شوپنہار(3) -احمر نعمان

طالب علم کو اپنے مضمون کی مبادیات پر مہارت ہو جانے کے بعد، اس علم میں نئی پیش رفت کے لیے خود کو وقف کرنا پڑے گا۔ یہاں بھی کلیہ یہی رہے گا کہ نئی شئی شاذونادر اچھی ہوتی ہے کہ اگر وہ اچھی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے ہی نئی ہے۔
خط کے لیے جو اہمیت پتے کی ہے وہی اہمیت کتاب کے لیے عنوان کی ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا بنیادی مقصد کتاب کو ان لوگوں کے پاس پہنچانا ہے جو اس کے مندرجات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کتاب کو (موضوع ) منکشف کرنا چاہیے جو مختصر بھی ہونا چاہیے، ممکن ہو تو ایک لفظ میں ہی مواد فراہم کرتا ہو۔ ایک عنوان برا، مبہم اورغلط یا گمراہ کن بھی ہو سکتا ہے اور پھر یہ کتاب کا وہی حشر کر سکتا ہے جیسا غلط پتے پر بھیجا خط ۔ عنوانات میں بدترین وہ ہیں جو مسروقہ ہیں۔ میرا مفہوم ہے جو پہلے ہی دوسری کتب کے تھے۔اس لحاظ سے مسروقہ تو وہ ہیں ہی دوسرا وہ مصنف کی نااہلیت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں۔ ایک شخص جو اپنی کتاب کے لیے ایک عنوان تک لکھنے کا اہل نہیں وہ نیا مواد کیا دینے کا اہل ہو گا؟ مسروقہ عنوانات ان کے مشابہ ہیں جہاں سے اخذ کیے گئے، مثلا میرے مقالہ On Will in Nature شائع ہونے کے کافی عرصہ بعد اورسٹڈ نے اپنی کتاب On Mind in Nature کے عنوان سے لکھی۔
ایک کتاب اپنے مصنف کے خیالات کے اثر سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔ اس کی قدر یا تو اس معاملے میں ہوگی جس بارے میں اس نے سوچا ہے، وہ فکر کرتا ہے یا اس کے خیالات جس شکل میں ہیں، دوسرے لفظوں میں، اس نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہے۔ فارم اور مواد
کتابوں کے مواد (matter ) کا معاملہ متنوع ہے، مواد سے میری مراد ہے ہر چیز جو حقیقی تجربہ کے دائرہ میں آتی ہے جیسے تاریخی حقائق، یا وسیع تر معنوں میں لیے گئے فطرتی حقائق، اس بات سے قطع نظر کہ کتاب کس نے لکھی، مواد کتاب کی شناخت ہے۔
فارم کے لحاظ سے کتاب کی شناخت لکھاری پر منحصر ہے، ممکن ہے ان معاملات کا حل پیش کرتی ہو جو ہر اک کے لیے قابل رسائی اور عام فہم ہوں، لیکن یہ وہ برتاؤ ہو گا جو لکھاری نے برتا، کتاب کی قدر اسی برتاؤ سے ہو گی۔ اس نقطہ نظر سے کوئی کتاب بہترین ہے تو اس کا مصنف بھی بہترین ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی لکھاری پڑھنے کے قابل ہے تو اس کی قابلیت اسی تناسب سے بڑھ جاتی ہے۔ یونان کے تین عظیم المیے، مثال کے طور پر، سب نے ایک ہی موضوع (subject-matter)پر کام کیا۔
اس لیے جب کسی کتاب کی شہرت ہوتی ہے تو اس بات کی تفریق رکھنی چاہیے کہ کہ آیا یہ اس کے فارم کی وجہ سے ہے یا اس کے مواد کی وجہ سے ہے۔
مواد کی بنا پر اہمیت کی حامل اور عمدہ کتب عموما عام لکھاریوں کی جانب سے آ سکتی ہیں۔ کہ مواد تک صرف انہی کی رسائی تھی، جیسے وہ، جنہوں نے دور دراز ممالک کا سفر کیا، نایاب قدرتی مناظر و مظاہر کا تجربہ کیا ۔ وہ تاریخی واقعات جن کے شاہد تھے، یا جن کے سلسلے میں انہوں نے اصل دستاویزات کی تحقیق اور مطالعہ میں زیادہ وقت صرف کیا۔
دوسری جانب دیکھیں، جہاں مواد سب کے لیے قابل رسائی ہے یا بہت معروف یا عام فہم ہے، وہاں اہمیت بنتر( (form فارم کی ہو گی۔ اور صرف ایک سمجھدار لکھاری ہی پڑھنے کے قابل کچھ لکھ سکے گا کیونکہ دوسرے وہ نہیں سوچ باتے جو وہ سوچ سکتا ہے۔ دیگر صرف وہی بیان کرپائیں گے جو سبھی جانتے ہیں۔
عوام کو بنتر(form) سے زیادہ مواد (matter) کی فکر رہتی ہے۔ جب شاعری کی بات آتی ہے تو عوام کی ترجیحات مضحکہ خیر انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ شاعر کی زندگی سے متعلق واقعات یا ذاتی معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں بنسبت اس کے کام کے۔ عوام اتنا وقت ضائع کرتے ہیں کہ شاعر کی زندگی کے ذاتی واقعات ، شاعر کی تخلیق اور کام سے آگے نکل جاتے ہیں۔ گوئٹے پڑھنے کے بجائے اس کے بارے میں جو لکھا گیا ہے، لوگ اسے پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فاسٹ نامی ڈرامے سے زیادہ فاسٹ کے افسانے کا مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور جب برجر Bürger اعلان کرتا ہے کہ کہ لوگ یہ انکشاف لکھیں گے کہ لیونورا کون تھی، ہمیں گوئٹے کے ضمن میں حرف بحرف پورا ہوتا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اب ہمارے پاس فوسٹ اور اس سے منسلک افسانے سے متعلق بہت سارے انکشافات ہیں۔ اس قسم کا مطالعہ صرف ڈرامہ کے مواد /میٹر کے لیے وقف ہے، یہاں فارم کی جگہ مواد کو ترجیح دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ایک عمدہ گلدان لے مگر اس کی خوبصورتی کی تعریف کے بجائے اس مٹی اور پینٹ کے کیمیائی تجزیہ میں لگ جائَے جس سے گلدان بنا تھا۔
استعمال شدہ مواد کے ذریعہ اثر پذیر ہونے کی ایک کوشش عوام میں یہ برا رحجان فروغ دیتی ہے، اس کی سب سے زیادہ مذمت ادب کے ان شعبوں میں کی جاتی ہے جہاں اہمیت فارم کی ہے۔ میرا مطلب یہاں شاعرانہ کام سے ہے۔ برے ڈرامہ نگار کی خانہ پری کرنے کی کوششیں اتفاقیہ نہیں ہوتیں، مثلا اس قسم کے مصنفین کسی بھی ایسے شخص کو سٹیج پر لانے سے نہیں ہچکچاتے جو کسی بھی حوالہ سے مشہور ہو چاہے اس کی زندگی میں کوئی ڈرامائی رنگ موجود ہی نہ ہو اور بعض اوقات تو انتظار کرتے ہیں کہ اس سے منسلک لوگ مر مرا ہی نہ جائیں۔
مواد اور فارم کے درمیان جس اہم فرق کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوں، وہ اہم خصوصیات جو انسان کو بہتربات چیت کے قابل بناتی ہیں وہ ہیں ذہانت، فہم و فراست، مزاح(wit) اور جوش: یہ بات چیت کی “فارم” فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جس موضوع پر وہ بات کرتا ہے، یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اس کا علم کتنا ہے۔ اگر وہ بہت کم ہےتو گفتگو کی کوئی وقعت نہیں ہوگی، جب تک وہ انتہائی غیر معمولی درجے میں مذکورہ بالا رسمی خصوصیات کا مالک نہ ہو۔ کیونکہ اس کے پاس بات کرنے کے لیے کچھ نہییں ہو گا سوائے زندگی اور فطرت کے ان حقائق کے جو ہر کوئی جانتا ہے۔ یہ بالکل برعکس ہوگا، کہ اگر کوئی شخص ان رسمی خوبیوں سے عاری ہے، لیکن اس کے پاس علم کی وہ مقدار ہے جو اس کی بات کو اہمیت دیتی ہے۔ پھر یہ قدر اس کی گفتگو کے معاملے پر پوری طرح منحصر ہوگی۔ کیونکہ، جیسا کہ ہسپانوی کہاوت ہے، mas sabe el necio en su casa, que el sabio en la Agena — ایک احمق اپنے کام کے بارے میں کہیں زیادہ جانتا ہے جتنا ایک عقلمند آدمی دوسروں کے (کاموں کے بارے) میں جانتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply