اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کا اندازہ ایک بہت ہی بزرگ صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے ہو سکتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا:
“ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گھر گئے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے جناب ابوبکر کے ذریعہ ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے”۔
اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہو گی کہ انہیں حضرت ختمی مرتبت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے “صدیق” کا خطاب ملا۔ سورہء نساء کی آیت نمبر69 کی روشنی میں جنوبی ایشیا کے معروف مصلح اور مفکر حضرت الامام مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا کہ:
“صدیقیت ایک ایسا مقام ومرتبہ ہے کہ اس سے اوپر صرف مقامِ نبوّت ہے اور بس !اور سچ یہ ہے کہ صدیقیت ون نبوّت کے درمیان کوئی مقام ہو ہی نہیں سکتا”
(مکتوباتِ مجددؒ)
حضرت الامام ولی اللہ الدھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے مقام “صدیقیت” پر جو بحث کی وہ بڑی نفیس ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
“جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسولوں پر اس طرح ایمان لاتا ہے کہ اس کے تمام قوائے قلبیہ ونفسیہ کی رگ رگ میں وہ سرایت کر جاتا ہے۔اس کے بعد ذکر و فکر میں مشغول رہتا ہے اور اعضاء و جوارح کے ساتھ حقِ عبودیت ادا کرتا ہے اور ان اعمال کو برابر بجا لاتا رہتا ہے تو ان تینو ں لطیفوں (عقل ، قلب اور نفس) میں عبودیت کی روح حلول کر جاتی ہے ۔اب یہ تینوں لطیفے عبودیت میں شرابور ہوکر اصل فطرت ہی بن جاتے ہیں اور چونکہ فطرتِ انسانی کے غلبہ کی حالت میں عقل کا مقتضاء یہ ہے کہ جس چیز کے مناسبات اس کے سامنے آئیں وہ اس چیز کی تصدیق کرے اس بناء پر عقل کی تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ احکامِ شرع پر اس طرح یقین کرے کہ گویا وہ اس کو صاف صاف نظر آ رہے ہیں جو مقامات اور احوال عقل سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اصل چیز یقین ہے اور یقین سے ہی مختلف مقامات مثلاََ توحید، اخلاص، توکل، شکر، انس، ہیبت، تفرید، صدیقیت اور محدّثیت وغیرہ پیدا ہوتےہیں”۔
پھر شاہ صاحب نے یقین کی تیسری شاخ “صدیقیت اور محدّثیت” کو قرار دے کر لکھا ہے کہ “ان دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ امت میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فطرتاََ پیغمبروں سے مشابہ ہوتے ہیں”۔ اس کے بعد انہوں نے حضرت ابوبکرؓ اور ان کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے لئے بطورِ خاص لکھا کہ “ان کی فطرت انبیاء کی فطرت کے مشابہ تھی”اور پھر انہوں نے بات سمجھانے کے لئے یہ بھی لکھاکہ
“صدیق کی روح پیغمبر کا اثر بڑی تیزی سے قبول کرتی ہے جیسے کہ گندھک آگ سے بہت جلد اثر پذیر ہوتی ہے اسی بناء پر ایک صدیق جب پیغمبر کی زبان سے کوئی بات سنتا ہے تو وہ فوراََ اس کے دل میں اتر جاتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس چیزکا علم اس کو خود بخود بغیر کسی کی تقلید کے حاصل ہو گیا”۔
حضرت شاہ صاحب نے لکھا کہ “حضرت ابوبکرصدیقؓ کی نسبتِ روایت یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی تو وہ جبریل امین کی آواز کی گنگناہٹ سنتے” اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب ابوبکرؓ کی نسبت اپنے پیغمبر سے کتنی بلند تھی۔بعض روایات میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ “جو کچھ میرے رب نے میرے سینہ میں ڈالا وہ میں نے ابوبکر کے سینہ میں ڈال دیا”۔
امت، جماعتِ صحابہ میں حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام سے آگاہ ہے کہ وہ کس طرح اسلام و پیغمبرِ اسلام کی حمایت میں اشعار کہتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کس قدر فرحت محسوس کرتے۔ایک موقع پر انہوں نے پیغمبرِ اسلام کی فرمائش پر حضرت ابوبکرؓ کی منقبت میں ایک رباعی پڑھی جس سے حضورِ اقدس کو انتہائی خوشی ہوئی اور فرمایا : (اس رباعی کا ترجمہ عرض کرنا مناسب ہو گا) جناب ابوبکر غارِ ثور میں دو میں سے ایک تھے۔ حالانکہ جب دشمن پہاڑ پر چڑھا تو اس نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا اور جناب ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے انتہائی محبوب تھے۔ تمام صحابہؓ اس بات کو جانتے ہیں کہ اس خصوصیت میں دنیا میں کوئی بھی ان کا حریف نہ تھا۔
حضرت خاتم النبیین و المعصومین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ان پر اجو اعتماد تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آپ نے اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں نماز کی امامت کے لئے انہیں ہی تجویز فرمایا اسی لئے بہت سے صحابہ نے خلیفہ انتخاب کے موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ “جس ابوبکر کو اللہ تعالیٰ کے رسول نے ہماری دین (نماز) کا قائد و امام بنایا ہماری دنیا (حکومت و خلافت) کا بھی وہی قائد و امام ہو گا”۔
ان کے فضائل و کمالات اور خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ایک مختصر تحریر تفصیلات کی متحمل نہیں اس لئے اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے ہم آج کی صحبت میں ان کے اس خطبہ پر اکتفاء کریں گے جو انہوں نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد ارشاد فرمایا۔ اصل یہ ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی کا نظام بُری طرح خرابی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کا واحد سبب صحیفۂ فطرت قرآن مجید کی تعلیمات،اس کے شارح اولین محمد عربی صلوات اللہ تعالیٰ علیہ وسلامہ اور ان کے فیض یافتہ بزرگوں کے ارشادات سے انحراف ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول نے قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کا برابر حکم دیااور دارین کی سعادتوں کو اسی سے وابستہ کیا اور عملی حوالہ سے فرمایا کہ “میرا اور میرے صحابہ کا راستہ ہی راہِ ہدایت ہے “مزید ارشاد ہوا کہ “میری اور خلفائے راشدین کی سنت و طریق کو لازم پکڑ لو”۔
سیدنا صدیقِ اکبرؓ، رسولِ محترم کے پہلے صحابی، دوست ، ساتھی ،سب سے زیادہ معتمد اور سب سے بڑھ کر فیض یافتہ تھے ان کا مختصر خطبہ خلافت ایسا ہے کہ ہمارے مقتدر طبقات اور ذمّہ دار حلقے اسے پلے باندھ لیں تو اس ملّت کی قسمت تبدیل ہو سکتی ہے۔ آئیں سب سے پہلے اس تاریخ ساز، انتہائی جامع لیکن مختصر خطبہ و تقریر کا ترجمہ پڑھ لیا جائے۔
“لوگو میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، پس اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو اور اگر خرابی و بُرائی کروں تو مجھ کو سیدھا کر دو (یاد رکھو کہ) سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ واضح خیانت، تم میں جو کمزور ہے میرے نزدیک قوی ہے۔ چنانچہ میں اس کا شکوہ (بہر طور) دور کر کے رہوں گا اور تم میں سے جو (بظاہر) قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ترین ہے
چنانچہ میں اس سے حق لوں گا اور ضرور، جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلّت کو مسلّط کر دیتا ہے اور جس قوم میں بُری باتیں اور بُرائیاں عام ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان پر مصیبت کو متولی کر دیتا ہے۔ جب تک میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو، جب میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت فرض نہیں۔ اچھا اب جاؤ نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے”۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معروفِ زمانہ کتاب “البدایہ والنھایہ” میں آپ کا یہ فیصلہ نقل کیاہے، جس کو ہم نے “پالیسی تقریر”کا نام دیا کیونکہ آپ نے خلافتی اور حکومتی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہی یہ ارشاد فرمایا مسجد نبوی میں، کیونکہ صدرِ اسلام میں ہماری اجتماعی زندگی کا سب سے اہم مرکز مسجد ہی تھا۔اللہ تعالیٰ کے نبی نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعدسب سے پہلے مسجد کا ہی اہتمام کیا اور خلفاء اسلام بھی ہر جگہ اس کا اہتمام کرتے، مسجد دعوتِ دین کا مرکز، قرآن و سنت کی درس گاہ، قاضی کی عدالت، مفتی کے دارالافتاء، جنگی تربیتی مرکز اور خود حاکم و خلیفۂ وقت کے دفترکے طور پر استعمال ہوتی۔سو جناب ابوبکرؓ نے بھی اسی جگہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ جامع اور مختصر، اور خطبہ کے بعد لوگوں کو نماز کی طرف توجہ دلائی۔ یہ تصریح تو نہیں کہ وہ فرض نماز کا وقت تھا یا نفلی نماز کے لئے آپ نے فرمایا، فرضی نماز کا وقت تھا تو ظاہر ہے کہ یہ تو بہر طور لازم معاملہ تھا لیکن ایسا نہیں تھا تو پھر بھی نماز کی اہمیت اُن کے پیشِ نظر تھی اور یہ کہ زندگی کے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے اور مسائل کے بوجھ سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اللہ پاک نے جو وسیلہ ارشاد فرمایا وہ نماز اور صبر ہے کہ اس کہ ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت جلد سے جلد تر متوجہ ہوتی ہے اور آدمی دامنِ رحمت میں آ جاتا ہے۔افسوس کہ اب نہ نماز کا اہتمام ہے نہ مسجد کی وہ اہمیت جو لازم تھی، حالانکہ قرآن عزیز کے ہر ہر حصہ میں نماز کی تاکید ہے اور حدیث کے بقول کفر و اسلام کے درمیان نماز ہی حدّ فاصل ہے۔
سورۂ حج کی آیت 41میں اربابِ اقتدار کے چہار گانہ فرائض میں پہلا فرض “اقامتِ صلوٰۃ”بتلایا گیا اور جیسا کہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ السلام نے اپنے آخری وقت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے بقول جن باتوں کی خاص تاکید کی اُن میں ایک نماز تھی۔ ہمارے دو بزرگ خلفاء سیدنا عمرؓ اور سیدنا علیؓ مسجد کے اندر شہید ہوئے اور نماز کے دوران اُن پر حملہ کیا گیا۔سیدنا فاروق شدید زخمی ہو گئے تو فوراََ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو آگے بلا کر نماز کی تکمیل کی طرف توجہ دلائی گویا اپنے شدید زخمی ہونے کے باوجود نماز کا اس قدر اہتمام کیا۔ نماز کے ذریعہ انسان کی ظاہری و باطنی پاکیزگی کا اہتمام رہتا ہے۔ توحید و معرفتِ الٰہی میں اس کی روح مستغرق رہتی ہے۔ صف بندی، وقت کا اہتمام، اطاعتِ امیر اور کتنے ہی انعامات ہیں جو نماز کے ذریعہ میسر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کی مدد و تعاون کی فکر میں رہتے ہیں۔
جناب صدیقِ اکبرؓ نے خطبہ کی ابتدا میں جو ارشاد فرمایا اس میں اس طرف توجہ دلائی کہ حکومت و خلافت وہی صحیح اور درست ہے جس کے پیچھے رائے عامہ کا اعتماد ہو۔
میں تمہارا امیر بنا دیا گیا ہوں …… کے الفاظ پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی او ر معلوم ہو گا کہ رائے عامہ کے اعتماد کے بغیر کوئی شخص کسی استبدادی راستہ کو اختیار کر کے عوام کی گردن پر مسلط ہو جائے تو ایسی حرکت روحِ دین کے منافی ہو گی۔ پھر انہوں نے یہ واضح کیا کہ “وہ دوسروں سے اچھے نہیں” حالانکہ وہ رسولِ محترم کے ارشاد کے بقول گروہِ انبیاء کے بعد سب سے بہتر ہیں لیکن ان پر یہ حقیقت واضح تھی کہ سورۂ نجم کی آیت 32کے مطابق اپنے منہ میاں مٹھو بننا کسی کو زیب نہیں دیتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں