زندگی کا ایک بڑا فن جانتے ہیں کیا ہے؟
زندگی کو متوازن رکھنا ، حیاتی کو ایک ڈگر پر لے کر چلنا۔۔۔۔اور یہ گُر زندگی آپ کو خود سکھاتی ہے ، بس آپ نے ذرا آنکھیں کھول کر چلنا ہوتا ہے اور ایک حقیقت کو سامنے رکھنا ہوتا ہے کہ جب میں اس جہاں میں آیا تھا تو ہر کام سے فرصت ، اور ہر بوجھ سے عاری تھا یہاں تک کہ رونے کے کام کیلئے بھی تھپڑوں کا سہارا لیا گیا اور رلایا گیا ایسے ہی لباس کا بوجھ بھی بعد میں ڈالا گیا ، یہ میری شروعات ہے ، اور پھر میں نے جب جانا ہے تو پھر ہر کام سے فارغ اور بوجھ سے ہلکا ہو کر جانا ہے۔۔۔۔بس دو چادریں تاکہ عزت محفوظ رہے۔۔۔
جب آپ اپنی زندگی کی ابتداء اور اختتام کو اس طرح سے اپنے سامنے رکھیں گے تو زندگی میں توازن بر قرار رکھنا کافی حد تک آسان ہو جائے گا ، کیونکہ اس سے آپ اس فکر سے آزاد ہو جائیں گے جس کو “میں ، میرا ، میں نے” کہا جاتا ہے۔۔۔کیونکہ میں نہ تو کچھ تھا نہ کچھ رہوں گا اور نہ میرا کچھ تھا نہ کچھ رہے گا اور نہ ہی میں نے کچھ از خود حاصل کیا تھا نہ میں اپنی مرضی سے کچھ گنواؤں گا۔۔۔
یہ صرف چیزوں ، مال ، دولت اور ساز و سامان کے بارے میں نہیں ، بلکہ رشتے اور تعلقات کے بارے میں بھی یہی رویہ بنا لیں اور اس پر خوب ریہرسل کریں ، بار بار زندگی آپ کو اس ورزش کا موقع دے گی ، کئی بار چھوٹے موٹے معاملات میں اس ایکسرسائز کو دہرانے کا موقع ملے گا۔۔۔جس پر آپ نے ہوش و حواس قابو میں رکھ کر خود اپنا توازن بر قرار رکھنا ہے ، معاملاتِ زندگی کو ویسے ہی لے کر چلنا ہے جیسے کسی نئے رونما ہونے والے معاملے سے پہلے چل رہے تھے۔۔۔۔اس کیلئے آپ کو سب سے آسان طریقہ نمازوں کے اوقات کار پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہوگا ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے آپ کی زندگی میں توازن بر قرار رکھنے کیلئے کیا ہی خوبصورت انداز میں نمازوں کا ایک ٹائم ٹیبل بنایا ہے ، اب خوشی ہو یا غم ہو ، فراخی ہو یا جنگ ہو دو حدوں کے درمیان مقررہ وقت پر آپ کو نماز پڑھنی ہے ، ہر صورت میں پڑھنی ہے ، یہ جہاں آپ کو رب سے جوڑنے کا سامان کرے گی وہیں کسی بھی پھنسے ہوئے معاملہ پر غور کرنے کا ایک وقفہ بھی دے گی ، یوں آپ اچانک رونما ہونے والی خوشی یا پریشانی سے کچھ دیر کیلئے نکلیں گے اور بگڑے ہوئے توازن کو برابر کرنے کی طرف توجہ مرکوز کریں گے۔۔۔۔
اس کی ایک مثال یہ لے لیجئے کہ ابھی پچھلے دنوں کسی پختون عالم دین کی ویڈیو خوب پھیلی ، جو کلاس پڑھا رہے تھے ، اسی دوران ان کو بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی وفات پا گئی ہے ، وہ رکے ، طلبہ میں اعلان کیا ، دعا کی اور دوبارہ کلاس پڑھانا شروع کر دی۔۔۔۔۔اس کو کہتے ہیں “الصبر عند صدمۃ الأولی” (صدمہ کے رونما ہوتے ہی صبر کا دامن تھام لینے) کی عملی تصویر ، لیکن اس کے پیچھے پتا نہیں ان حضرت کی کتنی محنت ہوگی کہ ان کا توازن بالکل بھی نہ بگڑا۔۔۔
(یہاں رک کر ذرا کچھ دیر کیلئے ان بزرگ کی جگہ خود کو رکھئے اور سوچئے کہ اگر کوئی ہمارا قریبی یوں ہم سے بچھڑ جاتا تو ہمارا ردِ عمل کیا ہوتا ، ہمارے معاملاتِ زندگی کتنے رک جاتے اور ہم کس حد تک توازن بر قرار رکھ پاتے؟)
اب ہماری زندگیوں میں بھی دو طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں ، ایک خوشی کے اور دوسرے غم و پریشانی کے ، اور ان معاملات کی نوعیت الگ قسم کی ہوتی ہے ، کوئی چھوٹا نقصان تو کوئی بڑا نقصان ، یعنی ہلکی سی خراش سے لے کر کسی کے بچھڑ جانے تک ہزاروں چیزیں ہیں ، آپ نے کتنی ہی بار سنا ہوگا کہ رشتہ/تعلق ٹوٹ جانے پر لڑکا یا لڑکی پاگل ہو گئے ، خودکشیاں تک کر لیں ، یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں پریشانی کو face کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، اسی طرح خوشی ہے ، کوئی بڑی خوشی مل گئی تو جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے بڑے بڑے انعام و اکرام کا وعدہ کر لیا ، پھر بعد میں پچھتا رہے ہیں ، اس فریق کو خوشی face کرنا نہیں آتی اور یہ بھی توازن کھو دیتے ہیں۔۔۔اور کاروبارِ زندگی کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔۔۔
اس لئے آج سے ہی یہ معمول بنائیے کہ ہر ہر موقع پر زندگی میں توازن کو بر قرار رکھنا ہے ، اس کیلئے ایک مثال اور لیتے جائیے کہ سید المرسلین جنابِ محمد الرسول اللہ ﷺ ہجرت کے بعد اسلام کی پہلی جنگ کو جا رہے ہیں ، لختِ جگر سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا بسترِ مرگ پر ہیں ، آپ چاہتے تو کسی کو امیر مقرر کر دیتے اور جنگ کیلئے لشکر بھیج دیتے لیکن پھر زندگی میں توازن کہاں بر قرار رہے کہ کسی رونما ہونے والے واقعہ سے اپنے حصے کا کام ہی روک دیا جاتا ، اس لئے آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو رخصت دی ، ہدایات دیں اور خود لشکر کو لے کر چل دئے ، جنگ ہوئی اور اللہ نے فتح نصیب کی ، ادھر فتح کی خوشیاں لے کر مدینہ لوٹے تو معلوم ہوا کہ بیٹی داغِ مفارقت دے گئی ہے ، آپ سیرت کی کتابیں چھان لیجئے ، پیارے نبی ﷺ نہ آپ کو جیت پر یومِ فتح مناتے ہوئے نظر آئیں گے نہ ہی وفات پر یومِ سوگ کا کوئی ثبوت ملے گا ، یعنی خوشی ہو یا غم آپ ﷺ کی زندگی کا توازن ذرا نہ بگڑا اور یہ بھی وہ اہم ترین کوالٹی ہے جس کو اپنانے سے نبی کریم ﷺ کی زندگی با مقصد ، پر اثر اور کامیاب گزری تھی۔۔۔۔
بس آپ بھی اس نبی ﷺ کے ہی امتی ہیں ، آپ کے مقاصد بھی اعلی اور منازل ارفع ہونی چاہئے ، جس کیلئے یہ محنت ضروری ہے کہ آپ نے زندگی کا توازن نہیں بگڑنے دینا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں