مصنفین کی اقسام
(۱) مصنفین کی دو اقسام ہیں: ایک جو موضوع کی خاطر لکھتے ہیں، دوسرے وہ جو تحریر کی خاطر لکھتے ہیں۔
اوّل الذکر کے ہاں خیالات یا تجربات ہوتے ہیں جو ابلاغ میں مدد دیتے ہیں، جب کہ مؤخرالذکر کی ضرورت محض معاوضہ ہے کہ وہ پیسہ کمانے کی خاطر لکھتے ہیں۔ وہ لکھنے کے لیے سوچتے ہیں، اور ان کی پہچان خیالات کو ممکنہ حد تک طول دینے سے ہوتی ہے، ان خیالات کو حقیقت کے روپ میں پیش کرنے کے طریقے آدھے سچے، آدھے جھوٹے، اغلاط سے بھرپور ، زبردستی بنائے گئے اور بے ہودہ ہوتے ہیں۔ اپنی تحریر سے وہ جو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، درحقیقت وہ ویسے نہیں ہوتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر میں قطعیت اور صراحت کا فقدان ہوتا ہے۔ نتیجتاً یہ پہچان ہو جاتی ہے کہ وہ کاغذ کا پیٹ بھرنے کو لکھتے ہیں اور بہترین مصنفین کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے مثلا لیسنگ کے ‘ Dramaturgie’ (یہ لیسنگ کے ۱۰۱ مضامین تھے جنہوں نے ڈرامہ کی ہئیت طے کی -مترجم) یا ژاں پال ( یہ جرمن رومان نگار تھے)۔ جہاں ایسا تاثر ملے، کتاب کو وہیں پھینک دینا چاہیے کیونکہ آپکا وقت قیمتی ہے۔ کاغذ سیاہ کرنے والے مصنفین قاری کو دھوکا دے رہے ہیں کیونکہ ان کے لکھنے کا بہانہ یہ ہے کہ ان کے پاس قاری کو دینے کے لیے بہت کچھ موجود ہے مگر پیسے کے لیے لکھنا ادب سے دھوکادہی ہے۔
صرف وہ مصنف درست ہے جو مضمون اور موضوع کی خاطر لکھتا ہے۔ اگر ادب میں صرف چند ہی کتابیں بچیں جو بہترین ہوں تو کتنا فائدہ ہو گا؟ مگر افسوس ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک لکھنا معاوضہ کے لیے جاری رہے گا۔ یوں لگتا ہے کہ (لکھنے کا) معاوضہ وہ لعنت ہے جو اچھے لکھاری کو براہ راست برباد کر دیتا ہے۔ عظیم کام اس وقت ہوتے ہیں جب انہیں یا تو بِنا معاوضہ لکھنا ہو یا کم تنخواہ پر لکھا گیا ہو۔ ایک ہسپانوی کہاوت ہے، عزت اور پیسہ ایک ہی پرس میں ساتھ ساتھ نہیں رہا کرتے۔
جرمنی اور دوسرے ممالک میں آج کل کے ادب کی جو خستہ حالی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابیں دولت کمانے کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ ہر وہ شخص جو پیسے کا محتاج ہے بیٹھ کر کتاب لکھ رہا ہے اور عوام اس قدر بیوقوف ہے کہ وہ خرید بھی رہی ہے۔ اس کا ثانوی اثر زبان کی بربادی ہے۔
بُرے مصنفین کی ایک بڑی تعداد عوام کی اسی بیوقوفی سے اپنا (علمی) وجود مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے، جو صرف وہی کتاب پڑھنے کی خواہش مند ہے جو تازہ تازہ چھپی ہے۔ میں ان نام نہاد صحافیوں کا حوالہ دیتا ہوں، جو “دیہاڑی دار مزدور” ہوتے ہیں۔
پہلے وہ ہیں جو بِنا سوچے سمجھے لکھتے ہیں۔ یادداشت سے، روایات سے یا یہاں تک کہ دوسرے لوگوں کی کتابوں سے بھی براہ راست استفادہ کرتے ہیں۔ یہ طبقہ سب سے زیادہ ہے۔
دوسرے وہ مصنفین ہیں جو لکھتے وقت سوچتے ہیں۔ وہ لکھنے کے لیے سوچتے ہیں۔ اور وہ بے شمار ہیں۔
تیسرے نمبر پر وہ مصنفین ہیں جو لکھنا شروع کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ وہ صرف اس لیے لکھتے ہیں کہ انھوں نے کچھ سوچ رکھا ہے۔ اور یہ قسم نایاب ہیں.
دوسرے طبقے کے مصنفین، اپنی سوچ کو اس وقت تک ملتوی رکھتے ہیں جب تک لکھنا نہ شروع کریں، یہ ایسے کھلاڑی کی طرح ہیں جو بے ترتیب طور پر کھیلتا ہے، اس کی جیت کے امکان کم ہوتے ہیں۔ جب کہ تیسرے، نایاب طبقے کے مصنف کی تحریر، وہ کھیل ہے جس کی پہلے سے ہی گرفت کر لی گئی ہے ، جہاں سے جب خیالات کو آزاد کیا جائے گا تو یہاں اتنے زیادہ انکلوژر ہیں جہاں کسی کے پھنسے رہنے کا امکان ہی نہیں رہا۔ اس کھلاڑی کے پاس اب انتہا پر پہنچ جانے کے سوا کچھ نہیں بچا ، بس اپنے خیالات کو کاغذ پر رکھتا جائے کہ یہ وہ کھیل ہو گا جس سے کچھ حاصل ہوتا ہے۔
اگرچہ ان مصنفین کی تعداد جو واقعی اور سنجیدگی سے لکھنے سے قبل سوچتے ہیں پہلے ہی قلیل ہے، لیکن ان میں سے بھی ایک معمولی تعداد ہے جو صرف موضوع کے بارے میں سوچتی ہے۔ ان میں سے بھی باقی صرف اس موضوع پر پہلے لکھی گئی کتابوں کے بارے میں سوچتے ہیں، کہ اس پر دوسروں نے کیا کہا۔ میرا مطلب ہے سوچنے کے لیے بھی یہ دوسروں کی لکھی باتوں کے زیر اثر ہیں ، انہیں اپنی سوچ کے لیے بھی دوسروں کی کہی باتوں کی محتاجی چاہیے۔ چونکہ انہیں ہمیشہ دوسروں کے سائے تلے رہنا ہے، اسلیے یہ کبھی بھی اصل (اوریجنل) نہیں ہوں گے۔
ان کے برعکس، اصل لکھاریوں کو موضوع کے ذریعے ہی سوچنے پر ابھارا جاتا ہے۔ ان میں سے ہی ہمیں ایسے مصنفین ملتے ہیں جن کے نام امر ہو جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ میں یہاں ادب کی اعلیٰ شاخوں کے ادیبوں کی بات کر رہا ہوں، برانڈی کشید کرنے کے طریقہ کار پر لکھنے والوں کی نہیں۔
(شوپن ہاور کے مضامین سے اقتباس)
مترجم: احمرنعمان
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں