اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کسی کا ذہن بدلنا ہے اور اس ضمن میں دلائل اور حقائق کی گردان بالکل کند ثابت ہوتے ہیں۔ سیاست کو لے لیجیے۔ اگر کوئی آدمی کسی ایک جماعت کا حامی ہے تو آپ مخالف دلیلوں کے انبار لگا دیجیے، اس کے پسندیدہ رہنما کے کرتوتوں کے ثبوتوں کے کے ٹو کھڑے کر دیجیے، مگر وہ آپ کی بات نہیں مانے گا۔
بلکہ اس کا اثر الٹا ہو گا، یعنی آپ جتنے زور و شور سے اس کے نظریات بدلنے کی کوشش کریں گے، وہ اتنا ہی ان پر راسخ ہوتا چلا جائے گا۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ اگر انسان واقعی منطقی حیوان یعنی ریشنل اینمل ہے، تو اسے بامعنی حقائق اور ٹھوس شواہد کی روشنی میں ذہن بدلنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ سادہ ہے۔ انسانی دراصل منطقی حیوان نہیں بلکہ جذباتی حیوان ہے۔ لاکھوں برس کے ارتقا نے اسے منطقی انداز میں سوچنے کی صلاحیت ضرور عطا کی ہے، لیکن جہاں جذبات آ جاتے ہیں وہاں منطق طاق پر دھری رہ جاتی ہے۔
کھرب ڈالر کا سوال ہے کہ لوگوں کی ذہن سازی کس طرح کی جائے؟ کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کر کے آپ دوسروں کو کوئی کام کرنے پر آمادہ کر سکیں؟
انسان صدیوں سے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے، کیوں کہ اگر اس کا جواب مل گیا تو صرف محبوب ہی کیا، تمام دنیا آپ کے قدموں میں ہو گی۔
ایک طریقہ ہے، لیکن اس تک پہنچنے کے لیے ہمیں تاریخ کے چند صفحے پلٹا پڑیں گے۔
ماہرین نے انسان کے ماضی کے ہزاروں برس کے اعداد و شمار اور شواہد کا جائزہ لے کر ایک نتیجہ نکالا ہے کہ تاریخی طور پر تشدد میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے اور یہ رجحان آج بھی جاری ہے۔
دنیا کے مختلف علاقوں سے قبل از تاریخ قبائلی معاشرے کے جو ڈھانچے ملے ہیں ان میں سے اوسطاً 15 فیصد ایسے ہیں جو بظاہر پرتشدد طریقے سے ہلاک ہوئے تھے، یعنی کسی کی پسلیوں میں بھالا اٹکا پایا گیا تو کسی کے گلے میں پھندا، وغیرہ۔
آج یہ شرح کتنی ہے؟ میرے پاس 2007 کے اعداد و شمار ہیں، جن کے مطابق دس لاکھ میں تین لوگ پرتشدد موت کا شکار ہوتے ہیں۔ فرق واضح ہے۔ ماضی: سو میں پندرہ، حال: دس لاکھ میں تین۔
اگر کسی کے سامنے یہ بات کی جائے کہ جنگوں میں کمی واقع ہوئی ہے تو وہ ترنت دوسری عالمگیر جنگ کی مثال دے دیتا ہے کہ یہ تاریخ کی مہلک ترین جنگ ہے۔ اموات کی تعداد کے لحاظ سے یہ درست بھی ہے۔ لیکن اگر ہم دنیا کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھیں تو مہلک ترین جنگوں کی فہرست میں اس جنگ کا نمبر نواں ہے۔ 1940 میں دنیا کی آبادی 2.3 ارب تھی، جس کا تقریباً تین فیصد اس دوران موت کے گھاٹ اتر گیا۔ تاریخ کی سب سے ہلاک خیز جنگوں کا سلسلہ تیرھویں صدی میں منگولوں کی شروع کردہ جنگوں کے دوران دیکھنے میں آیا جن میں دنیا کی دس فیصد آبادی تہ تیغ ہو گئی تھی، حالانکہ اس وقت براعظم امریکہ دریافت ہی نہیں ہوا تھا۔
اس کے علاوہ ایک فرد کے دوسرے کو قتل کرنے کے عمل میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ کمی 30 گنا ہے۔
جنگوں کے علاوہ حالیہ ادوار میں حکومتی تشدد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر اٹھارہویں صدی کے برطانیہ میں 222 جرائم ایسے تھے جن کی سزا موت تھی، ان میں والدین کی نافرمانی، بادشاہ کی شان میں گستاخی،جادوگری، خانہ بدوش جپسیوں کی ساتھ گھلنا ملنا جیسی معمولی باتیں بھی شامل تھیں۔ آج پورے یورپ میں سزائے موت مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے۔
تشدد میں کمی کا یہ رجحان تین صدیاں پہلے شروع ہوا تھا اور آج بھی رواں دواں ہے۔ اسی دوران اس کی وجوہات پر غور و فکر ہوتا رہا ہے۔
جرمن فلسفی امانوئل کانٹ نے 1795میں تین وجوہات بیان کی تھیں: تجارت، جمہوریت اور بین الاقوامی برادری کا تصور۔ یہ ساری وجوہات نہایت اہم ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن جدید دور میں ماہرین نے ایک اور وجہ بھی دریافت کی ہے۔
اور وہ ہے فکشن اور خاص طور پر ناول۔ اگر آپ یہ یہ سن کر شاک لگا ہے تو دھیرج رکھیے، میں اس دعوے کے دلائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں غلامی عام تھی اور خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں لاکھوں سیاہ فام مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا کر رکھا گیا تھا۔ اس دوران غلامی کے مخالفین بھی موجود تھے جو اخباروں، رسالوں اور کتابوں کے ذریعے انسدادِ غلامی کا پیغام دے رہے تھے۔ اسی دوران 1852 ہیریٹ بیچر سٹو کا ناول ’انکل ٹامز کیبن‘ شائع ہوا، جس میں ایک غلام خاندان کی دردناک کہانی بیان کی گئی تھی۔ یہ کتاب بےحد مقبول ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے تین لاکھ نسخے فروخت ہو گئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب امریکہ اسی غلامی کے معاملے پر دو دھڑوں میں بٹ گیا تھا۔ جلد ہی ان دھڑوں کے درمیان غلامی کے معاملے پر جنگ چھڑ گئی جس میں ساڑھے چھ لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے۔ آخر میں غلامی کے مخالف جیت گئے اور حامی ہار گئے۔
اس تمام معاملے میں دوسرےعوامل اپنے اپنے طریقے سے اثر انداز ہوئے، لیکن انکل ٹامز کیبن نے کیا کردار ادا کیا اس کا جواب اس وقت کے امریکی صدر ابراہم لنکن سےسنیے کہ جب وہ بیچر سٹو سے ملے تو انہوں نے سب سے پہلی بات ہی یہ کی: ’اچھا تو تمہی وہ عورت ہو جس نے یہ جنگ شروع کروائی تھی؟‘
مغربی دنیا میں ناول اٹھارہویں صدی میں مقبول ہونا شرو ع ہو گئے تھے۔ان ناولوں نے یورپی ذہن سازی میں زبردست کردار ادا کیا اور آج ہم جسے روشن خیالی کا دور کہتے ہیں، لیکن اس کے لیے زیادہ بہتر اصطلاح انسان دوستی کا انقلاب ہے، اور یہ انقلاب ایک حد تک ان ناولوں کا بھی مرہونِ منت ہے۔
ناول ذہنوں پر کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے، اس کی ایک مثال دیکھیے:
فرانسیسی مفکر ژاں ژاک روسو نے ’جولی‘ کے نام سے ایک ناول بھی لکھا تھا۔ جب یہ ناول ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے پڑھا تو اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے روسو کے نام خط لکھا:
آپ کے ناول کی ہیروئن نے مجھے پاگل کر رکھا ہے۔ اس کے مرنے پر میری آنکھوں سے جو آنسو نکلے ہیں ان کا تصور کریں۔ میں نے کبھی اتنے پرکیف آنسو نہیں بہائے ہوں گے۔ کتاب پڑھتے ہوئے مجھ پر اتنا شدید اثر ہوا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میں اس ارفع لمحے میں خوشی خوشی مرنے کے لیے بھی تیار تھا۔‘
یہ صرف کتابی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس قسم کی خودکشیوں کے لیے باقاعدہ اصطلاح موجود ہے، ’کاپی کیٹ سوئی سائیڈ۔‘ آپ نے سن رکھا ہو گا کہ گوئٹے کے ناول ’سوروز آف ینگ ورتھر‘ چھپنے کے بعد کئی لوگوں نے ناول کے کردار ورتھر کی طرح کا لباس پہن کر اسی قسم کے پستول سے خودکشی کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 1775 میں جرمن حکام نے اس ناول اور اس مخصوص لباس پر پابندی لگا دی گئی تھی اور بعد میں ڈنمارک اور اٹلی نے بھی ناول کو بین کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ جب 1930 کی دہائی میں اس ناول کا عبرانی میں ترجمہ ہوا تو اطلاعات کے مطابق کئی نوجوانوں نے اس سے متاثر ہو کر خودکشیاں کی تھیں اور حکام کو ایک بار پھر یہ ناول بین کرنا پڑا۔
میں خاص طور پر ناول کا ذکر کر رہا ہوں، اس کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے کیوں کہ ادب تو شاعری، لوک داستانوں، فنتاسی، ڈرامے اور رزمیہ کی شکل میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس کے علاوہ حقیقی کہانیاں بھی ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہوتی ہیں جو ہم دوستوں سے سنتے، خبروں میں پڑھتے اور ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں۔
لیکن ان دوسری کہانیوں کے مقابلے پر ناول کو کم از کم دو اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ ایک تو یہ کہ ناول پڑھتے وقت کرداروں کی نفسیات، ان کے شعور، حتیٰ کہ لاشعور تک ہماری دسترس میں ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ناول عام طور کئی برسوں کے واقعات اور اس دوران کرداروں کا ارتقا دکھاتا ہے۔ دوسری اصناف میں ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔
ناول کی بالکل درست تعریف کرنا تو آسان نہیں کیوں کہ یہ شاید ادب کی سب سے لچک دار صنف ہے، لیکن اس مضمون کے موضوع کے پیشِ نظر یہ تعریف پیش کی جا سکتی ہے کہ ’کرداروں پر مبنی ایسی طویل کہانی جس میں کسی حد تک سماجی حقیقت نگاری برتی گئی ہو۔‘
ناول سے پہلے کی ادبی اصناف کا تعلق زیادہ تر دیوی دیوتاؤں، مقدس مذہبی شخصیات، بادشاہوں، شہزادوں، سورماؤں اور اشرافیہ سے ہوا کرتا تھا۔ نہ تو اس میں سماج ہوتا تھا اور نہ حقیقت نگاری پر توجہ دی جاتی تھی۔ اس لحاظ سے ناول کو جمہور کی آواز ہونے کی وجہ سے جمہوری صنف قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ داستان اور رزمیہ میں زیادہ توجہ واقعات کی طرف دی جاتی تھی، اس کے برعکس ناول میں واقعات کے ساتھ ساتھ کرداروں کی اندرونی زندگی، ان کے وقت گزرنے کے ساتھ ارتقا اور نفسیاتی کشمکش بنیادی اہمیت کے حامل ہو گئے۔ دوسرے الفاظ میں قدیم اصناف کو معروضی (آبجیکٹیو) جب کہ ناول کو موضوعی (سبجیکٹیو) قرار دیا جا سکتا ہے۔
ناول کی اٹھان کے ساتھ گلی محلوں میں چلتے پھرتے عام لوگ، کھیتی باڑی کرتے کسان، گھر کے دھندوں میں مصروف عورتیں، کارخانوں کے مزدور، حتیٰ کہ غلاموں کی طرح معاشرے سے سب سے پسے ہوئے طبقات بھی اعلیٰ ادب کے موضوعات میں شامل ہو گئے۔
دو سال قبل برطانیہ میں ایک تحقیق ہوئی جس میں حصہ لینے والے نصف افراد نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ ناول پڑھنے کے دوران اور بعض اوقات بعد میں بھی ناول کے کردار ان سے باتیں کرتے ہیں یا وہ کرداروں سے باتیں کرتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ کتاب پڑھنا ’پیسو‘ یا مفعولی نہیں ہے، بلکہ فاعلی یا ’ایکٹو‘ عمل ہے۔ ہم کہانی پڑھتے ہوئے خود اس کے اندر بیان کردہ دنیا کو بازتخلیق کر رہے ہوتے ہیں، اس کے واقعات کو اپنے ذہن کے پروجیکٹر کی مدد سے چلا رہے ہوتے ہیں اور ان کے کرداروں کو اپنے تخیل کی بھٹی میں ڈھال رہے ہوتے ہیں۔ کہانی نگار صرف ایک دھندلا سا خاکہ دیتا ہے، ہم اس میں صرف رنگ نہیں بھرتے بلکہ اس کی مدد سے مکمل دنیا کھڑی کر دیتے ہیں جو اتنی ہی حقیقی ہوتی ہے جتنی ہمارے آس پاس کی دنیا، بلکہ ہمارے ذہن کے اندر تشکیل پانے والی یہ فکشنل دنیا بعض صورتوں میں باہر کی دنیا سے بھی زیادہ حقیقی ہوتی ہے۔
باقی اصناف کی عظمت اپنی جگہ، لیکن یہ انسانی نفسیات کے تجربے کی پیچیدگی کو اس مکمل طریقے سے گرفت میں نہیں لے سکتیں جس طرح ناول لے سکتا ہے۔
ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی کا ’فلائیٹ سمولیٹر‘ ہے۔ جدید ہوابازوں کو جہاز اڑانے کی اولین تربیت جہاز کے اندر نہیں دی جاتی بلکہ انہیں ایک سمولیٹر میں بٹھایا جاتا ہے جو ہوبہو کاک پٹ کی طرح ہوتا ہے اور اس میں اسی طرح کے آلات نصب ہوتے ہیں جیسے اصل جہاز میں۔ ان آلات کو استعمال کرنے کے نتائج سامنے سکرین پر اسی طرح سے آ جاتے ہیں جیسے اصل جہاز میں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے پائلٹ جہاز گرائے بغیر تمام رموز سے آگاہ ہو جاتا ہے اور جب وہ اصل جہاز اڑاتا ہے تو اسے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
اسی طرح کہانی بھی ہمیں اپنی آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے دنیا کے دوسرے کونے میں، یا صدیوں پہلے یا صدیوں بعد کے کسی مصیبت کے مارے انسان کے ذہن تک براہِ راست رسائی حاصل کرنے کی سہولت دے دیتی ہے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ ہم اپنے نصب العین اور اغراض و مقاصد کو چھوڑ کر اس کردار کی ترجیجات میں رنگ جاتے ہیں، اور ہم جی جان سے چاہنے لگتے ہیں کہ وہ کردار اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے بھلے وہ مقصد خود ہمارے نظریات سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔
ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ کہانی ہے، جھوٹ ہے، مصنف کے ذہن کی پیداوار ہے، مگر پھر بھی ہیروئن کی موت پر ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، ہیرو کو خطرے میں دیکھ کر ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، ہتھیلیاں پسینے میں ڈوب جاتی ہیں، سانس تیز تیز چلتی ہے اور اگر آلے سے ناپیں تو پتہ چلے گا کہ بلڈ پریشر باقاعدہ بڑھ گیا ہے۔
اپنی بات کروں کروں تو ٹامس ہارڈی کے ’ٹیس آف دا ڈربرولز‘ اور وکٹر ہیوگو کے ’ہنچ بیک آف دا نوترے دام‘ (دونوں تاریخ کے چند ٹریجک ترین ناولوں میں سے ایک ہیں) نے یوں جھنجھوڑا کہ مہینوں تک نوجوان دل و دماغ ایک بےنام افسردگی کی کیچڑ میں لتھڑے رہے۔ اس دوران کھانے پینے کی طرف طبیعت راغب ہوتی تھی نہ کسی مشغلے میں دل لگتا تھا۔ گویا ایک ڈپریشن کی سی کیفیت لاحق ہو گئی تھی اور اگر آلات کی مدد سے جانچا جاتا تو شاید ہی نتائج ملتے جو کسی مریض کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔
کیوں؟ اس لیے کہ اس موقعے پر ہمارا ذہن اصل زندگی او ر فکشنل زندگی میں تمیز کھو بیٹھتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی فرضی کردار پر نہیں بلکہ دراصل ہمارے اوپر بیت رہا ہے۔
سائنس دانوں نے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے تجربات بھی کیے ہیں۔ مثال کے طور ایک تجربے میں ایک شخص سے کہا گیا کہ وہ چاقو سے سیب کاٹے، دوسرے سے کہا گیا کہ وہ اسے سیب کاٹتا ہوئے دیکھے اور تیسرے سے کہا کہ وہ سیب کاٹنے کے بارے میں پڑھے۔ اسی دوران تینوں کے دماغوں کا ایف ایم آر آئی سکین کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر تینوں سکین ایک جیسے تھے۔ یعنی کوئی باہر کا شخص صرف سکین دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ سیب کاٹنے والے کا ہے یا اس کے بارے میں پڑھنے والے کا۔
اس بحث کا حاصل یہ ہوا کہ جو کچھ ہم فکشن میں پڑھتے ہیں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے اوپر بیت رہا ہے اور ہمیں اس کردار سے اس حد تک ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے کہ ہماری زندگی تھوڑی سی تبدیل ہو جاتی ہے اور ہم دنیا کو تھوڑے سے مختلف طریقے سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ دوسروں کی زندگیاں، ان کے عزم، ان کے خواب، ان کی آرزوئیں بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی ہماری۔ گویا ہم زندگی کو دوسرے کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ چیز ہے جو تشدد کے لیے زہرِ قاتل ہے، اور یہی گذشتہ چند صدیوں میں معاشرے کو تبدیل کرنے کے محرکات میں سے ایک اہم محرک ثابت ہوئی ہے۔
اب تک ہم نے مغرب سے مثالیں دی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر تحقیق مغرب ہی میں ہوئی ہے۔ لیکن اگر ہمارے ہاں لکھے جانے والے فکشن اور خاص طور پر ناول پر کام ہو تو اغلب ہے کہ یہاں بھی اس سے ملتی جلتی صورتِ حال ملے گی۔
اردو ناول
یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ اردو نثر کی پنیری انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج میں لگائی، لیکن جس بات پر عام طور پر غور نہیں کیا جاتا وہ یہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر اس زمانے میں جب انگلستان میں پرانی نثری اصناف کی جگہ ناول نے جڑ پکڑ لی تھی، اور وہاں رابنسن کروسو، ایوالینا، پامیلا، کلیریسا اور دی ہسٹری آف ٹام جونز وغیرہ جیسے حقیت پسندانہ ناول لکھے جا چکے تھے (حتیٰ کہ جین آسٹن کا شاہکار ’پرائیڈ اینڈ پریجوڈس‘ بھی لکھا جا چکا تھا، یہ الگ بات کہ وہ شائع 1813 میں ہوا)، جب کہ جرمن زبان میں نوجوان ورتھر کا غم اور فرانسیسی میں ’کاندید‘ جیسے ناولوں نے گویا آگ لگا دی تھی۔
لیکن حیرت انگیز طور پر انگریزوں نے اپنی سرپرستی میں 19ویں صدی کی ابتدا میں ہندوستان میں ناول یا افسانے کی بجائے مافوق الفطرت داستانوں اور جنوں پریوں کی جادوئی قصہ کہانیوں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ کیا انہیں معلوم تھا کہ ناول نے یورپ میں کیا کردار ادا کیا ہے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان کے عوام بھی اسی طرح بیدار ہو سکیں؟
خیر، یہ قضیہ تو ایک الگ بحث کا متقاضی ہے، جس پر پھر کبھی بات ہو گی، لیکن اس مضمون کی مناسبت سے عرض ہے کہ چھ سات عشروں کی تاخیر ہی سے سہی لیکن بالآخر ہندوستانی زبانوں میں ناول لکھے جانے لگے۔ اردو کے ابتدائی ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد ہیں، جن کے 1869 میں لکھے جانے والے ’مراۃ العروس‘ کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد اپنے ناولوں کے ذریعے ادب میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے خواہش مند نہیں تھے، بلکہ ان کے ناول لکھنے کا مقصد اپنے بیٹی کی تعلیم و تربیت تھی۔ یعنی آج ہم جو بات کر رہے ہیں، ڈیڑھ صدی قبل ڈپٹی صاحب اس سے بخوبی آگاہ تھے۔ انہیں ادراک تھا کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے ناول سب سے عمدہ صنف ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مثنوی، قصیدے، نظم، داستان یا دیومالائی قصہ کہانیوں کی بجائے سماجی حقیقت نگاری پر مبنی ناول کو ترجیح دی۔
ڈپٹی صاحب کے ناولوں میں اور بہت سی خوبیاں ہیں لیکن ان کی سب سے اہم خصوصیت کردار نگاری ہے، جو آج اتنا زمانہ گزرنے کے باوجود بھی قاری کے ذہن کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ مراۃ العروس میں اکبری کے کردار کی صورت میں اردو میں پہلی بار کسی جیتی جاگتی، سوچتی، خواب دیکھتی عورت کی تصویر سامنے آتی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو ہمارا واسطہ صرف پریوں، شہزادیوں، کٹنیوں یا چڑیلوں ہی سے پڑا کرتا تھا، جو حقیقی انسانوں کے نمائندہ ہونے کی بجائے بلیک اینڈ وائٹ کارڈ بورڈ کردار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اکبری اپنی شخصیت کے تمام عیبوں اور کجیوں کے باوجود (یا شاید ان کی وجہ سے) قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ میں شامل ہو جاتے ہیں جو کسی پری یا چڑیل کے کردار کے ساتھ ممکن نہیں تھا۔
یہ کتابیں اس زمانے کی بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔ 20 برس کے عرصے میں مراۃ العروس کے ایک لاکھ سے زیادہ نسخے فروخت ہوئے جو اس زمانے کی شرحِ خواندگی اور قوتِ خرید کے پیشِ نظر عقل کو چکرا دینے والی تعداد ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس ناول کا پنجابی اور بنگالی سمیت برصغیر کی کئی دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
ہم یہ تخمینہ لگانے کی پوزیشن میں تو نہیں ہیں کہ ڈپٹی صاحب کے ناولوں سے ہندوستان کے اردو دان طبقے کی ذہنی ساخت و پرداخت کس حد تک بدلی، اور لوگوں کی سوچ پر کتنا اثر پڑا، لیکن ایک اشارہ ضرور دے سکتے ہیں۔ ڈپٹی صاحب کے ایک ہم عصر تھے، مولانا اشرف علی تھانوی، جن کی کتاب ’بہشتی زیور‘ آج بھی دلہنوں کو جہیز میں دی جاتی ہے۔ اس کتاب میں مولانا صاحب نے نوجوان لڑکیوں کو جو کتابیں پڑھنے سے منع کیا ہے، ان میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول بھی شامل ہیں، جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ ان کے پڑھنے سے ایمان کمزور ہو جاتا ہے!
یہ سب بجا، مگر پھر بھی یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ شاید ہمارے ہاں ناول کا معاشرے پر اتنا اثر نہیں ہوا جتنا مغرب میں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری شرحِ خواندگی اور غربت ہے۔ جب معاشرے کا بڑا حصہ دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کی جدوجہد میں پس رہا ہو، اسے ناول خریدنے او رپڑھنے کی عیاشی کہاں میسر ہے۔ انگلستان 19ویں صدی ہی میں سو فیصد شرح خواندگی حاصل کر چکا تھا، جب کہ ہمارے ہاں یہ منزل مزید ایک صدی کے فاصلے پر دکھائی دیتی ہے، اس لیے یہاں کتاب کی رسائی اور تاثیر کی اس درجہ توقع کرنا بےسود ہے۔
اس کے باوجود جو لوگ کتاب خریدنے اور پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر انہوں نے ’امراؤ جان ادا‘ یا منٹو کے افسانے پڑھ رکھے ہوں تو کیا ان کا کسی طوائف کے بارے میں رویہ وہی ہو گا جو کسی ان پڑھ شخص کا؟
لیکن اب صورتِ حال سست روی ہی سے سہی، بہتری کی طرف گامزن ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ بھی آ رہا ہے اور وہ لکھ پڑھ بھی رہےہیں، اس لیے ہمیں ماضی میں زیادہ نہ سہی، لیکن مستقبل کے اردو ناول سے بڑی امیدیں ہیں۔ ظاہر ہے جو بات ماضی کے لیے درست ہے، وہ آج بھی درست ہے۔
وہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کو درخت لگانے چاہییں تاکہ ماحول آلودگی سے پاک ہو جائے۔ بالکل اسی طرح سے ذہنوں کو صاف رکھنے اور انہیں آلودگی اور کثافت سے بچانے کا آسان نسخہ ہے کہ ادب پڑھیں، ناول پڑھیں، افسانے پڑھیں۔ آپ صرف ناول سے حظ نہیں اٹھا رہے ہوں گے، صرف اپنے آپ کو بہتر انسان نہیں بنا رہے ہوں گے بلکہ پورے معاشرےکو سدھار رہے ہوں گے۔
آم کے آم،گٹھلیوں کے دام کی اس سے بہتر مثال ہو تو بتائیے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں