17 جنوری 2025 کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے ماسکو کے دورے کے موقع پر ایران اور روس ایک تاریخی سٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا کی جیوپولیٹکس کو نئی شکل دینے کا پوٹنشل ہے۔
روس اور ایران کے درمیان یہ پارٹنرشپ نہ صرف خطے میں مغربی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے روس کی کامیاب حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے بلکہ عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ہے۔
اس معاہدے کے تحت روس ایران جیسی اہم علاقائی طاقت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی سٹریٹجک جہت دے گا۔ اس کے علاوہ، انڈیا کو روس تک تجارت کے لیے ایک مختصر اور آسان راستہ ملے گا، جو اس سے پہلے بحیرہ احمر، بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔
یہ معاہدہ ایران اور روس کے درمیان خاص کر اِن شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے ہے:
• دفاعی اور سلامتی کا تعاون: علاقائی اور عالمی سلامتی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو رسمی شکل دینا، اور دونوں ممالک کی ملٹی پولر عالمی نظام کے قیام کے عزم کو ظاہر کرنا۔
• معاشی اور تجارتی تعلقات: معاہدے کا اہم حصہ انٹرنیشنل نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) ہوگا، جس کا مقصد روس، ایران، اور بھارت کے درمیان لنکس بنانے والے تجارتی راستے قائم کرنا اور مغربی پابندیوں سے بچنا ہے۔
• تکنیکی اور سائنسی تعاون: مصنوعی ذہانت، خلائی ٹیکنالوجی، اور سائنسی ایجادات میں مشترکہ منصوبوں کی دفعات دونوں ممالک کی سٹریٹجک خودمختاری کو مضبوط کرنے کے لیے شامل کی گئی ہیں۔
یہ پارٹنرشپ تہران اور ماسکو کی مشترکہ خواہش کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ مغربی تسلط اور اقتصادی پابندیوں کو چیلنج کریں، علاقائی اثر و رسوخ کو مضبوط کریں، اور گلوبل جیوپولیٹکس کو از سرِ نو ترتیب دیں۔ دونوں ہی مغربی پابندیوں کا شکار ہیں۔
تاریخی طور پر مغربی ممالک کی یہ ہمیشہ سے حکمتِ عملی رہی ہے کہ روس کی گرم پانیوں تک رسائی کو مسدود کیا جائے تاکہ وہ شمالی کُرّے کی کلیدی طاقت (pivotal power) اپنے ارد گرد کے حصار کو توڑتے ہوئے وہاں سے باہر نکل کر مغربی ممالک کے خطے اور بالآخر دنیا بھر میں مغربی غلبے کے لیے چیلنج نہ بن جائے۔
مغرب کی یہ پالیسی جو پہلے برطانیہ کی تھی، دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی کی بن گئی کیونکہ امریکہ نے برطانیہ کی عالمی طاقت کی حیثیت چھین لی۔ یعنی امریکہ برطانیہ کی جگہ سپر پاور بن گیا۔
روس کو یوریشیا ایک “کلیدی طاقت” (Pivotal power) کے طور پر دیکھنے کا تصور جغرافیہ کے برطانوی ماہر ہالفورڈ میکینڈر نے پیش کیا تھا جنھیں “ہارٹ لینڈ تھیوری” کا بانی قرار دیا جاتا ہے، یعنی کسی خطے میں اندرونی زمین “ہارٹ لینڈ” (heartland) کی اہمیت۔
میکینڈر کے مطابق، روسی کے جغرافیہ کی وجہ سے اس کی طاقت اس کے اندر کے زمینی جغرافیہ سے جڑی ہوئی ہے جو عالمی جغرافیائی سیاست میں یوریشیائی زمین کے حصے میں مرکزیت کا کردار ادا کرتا ہے اور اس طرح روس کا خطّہ دنیا کا محور بن جاتا ہے۔
میکینڈر کی کتاب The Geographic Pivot of the History, کا مشہور کوٹ ہے کہ “جس کی مشرقی یورپ پر حکمرانی ہے وہ ہارٹ لینڈ پر حکمرانی کرتا ہے؛ جو ہارٹ لینڈ پر حکمرانی کرتا ہے وہ ورلڈ آئی لینڈ پر حکمرانی کرتا ہے؛ جو ورلڈ آئی لینڈ پر حکمرانی کرتا ہے وہ دنیا پر حکمرانی کرتا ہے۔”
اگرچہ میکینڈر کی پیوٹن پاور کی تھیوری کو بعد میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی لیکن برطانیہ اور پھر امریکہ نے سرد جنگ کے دوران اس پرانی تھیوری کو نئے ایکسپریشنز کے ذریعے سویت یونین اور پھر روس کو شمالی کرّے تک محدود کرنے کے لیے استعمال کیا۔
سرد جنگ کے آخری عشرے میں جب سویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئی تھیں تو مغربی پریس نے اس گریٹ گیم کی تھیوری جیسے ایکسپریشنز دہرائے اور افغانوں کو پاکستان اور سعودی عرب کی مدد سے جہاد کے لیے تیار کیا جو دراصل سی آئی اے کا ایک کھیل تھا۔
اگرچہ ایران کی سٹریٹجک پوزیشن روس کے یوریشیا اور مشرق وسطیٰ میں ایک پُل کا کام انجام دیتی ہے، جس سے روس کو خلیج فارس اور سمندری راستوں تک براہ راست اہم رسائی ملتی ہے، جو مغربی طاقتوں کے زیرِ کنٹرول دیگر گزرگاہوں کو بائی پاس کرتی ہے۔
مگر ایران، میں ایک صدی تک برطانوی یا امریکی استعماریت شاہ آف ایران کی صورت میں مسلط رہی جس نے روس کو گرم پانیوں تک رسائی حاصل نہ ہونے دی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد خیال تھا کہ روس کو یہ رسائی مل جائے گی مگر خمینی کا اسلامی “لا شرقیہ، لا غربیہ” میں پھنسا رہ گیا۔
روس کے جنوب میں جنوبی حصار کے دیگر ممالک میں ایک ترکی ہے، دوسرا ایران اور تیسرا افغانستان اور پھر پاکستان ہیں۔ اس وقت ایران واحد ملک ہے جو مغرب کا مخالف ہے اور اس طرح روس کا بہتری سٹریٹجک پارٹنر بننے کی صلاحیت اور خواہش بھی رکھتا ہے۔
ایران جغرافیائی طور پر ہارٹ لینڈ اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے، جو روس، جنوبی ایشیا، اور خلیجی ممالک کے درمیان رابطے کو ممکن بناتا ہے، اور توانائی کے بڑے ذریعے کے طور پر، ماسکو کو مغربی پابندیوں کے باوجود دنیا سے رابطے کا اہم زمینی راستہ مہیا کرتا ہے۔
روس کے لیے بحیرہ روم تک پہنچنے کا راستہ بحیرۂِ اسود کے ذریعے بھی بنتا ہے لیکن ترکی اِس وقت روس مخالف مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا رُکن بھی ہے۔ یوکرین کی روس سے جنگ کے دوران ترکی نے یوکرین کی امداد کی ہے۔
اس کے علاوہ ایران کا روس کے ساتھ اتحاد مغربی طاقتوں کی جانب سے گھیرا ڈالنے کی کوششوں کے خلاف ایک سٹریٹجک بلاک بناتا ہے، جس کی وجہ سے تہران ماسکو کے لیے ہارٹ لینڈ سے آگے اثر و رسوخ قائم کرنے میں ایک لازمی اتحادی بن جاتا ہے۔
سرد جنگ کے دوران روس کے مغرب میں نیٹو تھا اور جنوب میں سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) تھا جو ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ کا سپانسرڈ ریجنل کواپریشن فار ڈویلپمنٹ (RCD) بھی تھا۔ ان سب کا مقصد روس کو اس کے خطے تک محدود رکھنا تھا۔
تاہم، روس اور ایران کی پارٹنرشپ اس حکمتِ عملی کے لیے ایک براہِ راست چیلنج پیش کرتی ہے۔
مجوزہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کاریڈور (INSTC—International North-South Transit Corridor) کی تعمیر پر تعاون کے ذریعے، جو ماسکو کو ایران کے راستے خلیج فارس سے جوڑتا ہے، انہوں نے مغربی طاقتوں کے زیرِ کنٹرول روایتی بحری راستوں کا ایک قابلِ عمل متبادل تیار کیا ہے۔
یہ کوریڈور روس کی معاشی طاقت کو بڑھائے گی، اسے پابندیوں سے بچنے کے قابل بنائے گی، اور اس کے جیوپولیٹکل دائرۂِ اثر کو مضبوط کرتی ہے۔ ایران کے ساتھ روس کی یہ پارٹنرشپ صرف روس کے لیے ہی فائدے مند نہیں ہے بلکہ امریکی پابندیوں کے شکار ایران کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
مغرب بہرحال اب بھی کوشش کرے گا کہ روس اپنے ارد گرد حصار توڑنے کی کوشش میں کامیاب نہ ہو جس کے لیے ممکن ہے کہ وہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم قائم کرنے اور اقتصادی پابندیاں ہٹانے کی پیش کرے۔
تہران کو دوبارہ مغربی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اقتصادی مراعات کی پیشکش بھی کی جا سکتی ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری منصوبے کا معاہدہ (JCPOA) پر نظرِثانی اور پابندیوں میں نرمی تہران اور ماسکو کے درمیان پارٹنرشپ روکنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
اگر سفارت کاری ناکام ہوتی ہے، تو زیادہ جارحانہ اقدامات، جیسے کہ رجیم چینج کی کوششیں کی جا سکتی ہیں جس کے لیے مختلف حیلے بہانوں سے مغربی طاقتیں ایران میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرانے کی حتی الامکان کوششیں کریں گی۔
ایران کو غیر مستحکم کرنے کے لیے خفیہ کارروائیاں یا اس کے اہم اسٹریٹجک انفراسٹرکچر پر فوجی حملے کیے جا سکتے ہیں، تاکہ شمالی-جنوبی کوریڈور (INSTC) کی تعمیر کو سلو کیا جا سکے اور روس کے ساتھ اس کے اتحاد کو کمزور کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ، مغرب اسرائیل، خلیجی عرب ریاستوں، ترکی، اور آذربائیجان جیسے علاقائی قوتوں کے ساتھ اتحاد کو مضبوط بنا سکتا ہے تاکہ ایرانی اور روسی پارٹنرشپ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دینا مغرب کی ایک اہم سٹریٹجی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں