شوپنہار(2)-احمر نعمان

Vermin is the rule everywhere in the world
قابل مطالعہ مصنف اپنا مواد براہ راست اپنی سوچ اور فکر سے لیتا ہے۔ مرتب،تاریخی کتب کے مصنف، یا ان جیسے دیگر لکھاری اپنا مواد براہ راست دوسری کتب سے اخذ کرتے ہیں، یہ ان کی انگلیوں سے یوں گزر جاتا ہے جیسے کوئی ٹرانزٹ ڈیوٹی ادا کیے بغیر گزر جائے، اگر دماغ میں گیا بھی تو فکر کی چھلنی سے نہ گزرا، چنانچہ ان کی گفتگو اس قدر مبہم ہوتی ہے کہ قاری کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ مصنف کے ذہن تک رسائی نہیں ہو پاتی جو ممکن بھی نہیں کیونکہ جہاں سے انہوں نے نقل کیا، وہ یوں مبہم ہی لکھا گیا تھا۔ اس قماش کی تحریر کسی چہرے کے پلاسٹر کے نمونہ سے لیے گئے ایک اور پلاسٹر کے نمونہ کی طرح ہوتی ہے کہ نقل کی نقل سے بنا خاکہ Antinous کے چہرے کے عکس کی مانند مشکل سے پہچانا جا سکے۔ (یہ ہم جنس پرستی کی علامت ایک معروف خاکہ و مجسمہ ہے جو ایک رومی شہنشاہ کا بہادر ترک معشوق تھا، جو نہتے ہاتھوں شیر کا شکار کر چکا تھا، محض ۲۰ برس کی عمر میں پراسرار حالات میں موت واقع ہوئی، جس جگہ اس کی وفات ہوئی شہنشاہ نے اس کی یاد میں Antinoöpolis نامی شہر آباد کیا جو موجودہ مصر میں موجود ہے – مترجم)۔
تالیفات کو شاذو نادر ہی پڑھے جانا چاہیے ہر چند کہ ان سے مکمل اجتناب مشکل ہے جیسے کمپینڈیا (compendia )، میں ایک مختصر سی جگہ صدیوں کا علم جمع کیا جاتا ہے۔ (یہ بھی دیگر بہت سی اصطلاحات کی طرح چرچ سے آٗئی جہاں ڈکشنری کی طرح کسی موضوع پر ریکارڈ مجمتمع کیے جاتے تھے – مترجم)۔
اس سے بڑی غلطی بھی تصور نہیں کی جا سکتی کہ حالیہ لکھا گیا ہی ہمیشہ درست ہوگا۔ یہ متصور کرنا کہ جو بعد میں لکھا گیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو پہلے لکھا گیا تھا یا کہ تبدیلی ہمیشہ بہتری کے لیے ہوتی ہے غلط ہے۔ جو لوگ سوچتے ہیں اور فہم و فراست سے کام لیتے ہیں اور اپنے موضوعات سنجیدگی سے پیش کرتے ہیں، مستثنیات میں شامل ہیں۔ کیڑوں( (vermin کا زیادہ پایا جانا ہی دنیا کا عمومی اصول ہے؛ مفکرین ہمیشہ اپنی فکر وفراست سے ان میں بہتری لانے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
(اٹھارہویں صدی میں انسانی تاریخ میں پہلی بار یورپ جوؤیں، کھٹمل، چوہے اوراس قماش کے کیڑے مکوڑے اور جانوروں کو باقاعدہ ایک بحران مان کر ان سے چھٹکارا پانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر رہا تھا، دور کے اکثر لٹریچر میں ورمن کا لفظ انہی مفاہیم میں ملتا ہے، یعنی یہاں ان کیڑوں سے چھٹکارا پانے کے طریقوں میں بہتری لانا مراد ہے – مترجم)۔
انسان کبھی کسی موضوع یا مضمون میں بہتری لانے کا خواہشمند ہو تو اسے چاہیے کہ اس موضوع پر لکھی تازہ ترین کتب سے پرہیز کرےاور اس مغالطہ کا شکار نہ ہو کہ سائنس ہمیشہ ترقی کرتی ہے اور یہ کہ نئی تالیف شدہ کتب میں پرانی سے پھرپور استفادہ کیا گیا ہے، استفادہ یقینا ہوا ہو گا مگر اکثر مصنفین پرانی کتب کو درست سمجھ ہی نہیں پاتے اور وہ ان میں درج بہترباتوں کا مناسب استعمال نہیں کر پاتے بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ پہلے لکھی گئی بہتر بات بگاڑ دے کیونکہ اصل مصنف نے اپنی اصل سوچ سے لکھا ہو گا جسے یہ مرتب کرنے والا مصنف سمجھ ہی نہ پایا ہو اور عین ممکن ہے کہ اس میں صرف سطحی باتیں اور غلط مفہوم کو ہی سمجھنے کی اہلیت ہو۔
ایک پرانی اور بہترین کتاب کو اکثر ایک نئی اور بدتر کتاب کے آنے کے بعد دور کر دیا جاتا ہے وہ بھی ایسی نئی کتاب جو کہ معاوضے کے لالچ میں لکھی گئی ہے اور مصنفین کے دوستوں کی بے جا واہ واہ اور تعریف سے بھرپور ہے۔
سائنس میں ایک شخص جو خود کو ممتاز کرنا چاہتا ہے، اپنی پہچان بنانے کے لیے کچھ نیا کرنےکی کوشش کرتا ہے، ایسا اکثر وہ پرانے لکھےاصول کو جھٹلا کرثابت کرتا ہے تاکہ وہ ایک نیا (اور غلط) اصول پیش کر سکے۔ بسا اوقات ایسی کوشش محدود مدت کے لیے کامیاب بھی ہو جاتی ہے مگر جلد ہی پرانے اور درست اصول کی جانب واپسی ہو جاتی ہے۔ ایسی اختراعات کرنے والے ‘ان مول’ لوگ اپنے علاوہ دنیا میں کسی اور چیز کے لیے سنجدہ نہیں کہ وہ ہر قیمت پر اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں۔ عجلت میں تضاد نکال نکال کر پیش کرتے ہیں،مگر ان کی بانجھ فکر کسی آفاقی سچائی کی نفی کا راستہ اختیار کرتی ہیں مثال کے طور پر بشے/بچھت کا نروس سسٹم کو لے کر جذبات کے کام کرنے اور ان کی بنا پر ذہانت میں امتیاز کرنا۔ سائنس بعض اوقات رجعت پسند بھی ہو سکتی ہے۔
( معروف فلسفی بچھت bichat کے غیر متناسب نامیاتی زندگی اور متناسب حیوانی زندگی کے امتیاز اور ہم آہنگی پر ہیگل نے کافی تفصیل سے لکھا ہے- مترجم)۔
مصنفین کے اس طبقے میں وہ مترجم بھی شامل ہیں جو اپنے مصنف کا ترجمہ کرنے کے ساتھ نہ صرف اس کی تصحیح کرتے ہیں بلکہ اس میں ردوبدل بھی کرتے ہیں، جو مجھے ہمیشہ بے معنی معلوم ہوتا ہے۔ وہ کتابیں خود لکھیں جو اس قابل ہوں کہ ان کے تراجم ہو سکیں اور دوسرے لوگوں کی کتابوں کو ویسا ہی چھوڑ دیں۔
ممکن ہو تو، اصل مصنفین، موجد اور دریافت کرنے والے عظیم اساتذہ کو براہ راست پڑھنا چاہیے اور کسی نئی کتاب میں درج پرانا مواد پڑھنے کے بجائے استعمال شدہ پرانی کتاب خرید لیجیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply