منتخب اشعار اور فیصل آبادی طالب علم کی تشریحات / وقاص آفتاب

انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

شاعر دراصل جڑانوالہ روڈ فیصل آباد کا بدنصیب رہائشی ہے اور اپنے میل ملاقاتیوں سے کہہ رہا ہے کہ بھائیو میرے گھر کاراستہ کچا ہے ، آپ ملاقات کے متمنی ہیں تو سو بسم اللہ ۔ میں چشم براہ ہوں۔ مگر آپکو انہی پتھروں اور روڑی پر سے ہی چل کر آنا پڑے گا جو ایک نیک نیت ٹھیکدار نئی سڑک کے لئے بچھا کر تارک دنیا ہو گیا تھا۔ براۓ مہربانی کہکشاں کالونی کی طرف سے آنے کی زحمت مت اٹھائیں کیونکہ وہاں سے کوئی گلی کوئی سٹریٹ ہمارے علاقہ میں نہیں کھلتی۔

یہ ہمی تھے جن کے لباس پر سر راہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے

گذشتہ سنڈے جب شاعر یعنی حاجی صاحب فیصل آباد چیمبر ز آف کامرس کے اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تو دوسرے معززین نے یہ نوٹ کیا کہ حاجی صاحب کے فیروزی شلوار قمیص پر گویا گھی ، سالن، فالودہ اور چاکلیٹ کے داغ تھے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ جلدی جلدی میں لنچ کھا کر میٹنگ میں پہنچے ہیں ۔ یہاں اسی امر کی وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ شاعر صاحب گھر سے تو صاف ستھرا کلف لگا سوٹ پہن کر نکلے تھے مگر راستے میں ہولی کا تہوار منانے والے جہلاء نے نے ان پر رنگ اور سیاہی وغیرہ پھینک دی۔ اسوقت حاجی صاحب نے محسوس کیا کہ وقت تنگ ہے اور اگر میں کپڑے بدلنے لگ گیا تو میٹنگ سے جاتا رہوں گا۔ اسلئے وہ داغوں سمیت ہی چیمبرز آف کامرس میں آ پہنچے اور میٹنگ میں رونق افروز ہوۓ۔۔

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہواء دشمن غالب آسماں اپنا

مصرع اولی میں شاعر نے خود اعتراف کیا ہے کہ نہ اس کے پاس وزڈم یعنی عقل تھی اور نہ وہ کوئی ہنر ڈھنگ سے سیکھ سکا ۔ مگر دوسرے مصرع میں وہ پٹری سے اتر گیا اور اپنی بے ترتیبی اور نالائقی کو شخصی ناکامی کی وجہ ماننے کی بجاۓ اسکا زمہ دار تقدیر اور آسمانی قوتوں کو ٹھہرانے لگا۔ ایسے قنوطیت پسند لوگ نہ تو اچھے آڑھتی بنتے ہیں، نہ اچھے کسان اور نہ ہی اچھے سیلز مین۔ ہاں ایسے لوگ غلے یا کیش کاؤنٹر پر بیٹھیں تو ٹھیک رہتے ہیں۔ سارا دن چھوٹے بڑے نوٹ اور ریزگاری گن گن کر انہیں جو راحت اور دلی خوشی ہوتی ہے اس سے رفتہ رفتہ تقدیر اور آسمان کا شکوہ جاتا رہتا ہے۔۔

اسد خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے زرا میرے پاؤں داب تو دے

جس طرح میڈیکل کے فریش گریجواٹس کی پہلی جانچ ہمیشہ گھر کے اندر سے شروع ہوتی ہے اور امتحان علم کے عارضہ میں مبتلا کوئی نہ کوئی بڑا بزرگ نو خیز ایم بی بی ایس کے سامنے اپنی زائدالمیعاد دواؤں والی پوٹلی کھول کر مشورے کا طلبگار ضرور ہوتا ہے، اسی طرح فیزیکلی تھراپی یعنی ورزش و مالش والے ڈاکٹر صاحبان کو بھی اس آزمائش میں سے گاہے گزرنا پڑتا ہے۔ اس شعر میں شاعر یعنی فریکل تھراپسٹ ڈاکٹر اسد صاحب اپنی دلی کیفیت بیان فرما رہے ہیں کہ کیسے گھر کے ایک فرد نے جب پہلی بارانہیں اپنے فن یعنی مالش کا جادو جگانے کا کہا تو انکے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مگر یہاں یہ وضاحت بھی کر دی کہ ہاتھوں پیروں کا یہ پھولنا خوشی کے سبب تھا نہ کہ گھبراہٹ کے سبب۔ تاکہ حاسدین و معاندین بلا وجہ فقرہ بازی نہ کریں ۔

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

شاعر کو مغالطہ ہواءہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر کوئی واقعی شہنشاہ یا بادشاہ ہو تو اسے کسی غریب کی زندگی خراب کرنے کے لئے کسی سہارے کی ضرورت کیسی ؟۔ اور اگر ہو تو وہ بادشاہ کیسا؟ اور ویسے بھی شاہ کو رعایا کی باہم عاشقی و معشوقی سے کیا کام؟ وہ انکا مذاق بھلا کیوں اڑانے لگا؟ پس یہ شعر اپنی ہیئت ، اپنی بنت اور مفہوم میں ہر لحاظ سے مہمل ہے۔ ہاں اگر یہ مان لیا جاۓ کہ یہاں شاعر کا اشارہ کسی اولی الامر کی طرف نہیں بلکہ نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے اہلیان فیصل آباد کو ٹاپ کلاس اور سستہ ناشتہ فراہم کرنے والے شہنشاہ مرغ چھولے والوں کی طرف ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یہ شعر اس زمانے کا ہے جب شاعر خود یا اسکا کوئی قریبی عزیز اس اوپن ائیر ڈھابے کا ملازم تھا اور مرغ چنوں کو ذائقے کی نئی بلندیوں تک پہنچانے والی ٹیم کا حصہ تھا۔ شاید یہیں کہیں کسی خوبرو کسٹمرکے ساتھ آنکھ مٹکا کرنے پر اسے دولت کے گھمنڈ میں مبتلا مالکوں کی طرف سے مذاق کا نشانہ بننا پڑا ۔۔ واللہ اعلم

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پہ نہیں آتی

شاعر جب نیا نیا کراچی سے فیصل آباد شفٹ ہواء تو اسے یہاں کی ہر بات ، ہر لطیفے ، ہر جگت پر بے آختیار ہنسی آتی تھی۔ جب کانوں میں “ بھیا” ، “ بھائی صاحب” اور بھائی میاں کی بجاۓ “ پائین “ ، “ ویرے” اور “ میرا بھرا” کی آواز آتی تھی تو اسے بہت عجیب مگر خوشگوار حیرت بھی ہوتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہی لطیفے یا جگتیں بار بار سن سن کے اب وہ پہلے والا تحیر اور خوشی نہیں ہوتی۔ کچھ عرصہ اس عظیم شہر میں رہ کر شاعر خود بھی جگتیں لگانے کا رسیا ہو چکا ہے۔ اب اسے ہنسنے سے زیادہ ہنسانے میں مزہ آتا ہے۔

نہیں ہے نامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Advertisements
julia rana solicitors

اس شعر میں علاقہ کے مشہور زمیندار رانا اقبال صاحب اپنے ڈیرے پر ساقی یعنی ٹھرا پلانے والے کو فرماتے ہیں کہ انہیں پوری امید ہے کہ امسال انہیں پانی مل گیا تو انکی زمین جو انتہائی زرخیز ہے ضرور سونا اگلے گی۔ تاہم اگر ایسا نہ ہواء تو انہیں زمین پر ئاؤسنگ سوسائٹی بنا کر کینیڈا جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply