ایلون مسک کی برطانوی سیاست میں بے جا مداخلت/فرزانہ افضل

برطانوی سیاسی پارٹی ریفارم یو کے، کا پارٹی لیڈر نائجل فراج جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف نسلی اور مذہبی تعصب کا اظہار کرتا چلا آیا ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارم ایکس کے کھرب پتی مالک ایلون مسک کے  قریبی حواریوں میں شامل ہو گیا ہے۔ ایلون مسک نائجل فراج کو اس کی پارٹی کے لیے فنڈنگ بھی دے رہا ہے۔ اور نائجل فراج کو یہ بھرپور موقع مل رہا ہے کہ وہ ایلون مسک کی برین واشنگ کرے اور اسکے ذریعے سے لیبر پارٹی کی موجودہ حکومت کے پرائم منسٹر سر کیئر سٹارمر پر الزامات کی بوچھاڑ کرے،برطانیہ کے رہائشی پاکستانیوں کے خلاف زہر اُگلے، لیبر پارٹی کی حکومت توڑنے کی کوشش کرے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے  کہ اگر برطانیہ کے لیے کوئی پارٹی مخلص ہے اور حکومت اور ملکی معاملات سنبھالنے کے لائق ہے تو وہ صرف نائجل فراج کی ریفارم یو کے ہے۔
یاد رہے گرومنگ گینگز کے حوالے سے ڈیٹا کے مطابق 85 فیصد ملزمان سفید فارم ہیں، سات فیصد ایشیائی ہیں اور پانچ فیصد سیاہ فارم ہیں۔

ایلون مسک کی کچھ عرصہ قبل کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں وہ اسرائیل اور فلسطین کی  جنگ کے بارے میں خیالات پیش کر رہا ہے کہ اگر ایک فلسطینی کو قتل کریں گے تو کتنے اور حماس ممبرز پیدا ہو جائیں گے۔ یعنی وہ برین واشنگ سے پہلے ان دونوں ملکوں کی خون ریز جنگ کے خلاف تھا۔ مگر نائجل فراج کا کام تو ہمیشہ سے ہی فتنہ پھیلانا ہے۔

ایلون مسک جو ڈونلڈ ٹرمپ کا خصوصی مشیر ہے۔ اسے ذہنی صحت کے حوالے سے ایک سنجیدہ عارضہ لاحق ہے، وہ آٹزم کی ایک قسم ایسبرگر سنڈروم کا شکار ہے ۔ اس کی علامات میں سوشل سچویشنز کو صحیح طریقے سے سمجھنا ، بات چیت اور رابطے کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ لوگوں کی  باڈی لینگویج اور طنز و مزاح کو سمجھنے اور رشتہ نبھانے میں مشکلات، محدود دلچسپیاں، اور ایک ہی رویہ کا بار بار دہرایا جانا شامل ہیں۔ ایلون مسک ایک لمبے عرصے سے شدید ذہنی دباؤ اور ٹینشن کا شکار ہے اور منشیات کا عادی ہے۔

اس کا یہ الزام کہ برطانیہ کے پرائم منسٹر سر کیئر سٹارمر نے نارتھ ویسٹ کے گرومنگ گینگ کیس سے متعلقہ بچوں سے زیادتی کے ایشو پر کوئی اقدام نہیں اٹھائے ہیں لہذا وہ بھی ان گرومنگ گینگز کے ساتھ ایک طرح سے شریک ہے، قطعی بے بنیاد ہے۔ وہ اس کیس پر نیشنل انکوائری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ جبکہ لیبر پارٹی کا موقف یہ تھا کہ لوکل سطح پر لوکل اتھارٹیز اس کی انکوائری کریں۔ الزام یہ ہے کہ لیبر پارٹی نے اپنے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس معاملے پر پردہ پوشی کی اور نیشنل انکوائری سے اجتناب کیا۔ حالانکہ لیبر پارٹی تو 2024 میں حکومت میں آئی ہے اس سے پہلے تو کنزرویٹو پارٹی اقتدار میں تھی انہوں نے بچوں سے زیادتی کے معاملات پر جو 20 رکنی تجاویز چائلڈ پروٹیکشن ایکسپرٹ پروفیسر الیکسز جے نے سات سال کی انکوائری کے بعد 2022 میں پیش کی تھیں ، ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا۔ ٹوریز تو 14 سال مسلسل اقتدار میں رہے ہیں۔ اور ایلون مسک کو اگر گینگ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کی اتنی فکر اور پرواہ تھی تو ان تجاویز پر عمل درآمد کرنے کے لیے پہلے کیوں نہیں اعتراض اٹھایا مگر اس کا مقصد صرف اور صرف برطانوی سیاست میں مداخلت کر کے اپنی مرضی کی حکومت لانا ہے۔

گرومنگ گینگ کی نیشنل انکوائری ہونی چاہیے یا نہیں اس پر عوام کے مختلف پول کیے جا چکے ہیں۔ 47 فیصد عوام کا کہنا تھا کہ مسٹر مسک کے یہ زہر آلود بیانات برٹش پالیٹکس میں ہرگز مددگار ثابت نہیں ہو رہے۔ گو کہ 26 فیصد کا خیال مختلف تھا۔

پروفیسر جے نے اپنی سات سال کی ریسرچ سے معلوم کیا، کئی دہائیوں کے دوران برطانیہ اور بیرون ملک بچوں کو آن لائن، آف لائن، برطانوی قصبوں اور سڑکوں گلیوں پر  افراد اور پیڈو فائل نیٹ ورکس اور گرومنگ گینگز سے نقصان پہنچایا گیا۔ پروفیسر جے نے کہا کہ” بد سلوکی اور زیادتی کی  وارداتوں کو اکثر ایسے اداروں کی طرف سے چھپایا گیا، جنہوں نے اپنی ساکھ کو ان لوگوں کی اور بچوں کی حفاظت پر ترجیح دی، حالانکہ جن کی حفاظت ان کا فرض تھا۔”

پروفیسر جے کی 20 رکنی تجاویز میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی لازمی رپورٹنگ شامل ہے۔ تمام افراد اور ادارے جو بچوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں فورا ً رپورٹ کرنا لازمی ہوگا۔ اور بچے اور مجرم کے بارے میں رپورٹ نہ کرنا یا ان کی پردہ پوشی کرنا ایک مجرمانہ فعل قرار دیا جائے گا۔ ان کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی جائیں، لازمی رپورٹنگ اور پولیسنگ بل کی پلاننگ کی جائے۔ اس قسم کے جرائم کے متعلق بہتر ڈیٹا اکٹھا کیا جائے، جس میں زیادتی کا شکار ہونے والے فرد اور ملزم کی عمر ، جنس اور نسلی پس منظر کی بالکل صحیح انفارمیشن ریکارڈ کی جائے۔ چلڈرن ہومز اور کیئر ہومز میں سٹاف کے رجسٹریشن کے عمل کو بہتر بنایا جائے، ینگ افینڈرز انسٹیٹیوشن اینڈ سیکیور ٹریننگ سینٹرز میں جانچ پڑتال سے سٹاف کو بھرتی کیا جائے۔ کیئر ہوم ایسے اداروں میں بچوں پر جسمانی سختی یا ا یذا ء پہنچا کر قواعد و ضوابط کی پابندی کرانے پر پابندی لگنی چاہیے۔ کیونکہ بعض مجرمان ایسے اداروں میں جاب کے لیے اپلائی کرتے ہیں جہاں پر وہ بچوں پر جسمانی زیادتی یا تشدد کر سکیں۔ آن لائن سیفٹی ایکٹ کو بہتر بنانے کی شدید ضرورت ہے۔

ضروری ہے کہ ان تمام اصلاحات پر فوری عمل درآمد کیا جائے جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکی ہیں اور حکومت اپنے وسائل ان تجاویز کو لاگو کرنے میں لگائے جب کہ ان کیسز کی انکوائری لوکل اتھارٹیز ہی کریں۔

julia rana solicitors london

بطور برٹش پاکستانی ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی یوتھ کو صحیح ٹریننگ دیں ،اچھی تربیت کریں ،ان کی تعلیم اور سپورٹس پر توجہ دیں، تاکہ وہ صحت مندانہ سرگرمیوں میں مشغول رہیں۔ بچے کس سرکل میں اٹھتے بیٹھتے ہیں ان کی کہاں دوستیاں ہیں اس کی سب معلومات ہمیں ہونی چاہئیں ۔ بچوں کی آن لائن ایکٹیوٹی پر پیرنٹل کنٹرول رکھنا چاہیے۔ ہمیں آپس کے چھوٹے موٹے اختلافات سے نکل کر اس وقت درپیش گلوبل چیلنج کا سامنا کرنا ہے۔ اسلامو فوبیا میں اضافہ ہو رہا ہے ہمیں بذات خود اور اپنی فیملیز کو مغرب میں رہتے ہوئے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہے، ہم سب یہاں پر محنت کرتے ہیں مگر کردار کی بلندی بھی بہت ضروری ہے۔ عزت ہر عورت اور ہر مرد کی برابر ہے خواہ وہ کسی بھی رنگ ، نسل یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں جس طرح سے آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کی عزت اور حفاظت ہو، اسی طرح دوسروں کے بچوں کی عزت اور حفاظت بھی آپ کا فرض ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply