت کا ذکر آیا ہے اس میں اس گھر کی فضا بھی شامل تھی۔نہ کوئی سوال تھا اور نہ کوئی الجھن۔اقبال کی شاعری ہے اور اسے اس کی عظمت کے احساس کے ساتھ پڑھا جائے۔تاریخی حوالے اخلاقی حوالے تھے۔مگر ابھی بانگ درا کے ساتھ روحانی اقدار کا رشتہ قائم نہیں ہوا تھا۔گو کہ اس میں یہ قدر ہیں موجود تھیں۔ان قطروں کے اظہار کی زبان سادہ اور معصوم نہیں تھی۔دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی مگر کوئی ایسی بات اس میں پوشیدہ تھی جو فاصلے کو قربت میں تبدیل کر دیتی۔
بانگ درا کی قرآت کا یہ تجربہ والدہ مرحومہ کی توجہ کے ساتھ شروع ہوا تھا۔اقبال کی نظم “والدہ مرحومہ کی یاد میں”آ ج پڑھتے ہوئے نئے تجربے سے گزرا یہ وہ تجربہ ہے جو والدہ کے ساتھ قرآت کرتے ہوئے شاید ممکن نہیں تھا۔
مجھے کیوں خیال آیا کہ “بانگِ درا” کو رات کے سناٹے میں پڑھا جائے۔ابتدا میں یہ شعوری کوشش نہیں تھی مگر خود ہی رات کا پچھلا پہر آ گیا۔کہانی کی کتاب جب دل کے اجالے میں پڑھی جا سکتی ہے،تو بانگ درا بھی پڑھی جا سکتی ہے۔مجھے بانگ درا کے موضوعات سے دلچسپی تو ہے لیکن اب موضوعات میں موجود کیفیات سے زیادہ ہے جو ایک قاری کی حیثیت سے میرے لیے بہت اہم ہیں ۔کیفیات موضوعات کے ساتھ ہماری قرآت کا تجربہ بنتی ہیں مگر کبھی کیفیات موضوعات پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ضروری نہیں کہ ہر قاری کا تجربہ اسی طرح کا ہو۔کیفیات موضوعات کو اگر سیال بنا دیں تو اس سے موضوعات کی ٹھوس حقیقت کا نقصان تو نہیں ہوتا۔کیفیات بھی کبھی شور مچاتی ہیں۔کیفیت کا شعر کہتے ہوئے ذہن میں شاعری کا فوری اور جذباتی تاثر ہوتا ہے۔
اقبال کی “بانگ درا”کی عمومی فضا رات کی تنہائی اور خاموشی سے کتنی ہم آہنگ ہے۔فطرت سے اقبال کا مکالمہ ایک معنی میں خاموشی اور تنہائی کو محسوس کرنا ہے۔
تجھ پہ برساتا ہے شبنم دید گریاں مرا
ہے نہاں تیری اداسی میں دل ویراں مرا
میری بربادی کی ہے چھوٹی سی ایک تصویر تو
خواب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو
ہمچو نےازنیستاں خود حکایت می کنم
بشنو اے گل،از جدائیہا شکایت می کنم
فطرت سے اقبال کی دلچسپی کو کبھی اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ جیسے فطرت پناہ گاہ بن گئی ہو۔یہ محض فطرت کا بیان نہیں بلکہ فطرت کو اپنے وجود میں اتارنا یا فطرت کے وجود میں اتر جانا ہے۔کبھی فطرت سے اپنی اس ہستی کا سراغ ملتا ہے جس کی پہچان بے تابی اور دلسوزی ہے۔اقبال سے پہلے فطرت اردو شاعروں کے لیے جیسی بھی رہی ہو،اقبال نے اسے اپنی نظر سے دیکھا،یہ وہ نظر ہے جس کا دروازہ دل کی طرف کھلتا ہے۔اسی لیے اقبال کی ان نظموں میں فطرت کا سوز و ساز اقبال کا سوز و ساز بن جاتا ہے۔لہذا اقبال کی فطرت پسندی کو محض پناہ گاہ تصور کرنا ٹھیک نہیں۔عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ بانگ درا کی ابتدائی نظموں میں فطرت کی نوعیت اکہری اور عمومی ہے۔ فطرت کا حسن دیکھتے دیکھتے اقبال کے یہاں خاموشی اور اداسی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کہ شاعرانہ تخیل کی منزل کہاں ہے۔اقبال کے یہاں فطرت کی ابتدائی صورتیں بھی فکری عناصر سے خالی نہیں ہیں۔تنہائی میں اور وہ بھی رات کی تنہائی میں “بانگ درا” کو پڑھنے کا تجربہ ایک ایسی آواز سے قریب ہونا یا سننا ہے جو بہت قریب سے اٹھ رہی ہو۔یہ آواز قاری کے وجود میں جو ہلچل سی مچاتی ہے اس کے پیچھے شعری ہنر مندی کا وہ تصور نہیں جو محض ہنر مندی ہے۔کچھ نظمیں تو ایسی ہیں جو تنہائی اور خاموشی میں پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں