اب میں شہرہ آفاق دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے باب نمبر 7 پر کھڑا تھا۔ چار سو خاک اڑ رہی تھی۔تجسس اور اشتیاق میں چاروں طرف ایک اچٹتی ہوئی نگاہ دوڑائی، یہ جاننے کے لیے کہ اس دوران کیا کیا تبدیلیاں نگارخانہ علم و حکمت میں رونما ہوئی ہیں۔ حد نگاہ تک جو شے نظر آئی بدلی ہوئی نظر آئی سوائے مجسمہ غالب کے۔ یہ وہ جامعہ نہیں تھا جو میں نے دو دہائی قبل دیکھا تھا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ بہت کچھ بدل چکا تھا، نقشہ وہی تھا لیکن نقش و نگار وہ نہیں رہے تھے، ہیئت تبدیل ہو چکی تھی لیکن ماہیئت وہی رہی، کئی سارے نئے شعبے قائم ہوئے، نئی عمارتیں وجود میں آئیں، پہلے ’خسروؔ غریب است و گدا‘ اور ’غالبؔ خستہ‘ دور سے ہی سہی ہیلو ہائے کر لیا کرتے تھے، دونوں کے فیوژن میں صرف ایک سڑک حائل تھی،اب درمیان میں میٹرو پل، گاڑیوں کا بے ہنگم شور، دھول دھپے اور دہلی کی مسموم فضائی آلودگی بھی آ گئی ہے جس کے سبب گلستان غالبؔ اور جہان خسروؔ میں بُعد اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔بس ایک فرق نہیں آیا تھا، غالب جہاں تھے آج بھی وہیں اپنا دبستان کلام کھولے کھڑے ہیں اور آنے جانے والوں سے کہہ رہے ہیں ’میاں سنو تو سہی، گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی،‘ بعض اوقات لگتا ہے جیسے استاد ذوقؔ پر طنز کر رہے ہیں ’جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے‘ یا پھر بہادر شاہ ظفر کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ حوصلہ دے رہے ہیں ’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘، یا مجسمے کے نیچے بیٹھے اپنے کسی نامراد فرزانے کو تسلی دے رہے ہیں ’یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا‘۔
ابھی میں محشر خیال کی انہیں وادیوں کی سیر کر رہا تھا کہ صدر دروازے پر استقبال کے لیے عبدالرحمان عابد آ گئے۔ عبدالرحمن جامعہ خیر العلوم ڈمریا گنج سے فارغ ہیں، نہایت ہونہار طالب علم ہیں اور فی الحال پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے ہیں۔ خوش بختی یہ ہے کہ وہ مجھے میرے افسانوں کے ذریعے کم، کتاب چہرہ پر اخور بخور پوسٹوں کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں۔ ویسے برسبیل تذکرہ یہ بتا دوں کہ فیسبک کے ذریعے جو لوگ مجھے جانتے ہیں ان میں غالب اکثریت ان قارئین کی ہے جو مجھے میری ادبی تخلیقات کی وجہ سے نہیں بلکہ فیسبک کے دیورا گریہ پر آویزاں، پوسٹوں، متفرق مضامین، مزخرفات اور کبھی کبھار کے ’حسن کلام‘ کی وجہ سے جانتے ہیں۔ غالباً عبدالرحمان عابد بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔اب قارئین کی بات آ گئی ہے تو کچھ اور باتیں شیئر کرلیتا ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک بار دہلی کی ہی ایک خاتون ’مداح‘ نے مجھ سے کہا کہ یہ جو لوگ آپ کو پڑھتے ہیں یہ ادب کے تربیت یافتہ قاری نہیں ہیں۔ بجائے اس کے کہ میں ان سے پوچھتا کہ یہ تربیت یافتہ قاری کیا ہوتے ہیں، ان کی تربیت کون کرتا ہے اور یہ کہ اس نتیجے پر آپ پہنچی کیسے ہیں، میں نے ان سے الٹا سوال کر لیا کہ جو لوگ آپ کو پڑھتے ہیں وہ کون ہیں، وہ سٹپٹا گئیں، انہیں سوال پر سوال کی توقع نہیں تھی۔فرمانے لگیں کہ اول تو لوگ انہیں پڑھتے نہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ کسی اور وجہ سے پڑھتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ مجھے ’کسی اور وجہ سے‘ نہیں پڑھتے۔ پس جامعہ کے یہ طلبا گرچہ تربیت یافتہ قاری نہ ہوں وہ مجھے کسی اور وجہ سے نہیں پڑھتے۔ یہاں خواتین ادیبوں کی توہین مقصود نہیں لیکن بعض اوقات انہیں ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار رہنا چاہئے کہ انہیں وہ رعایت نہیں ملنے والی جس کی وہ تمنا رکھتی ہیں۔ ممکن ہے عبدالرحمان عابد، سفیر صدیقی، محمد اشرف یاسین، حماد الرحمان، عابد رشید، دانش نور، محمد ثاقب خان، گلفام بابر اور جامعہ کے دیگر عزیز طلبا تربیت یافتہ قاری نہ ہوں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ مجھے پڑھتے ہیں، کم ہی سہی۔
کچھ لوگ اس قدر زود حس ہوتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے دو تین بار ’مَیں‘ کا استعمال کر لیا تو اسے ’میں میں‘ سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف اپنے بارے میں بات کرتا ہے جیسے کاکٹو پیرس سے برگشتہ ہو گیا تھا کہ یہ شہر ہمیشہ اپنے ہی بارے میں بات کرتا ہے، یہ تعلی، تفاخر اور ہذیانی نرگسیت کی علامت ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ’مَیں‘ کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے۔ کبھی کشف ذات کے پروسیس سے گزرتے ہی نہیں ہیں سو وہ ’مَیں‘ کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ جب آپ کی ذات مٹتی ہے تب اس کی راکھ سے یہ ’میں‘ وجود میں آتا ہے۔ جب آپ کے عرفان کی عاجزی اور شان کبریائی دونوں تحلیل ہو کر ’نیستی‘ کے ظرف میں جمع ہوتے ہیں تو کیٹالسٹ نام کا ایک نیا محلول تشکیل پاتا ہے جو آپ کی ذات پر پڑے ژنگار کو کاٹتا ہے، خباثت و خساست کے میل کو چھانٹتا ہے، تقدس اور تکدر سے آمیز کینچلی کو اتارتا ہے،اسے نتھار اور نکھار کر ایک نئی چیز سامنے لاتا ہے جو ’میں‘ ہوتی ہے⏤ پس یہ میں ہوں، یہ میری ذات ہے، آلائشوں، کثافتوں اور کدورتوں سے پاک⏤ سو یہ ہے آپ کا اصل ’مَیں‘ جس تک رسائی کی آپ کوکبھی توفیق نہیں ملی۔ اگر آپ اپنی ’میں‘ سے واقف نہیں ہیں تو پھر آپ اپنی ذات اور اپنی غیرت سے بھی واقف نہیں ہیں۔ جب ادیب اپنی ’مَیں‘ سے دستبردار ہوتا ہے تو وہ اپنے غیرت پندار اور حرمت قلم سے بھی دستبردار ہوجاتا ہے۔ ہر چند کہ جب تک یہ میں آپ کے پاس رہے گا بیشتر لوگ آپ کے قریب نہیں آئیں گے، ہر زاویے سے آپ کو بدنام کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اپنی غیرت، اپنی خودی، اپنے قلم کی حرمت اور اس کی نزاکت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ بہت معمولی قیمت ہے۔
عبدا لرحمان کے ساتھ ہم جامعہ کے شعبہ بشریات و لسانیات میں داخل ہوئے۔ ہم کوئی سہ پہر ساڑھے تین بجے گئے تھے، اس وقت طلبا کی چھٹیاں ہو چکی تھیں، اساتذہ یا تو اپنے گھر جا چکے تھے یا جانے کی تیاری کر رہے تھے، ’کل حزب بما لدیہم فرحون‘ کے مطابق طلبا اپنے اپنے گروپوں کے ساتھ یہاں وہاں بیٹھے، منتشر اور مسرور نظر آئے۔ شعبہ لسانیات کا ماحول بڑا مَدرِسانہ لگا⏤ پھیکا، پژمردہ، محو شدہ، ویران نیز رونق حیات سے خالی⏤ یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہاں پر ہر شئی حالت نصف میں ہوکر موقوف ہو گئی ہے، یعنی دل ہے تو کیفیت نہیں، دماغ ہے تو معصومیت نہیں، روح ہے تو روحانیت نہیں، جسم ہے تو وحشت نہیں، جنون ہے تو مجذوبیت نہیں۔ موجود تو ہر شے ہے لیکن لگتا ہے کہ کن و فیکون کے درمیان سکوت کا کوئی سانس بھر لمحہ حائل ہو گیا سو اب ہر شے حالت انجماد و سکوت میں ہے۔ کہیں نہ کہیں کچھ تو، کچھ کم تھا، جیسے کوئی شعر وزن سے خالی ہو، کوئی تصویر فریم سے باہر ہو، کوئی کینوس میں رنگ بھرنا بھول گیا ہو، جیسے کوئی آنکھ؛ روشنی تو ہو مگر کوئی رنگ نہ ہو۔ ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا کہ میں نے ادب کی سرزمین پر قدم رکھا ہے، یہاں ہماری زبان، ہمارا ادب اور ہماری تہذیب سانس لیتی ہے۔ کہیں سے کوئی وائب نہیں آئی کہ حضور سنبھل کر قدم رکھیو، یہ اردو کی بستی ہے اور آپ کے بزرگ اس بستی کے پانی سے وضو کیا کرتے تھے۔ آخر یہ صدا کہاں سے آتی؟ در و دیوار نے یہ کہہ کر خموشی اوڑھ لی ہے کہ وہ اب قیامت کے دن ہی گواہی دیں گے۔ جب ادب کی جمالیات سے عاری بندہ پروفیسر بن جائے تو فن کی وجدانی سرگوشیاں گھٹن سے خود بخود مر جاتی ہیں۔ اور پھر جب دانش گاہوں میں طالبات کو’ آئٹم‘ سمجھنے کا رجحان فروغ پانے لگے تو یہ آرٹ کی موت کا آغاز ہے، پھر انا للہ پڑھنے کی مشق شروع کردینی چاہئے۔
جب ہم صحن میں داخل ہوئے تو لگا کہ ابھی عقب سے میرؔ آ جائیں گے ’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘ لیکن وہ نہیں آئے۔خیال گزرا کہ ابھی آگے سوداؔ مل جائیں گے ’اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی‘ لیکن وہ بھی نظر نہیں آئے۔ پھر خود کو تسلی دی کہ ابھی ادھر دائیں جانب دیکھوں گا تو میر درد کی آہ ضرور سنائی دے گی ’ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے‘ اور دو چار زینے ابھی چڑھوں گا کہ آتش گنگنانے لگیں گے’ کئی شب سے ہمارے خواب میں بت خانہ آتا ہے‘۔ لیکن ایسی کوئی فضا نہیں ملی۔ عجیب سا پسرا ہوا سناٹا تھا،یہ جامعہ ملیہ کا شعبہ اردو تھا۔
وہاں سے ہم کینٹین کی طرف گئے جہاں ہماری ملاقات پروفیسر احمد محفوظ صاحب سے ہوئی۔ احمد محفوظ شاعر ہیں، میرؔ پر اتھارٹی ہیں اور صدر شعبہ اردو بھی ہیں۔پہلے سے کوئی ملاقات طے نہیں تھی، اوپر سے ان کی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات، سو چائے پینے تک مختصر سی تعارفی گفتگو ہوئی، بعد ازاں نوجوان شاعر سفیر صدیقی بھی آ ملے اور اس کے بعد طلبا ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔جامعہ کے مختلف شعبوں کی زیارت کرنے کے بعد آخر میں ہم سب نے ایک وفد کی صورت غالبؔ کے حضور حاضری دی۔ دل ہی دل میں ہم کلام ہوئے، کوئی گفتگو نہیں، کوئی شکوہ و شکایت نہیں، بس اک محشر خیال تھا جسے وہیں غالب کے قدموں میں دھر آیا ’ مرزا یہ تمہاری اقلیم تھی تمہیں سنبھالو‘۔
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
غالب
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں