اسرائیلی آپریشن کے دوران 46000 افراد شہید ہوئے ۔غزہ میں حماس سے بیزاری بڑھی ہے لیکن الفتح کی حمایت زیادہ نہیں ہوئی ۔ فلسطینی عوام اب اسرائیل سے پہلے سے زیادہ شدید نفرت کرتے ہیں ۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر ، اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے حقوق کی سلبی جاری رہنے اور غزہ کی بحالی کے لیے تیزی اور بھاری رقوم فراہم نہ ہونے پر جارج حباش کی طرف سے سوشلسٹ فلسطین اور یاسر عرفات کے ترقی پسند لبرل سفر کے حماس کے انتہا پسند مذہبی نظریات تک پہنچنے تک کا عمل اب مزید انتہا پسندی کی طرف جا سکتا ہے ۔
‘مزاحمت کے محور ‘ کو شدید نقصان پہنچا ۔ حز ب اللہ لبنان کی سیاست میں بہت کمزور ہوئی -۔اسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا -،حما س کی عسکری صلاحیت تباہ ہو گئی ، ایران کو دفاعی انداز اختیار کرنا پڑا۔
حماس کی کمر ٹوٹ چکی ہے لیکن اس کے باوجود جنگ بندی کے معاہدے میں اس نے اپنی کئی شرائط منوائی ہیں ۔
عرب بہار کے بعد فلسطین مشرق وسطی کے ایجنڈے سے غائب ہونا شروع ہو گیا تھا ۔بحرین ، مراکش ، سوڈان، اور متحدہ عرب امارت ‘ابراہام اکارڈ ‘ میں فلسطین کے متعلق ضمانتوں کے بغیر اسرائیل سے تعلقات کی بحالی پر تیار ہو چکے تھے ۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد یہ ساری کوششیں پس منظر میں چلی گئیں اور مسئلہ فلسطین دوبارہ زندہ ہو گیا ۔
مشرق وسطی کی کئی حکومتوں مثلا ‘ ابراہام اکارڈ ‘ میں شامل اردن اور مراکش نے عوامی مزاج کو بھانپتے ہوئے اسرائیل سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کا تاثر دیا اور فلسطینیوں کے لیے امدادی اقدامات کیے ۔
افریقہ ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے عوام میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی ایک نئی لہر وجود میں آئی۔ وہ ملک جو خود نو آبادیاتی نظام کا شکار رہ چکے تھے ان کے عوام نے فلسطینیوں کی حالت کا اپنے ماضی کے ساتھ تعلق بنانا شروع کر دیا ۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیلی اقدامات کو اپنے نسل پرست ماضی کے ساتھ جوڑتے ہوئے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل کے خلاف کیس لڑا ۔
دنیا میں ‘یہودی مخالف ‘ جذبات میں اضافہ ہوا ۔ امریکہ میں جیوئش ایڈووکیسی گروپ نے دعوی کیا کہ حماس کی کاروائی کے دن 7 اکتوبر کے بعد صرف ایک مہینے میں امریکہ میں یہودیوں کے خلاف حملوں ، ہلڑ بازی اور ہراسگی کے 832 واقعات ہوئے ۔ مسلمانوں کے خلاف ایسی کاروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ۔ 15 جنوری 2025 کو شائع ہونے والے ‘ اینٹی ڈیفیمیشن لیگ ‘ کے سروے کے مطابق دنیا میں ‘ یہودی مخالف ‘ جذبات رکھنے والے بالغوں کی تعداد 2.2 بلین ( کل آبادی کا 46%) تک پہنچ چکی ہے ۔کویت میں یہ شرح 97% جبکہ انڈونیشیا میں 96% تھی – 2014 میں کیے گئے ایسے ہی ایک سروے کے بعد یہ تعداد دگنی ہوئی ہے ۔ اس سروے میں 103 ملکوں کے 58000 لوگوں نے حصّہ لیا ۔
دنیا میں ‘یہودی مخالف ‘ ہونے کو جرم سمجھنے پر اتفاق رائے میں کمی ہوئی اور ماہرین کی طرف یہ آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں کہ یہودیوں کے خلاف تاریخی تعصب کو جرم قرار دینے کو اب سیاسی مقاصد خصوصا اسرائیلی ریاست کی بربریت کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔اسی طرح ‘ ہولو کاسٹ ‘ کے متعلق نکتہ نظر میں بھی تبدیلی آئی۔جرمنی کے ایک سروے میں 27% لوگوں نے اسرائیلی اقدامات کو ہولو کاسٹ کے برابر قرار دیا لیکن ایسے لوگ جو یہودیوں کے اپنے اقدامات کو ہی ان کی ‘ پرسیکوشن’ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں 8% سے بڑھ کر 18% ہو گئے ۔
اسرائیل کے اندر اور باقی دنیا میں رہنے والے اسرائیلیوں کی نئی نسل میں ‘ صیہونیت’ کی مخالفت میں اضافہ ہوا ۔ نوجوان یہودیوں کے نزدیک ‘ صیہونیت ‘ کا نظریہ سماجی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے ۔اب اس نسل کے پہلے سے زیادہ لوگ فلسطینیوں اور ان کے حقوق کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔
اور ریاستوں نے بھی اسرائیل کی سرحدوں کے اندر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ۔ آئیر لینڈ اس حد تک گیا کہ اس نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے ‘ نسل کشی ‘ کی قانونی تعریف کو نرم کرنے کا مطالبہ کیآ تاکہ اسرائیل کو اس کے اقدامات کی سزا مل سکے ۔آخرکار اسرائیل نے ڈبلن سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا – سکالرز نے آئیر لینڈ کے رد عمل کو بھی برطانیہ کی ‘مقبوضہ قوم ‘ والے ماضی کے ساتھ جوڑا ۔
مغربی یونیورسٹیوں میں طلبہ نے کھل کر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ۔امریکی نوجوانوں کی فلسطین کی بڑھی ہوئی حمایت عرصے تک امریکی خارجہ پالیسی کے لیے ایک مسئلہ رہ سکتی ہے ۔
اس کنفلکٹ نے لبنان ، شام ، امریکہ ، بھارت ، جرمنی ، تیونس سمیت کئی ملکوں کی سیاست کو براہ راست متاثر کیا ۔صدر بائیدن کی بے عملی اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت نے امریکی بیوروکریسی اور خارجہ امور کے ماہرین میں بے چینی اور تقسیم کو جنم دیا ۔
مغربی ملکوں میں تارکین وطن کے اسرائیل مخالف مظاہروں نے ان کے میزبان معاشروں میں ضم نہ ہونے کے سوال نے نئے سرے سے سر اٹھانا شروع کیا –
‘جمہوری مغرب ‘ کی بین القوامی پالیسیوں کا دوہراپن عریاں ہوا ۔ ان ملکوں نے سرکاری طور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی توثیق کی جب کہ دوسرے کئی ملکوں میں وہ حکومتوں کے اس سے کہیں کم مظالم کی شدید مذمت کرتے ہیں – اس سے انٹرنیشنل لبرل نظام کی ساکھ کو بہت دھچکا پہنچا ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جو نئے ادارے اور معیار وجود میں آئے تھے اسرائیل کو استنا دینے کے بعد وہ ‘بے عمل ‘ اور ‘ بے بس ‘ ثابت ہوئے ۔
چین اور روس نے غزہ کی صورتحال سے فائدہ اٹھایا ۔ ‘یوکرین’ اور ‘ اسرائیل ‘ کو ایک جیسا قرار دینے کی امریکی پالیسی نے یوکرین پر روسی چڑھائی کے خلاف رد عمل کو پس منظر میں دھکیلا ۔ روس چین نے مشرق وسطی میں تعاون کی نئی راہیں تلاش کیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں