وہ نیچے پڑا سِسک رہا تھا۔ میں نے موٹی سی گالی بکی اور کہا دو چار اسٹروک کے بعد تم فارغ ہو گئے ہو،کہا ں گئی تمہاری مردانگی ۔ وہ خاموش زمین پر لیٹ گیا۔ میں نے اُس کا عضوِ تناسل ہاتھ میں پکڑ کر زور سےکھنچا۔وہ درد سے چیخ اُٹھا ۔ کہنے لگا: بس کرو،یار،مارو گی کیا۔ابھی توکچھ ہوا ہی نہیں اور تم رونے لگ گئے ہو۔ میں نے ابھی آرگیزم حاصل نہیں کیا۔ چلو،اِسے اُٹھاؤ،مجھے نہیں پتہ اسے اُٹھاؤ۔
وہ بے بس زمین پر لیٹا رہا۔موبائل سے پورن کلپ نکالا اور دیکھنے لگا۔میں نےکہا:یہ کیا کررہے ہو؟ کہنے لگا۔پورن کلپ سے عضو تناسل میں تناؤ پیدا ہوگا،اس کےبعد ہی کچھ ہو سکے گا۔ میں نےکہا: پورن کب سے دیکھ رہے ہو؟بچپن سے ۔واقعی۔جی ہاں۔ او،اچھا،اسی وجہ سے تمہارا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔
نہیں ،ایسی بات نہیں ہے،پورن کا میٹنگ سے کیا تعلق ہے۔بے وقوف! میٹنگ کا پورن ہی سے تو تعلق ہے۔ مجھے اگر پتہ ہوتا کہ تمہیں پورن دیکھنے کی لت پڑی ہے تو میں کسی اور سے اپنی ضرورت پوری کر لیتی۔ پورن کے ساتھ تم ماسٹر بیشن (مشت زنی) بھی کرتے ہو ۔ نہیں،ہاں،بٹ،کر لیتا ہوں،کبھی کبھار۔ چلو۔ ہٹو۔ تم سے کچھ نہیں ہونے والا، بیکار وقت ضائع کیا۔
یہ ایک کہانی ہے جو فرضی ہو سکتی ہے اور اصلی بھی ۔اس طرح کی دسیوں کہانیاں آپ نے سن رکھی ہوں گی۔بیسیوں کہانیوں میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کردار میں آپ بھی رول پلے کر چکے ہوں گے۔
پاکستان میں پورن کی لت میں مبتلا ہونے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں 95 فیصد ماسٹر بیشن یعنی مشت زنی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ عمل انھوں نے جز وقتی جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے شروع کیا تھا جو ناقابل ِ علاج مرض کی طرح ان کے جسم و ذہن میں سرائیت کر چکا ہے جس سے جان چھڑانا قربیاً ناممکن ہوچکا ہے۔
سائنس نے اس تصور کو ثابت کیا ہے کہ ذہن ایک اندھے کنویں کی طرح ہے جس میں کچھ بھی ڈالتے جائیں اسےکچھ فرق نہیں پڑتا ۔ دماغ کو اس بات سےکوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ یہ صرف سنگل کو فالو کرتا ہے اور جسم کے جملہ نظام کو ایک منطقی ترتیب سے منظم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آپ پورن دیکھ رہے ہیں،ماسٹر بیشن کر رہے ہیں،میٹنگ ( مباشرت) کے عمل سے گزر رہے ہیں یا کسی مر مریں جسم کے حصول کا تصور لیے یاسیت کے عالم میں سسک رہے ہیں۔ انسانی جسم کے خلیوں کو بس آرڈر فالو کرنا ہے جو نقصان دہ ہوسکتا ہے اور فائدہ مند بھی۔
اسے یوں سمجھیے ، آپ نے ایک پورن کلپ دیکھا ،ا س کےبعد بھول بھال گئے۔ دو ،چار دن کے بعد پھر سے کلپ دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔آپ نے خواہش کو جھٹک دیا اور بات ختم ہو گئی ۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ آپ نے اپنے دماغ کے کسی حصے میں پنپنے والے ” Dopamine” کے ” serotonin” کو موقع فراہم نہیں کیا کہ وہ پورن کلپ دیکھنے کے لیے اُکسائے۔
اگر آپ نے ایک بار ماسٹر بیشن کی ،اس کے بعد مصروفیت میں بات آئی گئی ہوگئی تو سمجھ لیجیے کہ آپ اندھی کھائی میں گرتے گرتے بچ گئے ہیں۔
اس کے برعکس اگر آپ نے مباشرت کے عمل سے خود کو ایک بار گزار لیا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ دوبارہ اس لذت کے لیے نہ تڑپیں۔ مباشرت کا عمل دو متضاد جنس کے حامل افراد کی باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے جسم سے جنسی تلذذ حاصل کرنے والا واحد پُرسکون اور ناقابلِ فراموش کیفیات کا عملِ لطیف ہوتا ہے جسے بار بار دُہرانے کی خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے خواہ اس کے لیے آپ کو کیلوں سے دیوار میں چُن دیا جائے یا اندھے کنویں میں اوندھا لٹکا دیا جائے ۔
مباشرت کے عمل کوایک طرف رکھتے ہوئےآج پورن ویڈیوز ،ماسٹر بیشن اور خود لذتی کے عمل سے نجات کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ انسان پورن ویڈیو زدیکھتا ہی کیوں ہے؟ اس کی بظاہر کئی وجوہات ہیں تاہم میرے نزدیک اہم وجوہات میں سے ایک نفسیاتی عوارض کا متنوع نظام ہے جس کے پس منظر میں کئی خانگی، معاشرتی اور جغرافیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب پورا یورپ پورن دیکھتا تھا۔ 1896 میں غالباً پہلی پورن مووی(le courcher de la mariee)منظر ِ عام پر آئی تھی جو ایک فرنچ erotic short film تھی جس کا دورانیہ 3 منٹ چھیالیس سیکنڈ تھا۔اس فلم میں محترمہ نے صرف کپڑوں کے تھان جسم سے اُتارے تھے دکھایا کچھ بھی نہیں تھا ، اس گونگی فلم میں محترمہ کی ننگی پنڈلیاں دیکھ کر لوگوں نے اس فلم کو سینکڑوں مرتبہ دیکھا تھا۔1899 میں(kiss in the tunnel) کےبعد1901 میں (body stocking) آئی ۔1920 میں خاموش فلمیں بننا شروع ہوئیں جنھیں stang films, blue films کہا جانے لگا۔ان فلموں میں پرائیوٹ پارٹس کے علاوہ عورت کا پورا جسم برہنہ دکھا یا گیا جسے دیکھ کر عوام پاگل ہوگئی۔
1950 میں home movies کا کلچر پروان چڑھا۔1960 میں یورپ اور یونائیٹڈ سٹیٹ میں 1961کے وسط میں lasse braun نے پورن مووی بنانےکی کوشش جس کا کچھ حصہ hardcore کی نمائشی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔امریکہ کے فلم ڈائر یکٹر Dores Wishman نے pornograhpcs کی سیریز آٹھ فلموں پر مشتمل بنائی جہاں سے یہ لفظporn بطور term استعمال ہونے لگا،انہی دنوں سیکس وڈیو کے لیے xxx کی اصطلاح بھی وجود میں آئی۔hideout in th sun,nude on the moon,dairy of a nudist فلموں کے نمائشی بینرز نے لوگوں میں جنسی اشتعال اس قدر بڑھا دیا کہ ہر جگہ پورن کا چرچا ہونے لگا۔1965 کے بعد پورن فلموں کی نمائش کے بعد حقِ نسواں کی تحریکیوں نے زور پکڑا۔دوسری طرف پورن فلموں کی مانگ نے ڈائریکٹر وں کو مجبورکیاکہ وہ سرکاری سرپرستی میں ان موویز کی سینسرشپ کو قانونی طور پر جائز ڈیکلئر کروا کے اسے باقاعدہ انڈسٹری کی شکل دیں۔
1969،70 کے دورمیں child pornography اورbestiality یعنی جانوروں کے ساتھ سیکس کا رجحان بھی زور پکڑنے لگا جس کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں تاہم اس کا کچھ نہ بنا اور 1970 میں سرکار بہادر یعنی یونائٹڈ سٹیٹ نے اس قماش کی فلمیں بنانےکی اجازت دے دی۔ 1980 تک ان فلموں کے خلا ف مزاحمت رہی لیکن رفتہ رفتہ کھل کر یہ فلمیں بنائی جانے لگیں حتی کہ تھیٹر میں اس کی براہ براست ناظرین کے سامنے نمائش تک کی جانے لگی۔
1980 کے بعد یورپی ممالک میں نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے یہ کام نہایت آسان ہوگیا۔ 1990 تک باقاعدہ پورنوگرافی تھیڑیکل انڈسٹری کو پچھاڑ کر آگے بڑھ چکا تھا۔ جس طرح آج پاکستانی پورن دیکھ رہے ہیں اسی طرح 1990 کی دہائی میں یورپی ممالک میں پورن دیکھا جاتا تھا۔ 2000 کے بعد دُنیا کے رجحانات میں بدلاؤ آیا اور اسے غیر قانونی قرار دیئے جانے کے خلاف مزاحمت نے زور پکڑا۔
سینکڑوں فلم ساز کمپنیوں کے لائسنز معطل کیے گئے۔ پورن ایکٹر کو گرفتار کیا گیا اور ہزاروں پورن وڈیوز کو جلایا گیا لیکن یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔ یورپی ممالک میں آج پورن انڈسٹری موجود ہونےکے باوجود پہلے کی طرح فعال نہیں ہے لیکن اس کا زیادہ تر رجحان انٹر نیٹ کی آمد سے مشرقی ممالک میں پھیل گیا ہے جسے روکنا اب قریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
پورن انڈسٹری کو باقاعدہ فعال کرنےمیں انہی یورپی ممالک کا ہاتھ ہے جنہوں نے اپنی نسلوں کو تباہ کرنے کے بعد اس کا دھارا مشرقی ممالک کی طرف موڑ رکھا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسے نہایت احتیاط کے ساتھ محفوظ ماحو ل میں وی سی آر،وی سی پی وغیرہ کے ذریعے دیکھا جاتا تھا ۔ اس کےبعد موبائل کی آمد نے اس محفوظ ماحول کےبیانیے کو پاش پاش کر ڈالا۔
پاکستان میں موبائل فون میں 2003 کے بعد انٹرنیٹ کی MB سپیڈ کے بعد پورن ویڈیو کو بلیک کیسٹ سے “امیجزنگ وڈیو ز”میں منتقل کیا گیا۔اس کی MP4 ویڈیو “کمپرسڈ سائز” میں بنا کر رنگ ٹون کی شکل میں موبائل میں انسرٹ کرکے دیکھے جانے سے اس عمل میں اتنی شدت آئی کہ پاکستان میں دیکھتے ہی دیکھتے پور ن انڈسٹری راتوں رات شہرت کے آسمان پر جا پہنچی۔
پاکستان میں پورن مووی کی مانگ 2003 کے بعد اُس وقت بڑھی جب نوکیا موبائل کے ساتھ سیم سنگ وغیرہ نے اپنے ماڈل لانچ کیے۔ان موبائل کا مسئلہ یہ تھا کہ اسٹوریج سپیس کم ہونے کی وجہ سے پورن کلپ میموری کارڈ میں رکھ کر دیکھے جاسکتے تھے۔ یہاں سے “ٹوٹے” یعنی porn clip کی اصطلاح نے جنم لیا جو ہنوز ہمارے ہاں مستعمل ہے۔
“ٹوٹے” سے مراد پورن وڈیوز کے اہم ترین حصّے یعنی “فکنگ کی اسٹروکنگ پوزیشن” مراد ہے جو پانچ سیکنڈ سے پندرہ سیکنڈ تک ہوتا ہے ،اس کلپ کو دیکھنے سے انسانی جسم میں ایسے تغیرات رونما ہوتے ہیں جیسے کسی مضبوط دیوارکو بنیاد سے پکڑ کر پوری طرح ہلا دیا جائے جس سے اس دیوار میں شدید کپکپاہٹ سے رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔
پورن کلپ کے ان ٹوٹوں نے عوام الناس کو مجبور کیا کہ وہ برانڈنڈ کمپنیز کے موبائل خریدیں اور ان ٹوٹوں سے لطف اندوز ہوں۔ 2005,6 میں چائنہ موبائل نے نوکیا،سی مسنگ،مٹرولا وغیرہ کمپنیز کی واٹ لگا دی۔
ان ماڈلز کے مقابلے میں بلند آواز اور بڑی سکرین والے ماڈل پاکستان میں خصوصی طور پر لانچ کیے جس میں پانچ منٹ سے لے کر تیس منٹ تک کی پورن وڈیو محفوظ کی جاسکتی تھیں۔اب وی سی آر پر ڈرتے ڈرتے پورن دیکھنے اور پکڑے جانے پر کیسٹس کو چھپانےکی اذیت سے نجات مل گئی تھی کہ کانوں کان کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ رضائی میں چھپا بندہ کیا دیکھ رہا ہے اور ہاتھ کہاں سرکتا چلا جاتا ہے۔
ہمارے ہمسائے میں ایک صاحب رہتے تھے جو اکلوتے بیٹے ہونےکی وجہ سے اوائل جوانی میں خراب ہو گئے تھے۔ ان کی مربع زمین تھی جو نہایت زرخیز ہونے کی وجہ سے علاقے بھرمیں مشہور تھی۔ زمین کی شہرت کم اور ان صاحب کی شہرت زیادہ تھی۔ یہ صاحب ہر سال ایک ایکڑ فروخت کرکے پیسے کھانے پینے اور جسم فروش عورتوں سے جنسی خواہش کی تسکین میں بے دریغ خرچ کر ڈالتے۔
میں نے ان کی شہرت سُن رکھی تھی۔ انھوں نے 2001 میں جاز کی0300 والی سم خریدی اور نوکیا کا موبائل خریدا۔ پورے گاؤں میں پہلا موبائل ان صاحب کے پاس تھا۔ موبائل کو ایک نظر دیکھنے کی حسرت گاؤں بھر کے نوجوانوں کو ہوتی تھی۔ جیسے جیسے موبائل کے نئے ماڈلز آتے گئے،یہ صاحب خریدتے چلے گئے۔
2004 میں انھوں نے ایک چائنہ کمپنی کا موبائل خریدا جس میں میموری کارڈ بھی ڈلتا تھا۔ میں ان کے ساتھ شہر گیا، یہ صاحب کئی دکانوں میں گئے ۔جانے کیا پوچھتے تھے اور کیا لینا چاہتے تھے۔ پچاس دکانوں میں دخول و خروج کے بعد ایک دُکان کے تہہ خانے میں چلے گئے ،وہاں کمپیو ٹر پر بیٹھے ایک شخص نے انھیں اشارے سے کچھ بتلایا اور وہ موبائل ان کے حوالے کر کے بیٹھ گئے۔
ایک گھنٹہ ہم خاموش بیٹھے رہے۔ اس کے بعد دکاندار نے موبائل دے دیا۔ انھوں نے موبائل آن کر کے کچھ دیکھا جس سے ان کے چہرے پر بشاشت آگئی ۔ کہنے لگے:چلو ،کام ہو گیا ہے۔ ہم گاؤں آگئے، میں نے راستے میں پوچھا۔ آپ اتنی دیر دکان میں بیٹھے رہے، موبائل میں کیا بھروایا ہے،کوئی نئی فلم رکھوائی ہے یا نئے انڈین گانے۔
کہنے لگے:تم ابھی بچے ہو، چھوڑو، میں نے کہا ،بتاؤ تو سہی۔ گاؤں آکر انھوں نے گھر کے عقب میں تعمیر پرانی چوپال کا درازہ کھولا۔مجھ سے کہا، یہاں بیٹھو،میں چائے بنانے کا انتظام کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد چائے کا سامان لا کر چوپال کی دائیں دیوار کے ساتھ بنے چولہے پر رکھا۔آگ جلائی اور کیتلی چولہے پر رکھ دی۔ موبائل جیب سے نکالا اور دو منٹ بعد ایک مووی چلا دی۔آواز بند رکھی اور موبائل میرے ہاتھ میں دے دیا۔
پورن مووی کی پہلی جھلک دیکھ کر میرے تو ہوش اُڑ گئے ۔ خوبصورت انگریز عورت کا تھرکتا ہوا ننگا جسم دیکھ کر میر اعضو تناسل اکڑ کر کھمبا بن گیا۔میں گھبرایا ، عضو تناسل کو شلوار کے نالے کی گرفت میں دے کر زور سے نالے کو ٹائٹ کر دیا کہ یہ بت میز کہیں نیچے ڈھلک کر کھمبا نہ بن جائے ۔
ایک ،دو مرتبہ وی سی آر پر میں پورن وڈیو دیکھ چکا تھا لیکن اس وقت کچھ سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا چیز ہے اور مجھےکیوں دکھائی جارہی ہے۔ اب کی بار بقائمی ہوش و حواس ہاتھ میں موبائل لے کے اتنے قریب سے برہنہ جسموں کو دیکھ کر حیرت و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ دو،تین منٹ بعد اُن صاحب نے موبائل میرے ہاتھ سے لیا اور کہا کہ اب گھر جاؤ اور کسی کو بتا نا نہیں ۔
ایسی کمال کی چیز بھلا چھپائی جاسکتی ہے۔ اگلے دن محلے بھر کے دوستوں سمیت اُن صاحب کے گھر کا محاصرہ کر لیا ۔ہمیں دیکھ کر وہ تھوڑا گھبرا یا،مجھے دیکھ کر گالی بکی اور کہا کہ دفع ہو جاؤ۔رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ پورا گاؤں یہ سب جانتا ہےجس کے بارے میں ہم چھپ چھپ کرایک دوسرے کو بتاتے تھے۔
اس واقعہ کے بعد جس دوست،یار سے پوچھا کہ تم نے اس طرح کی وڈیو دیکھی ہے ،سبھی نےکمال شوق سے بتلا یا کہ ہاں جی دیکھی ہے۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں نے ہی سب سے دیر میں کیوں دیکھی ،یہ لوگ تو مجھ پر سبقت لے چکے ہیں۔ اس کےبعد ہوا یہ کہ ہر وقت اس صاحب کے گھر کے چکر کاٹتے رہتے کہ کب یہ بندہ اکیلے میں ملے اورہم آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔
ہولے ہولے ہوا یہ کہ سال بھر میں گاؤں کے نوجوانوں کے پاس موبائل فون موجود تھے ،کسی نے چوری کرکے لیا،کسی نے بکرے چھترے بیچ کر خریدا،کسی نے حویلی سے گندم چوری کروا کے خریدا ،اور کسی نے ماؤں بہنوں کے دوپٹوں سے پیسے چُرا کر خریدا۔ ہم ٹھہرے ایک مفلس و قناعت پسند شخص کے چشم و چراغ ۔اس لیے کئی سال اس نعمت سے محرو م رہنا پڑا۔
موبائل فون بُری چیز نہیں ہے ،اس کا استعمال بھی بُرا نہیں ہے لیکن جس انداز میں اس نئی ٹیکنالوجی کا تعارف ہمیں کروایا گیا وہ نہایت مضر اور ضر رساں ثابت ہوا۔ موبائل فون پر کال کرنے اور دوست و احباب سے رابطے میں رہنے کا رجحان و احساس تو بہت بعد میں پید اہونا شروع ہوا۔
انٹر نیٹ پر براہ راست بغیر کسی رکاوٹ کے پورن سائٹ سے پورن وڈیوز دیکھنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ دوستوں میں جس چیز کامقابلہ ہوا کرتا تھا وہ یہی کہ کس ویب سائٹ سے ٹوٹے مل سکتے ہیں اور کس ویب سائٹ سے نئی پورن وڈیو ڈاؤنلوڈکی جاسکتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ موبائل ٹیکنالوجی کی دریافت و آمد صرف پورن انڈسٹری کی یلغار کو مستحکم کرنے کے لیے لائی گئی تھی ۔
ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر ہے ، تاہم نوجوان نسل نے اس ٹیکنالوجی کو زیادہ تر جنسی تلذذ کے حصول کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ ایک موبائل خریدنے کےبعد دوسرا لینے کی ضرورت کیو ں محسوس ہوتی رہی ،اس کی وجہ کچھ بھی ،مقصد انٹرین ہونا تھا۔
جن بازاروں میں کتابوں کے اسٹال تھے، وہاں کمپیوٹر کی مارکیٹیں بن گئیں ،پھر ایک وقت آیا جہاں کمپیوٹر فروخت ہوتے تھے وہاں موبائل فون کی مارکیٹیں بن گئیں اور اب وہ دور ہے کہ ہر جگہ موبائل فون کی خرید و فروخت ہو نے لگی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق 85 فیصد نوجوان محض ایک نئے فیچر کی وجہ سے موبائل کا ماڈل تبدیل کر لیتے ہیں۔
اس کامطلب یہ کہ ایک پینٹ خرید کر دو،چار ہفتے پہنی جاسکتی ہے لیکن موبائل خرید کر دو ہفتے نہیں رکھا جاسکتا۔ 2012 سے 2020 کے درمیان دُنیا بھر میں پورن سائٹ کی سرچنگ کو سب سے زیادہ واچ کیا گیا۔ سب سے زیادہ واچ کرنے والے ممالک میں مشرقی ممالک کی شمولیت رہی۔ 2010 تک یہ رجحان مغربی ممالک میں زیادہ تھا ۔ 4 جی کی آمد سے پورن سائٹس کی سرچنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
2013 کے اواخر تک” وٹس ایپ” پاکستان میں تیزی سے وائرل ہو رہا تھا۔2015 اور 2016 میں وٹپ ایپ کے استعمال سے زندگی میں جہاں آسانیاں آئیں وہاں اس ایپ کی وجہ سے ٹوٹوں کی شئیرنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اب سرچنگ کی ضرورت نہ رہی ، وٹس ایپ گروپ میں روزانہ نئے ٹوٹے شئیر کیے جاتے تھے اورکمال شوق سے دیکھے جاتے تھے۔یہ سلسلہ ہنوز جازی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا دور تھا۔ میں نے 2004 میں میٹرک کے بعد کمپیوٹر کا شارٹ کورس کیا تھا، اس کے بعد گاؤں بھرمیں نوجوان لڑکے لڑکیوں کو کمپیوٹر پڑھاتا رہا۔ گاؤں میں ایک کمپیوٹر کی آمد سے اگلے سال پچاس کمپیوٹر میرےپڑھائے ہوئے شاگروں کے گھر آگئے۔
ان کمپیوٹر کی ونڈو 98 میں خود گھر گھرجاکر کیا کرتا تھا۔xpونڈو آنے کی وجہ سے 98 ونڈو سے جان چھوٹ گئی کیوں کہ xp میں آڈیو،وڈیو کارڈ کے ڈرائیور انسٹال نہیں کرنا پڑتے تھے۔ اس تجربے سے میں کئی بازگزرا کہ کسی شاگرد کی ونڈو ،اُڑ گئی اور وہ میرے دروازے پر دستک دے دے کر جینا حرام کر رہا ہے۔
ونڈو انسٹال کرتے ہوئے بڑی لجالجت سے بلکتے ہوئے مجھےکہتا ہے سر ،جی،!ڈی ڈرائیو کو نہیں چھیڑنا اور پارٹیشن بھی نہیں کر نی ایسے ہی کچھ جگاڑ لگا کر اسے ٹھیک کر دو۔میں ایکسٹرنل ہار ڈ لگا کر ڈی ڈرائیو کا ڈیٹا نہایت چالاکی سے اپنی ہارڈ ڈسک پر کاپی کر لیتا اور اس کی ونڈو سی ڈرائیو
میں کر دیتا۔
گھر آکر ڈی ڈرائیو کی فائلزکو جب کھول کر دیکھتا تو فولڈر کے فولڈر پورن وڈیوز اور انڈین مووی سے بھرے ہوتے ۔مزے کی بات یہ کہ فولڈر کا نام ایسا ہوتاکہ جسے پڑھ کر یوں لگتا جیسے اس میں کوئی مقدس مواد موجود ہے۔ یہ تجربہ ایک مولوی صاحب کے کمپیوٹر کی ونڈو کرنے کے دوران ہوا ،ایک دو مرتبہ تو سکول کے سیکنڈ ماسٹر کے کمپیوٹر میں بھی یہی کچھ دیکھنے کوملا۔
جب سے شعور سنبھالا ہے پور نو گرافی کے ماحول کو ارد گرد وائرل دیکھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر کی طرح میں خود بھی اس لت میں مبتلا رہا۔ اسی ماحول میں ایم اے پاس کر لیا۔ شہر لاہور آنے کے بعد ان معاملات سے جان چھوٹی ، ملازمت کی تلاش اور مزید تعلیم کے حصول میں ذہنی طور پر ایسا الجھا کہ پلٹ کر اس دُنیا میں قدم نہیں رکھنےکا موقع نہ ملا۔
اس مفصل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی مڈل کلاس کی معاشرت میں پورنو گرافی اور ماسٹر بیشن ایسی رچی بسی ہیں کہ انھیں کسی صورت اس معاشرت سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ میں ذاتی طور پر اسی معاشرت کا حصہ ہوں۔ مذکور تجربات کا میں شاہد ضرور ہوں لیکن شعوری طور پر اس فعل میں مبتلا ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ جبراً یہ لت مجھ پر نافذ کی گئی ۔
چونکہ طبیعت میں شروع سے حساسیت تھی اسی لیے کچھ بھی دیکھتا تھا تو بہت گہرائی سے اس کے اثر کو محسوس کیا کرتا تھا۔ برس ہا برس کے تجزئیے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی معاشرت اپنے تنزل کی آخری سیڑھی پر لڑھک رہی ہے۔ بہت جلد یہ معاشرہ اپنی موت آپ مرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے بعدہر وہ قباحت جو پہلی دُنیا کے باسی ترک کر چکے ہیں وہ ہمارے ہاں ٹرینڈ بن کر وائرل ہو رہی ہے۔
جنسی خواہش کی تسکین کوئی بُری چیز نہیں ہے ،یہ انسانی جسم کا بنیادی حق ہے جو اسے ہر صور ت ملنا چاہیے ۔مسئلہ یہ ہےکہ سیکس ایجوکیشن کی باقاعدہ تعلیم کے بغیر ہمارے بچے بُری طرح اخلاقی،جسمانی،ذہنی،دماغی،قلبی ،معاشرتی اور خانگی حوالے سے بے راہ روی شکار ہو رہے ہیں۔ شادی سے پہلے ان کی جوانیاں واش روم کے گٹر میں بہہ رہی ہیں۔ انھیں کوئی سمجھانے کو تیار نہیں کہ پورنو گرافی ،ماسٹر بیشن اور چیٹ سیکس وغیرہ کے کیا نقصانات ہیں۔
میں نے سینکڑوں باپ اور مائیں ایسی دیکھی ہیں جو خود اس لت میں مبتلا ر ہے اس کے باوجود آنکھیں بند کر کے اپنی اُولاد کو اس مرض کا لاحق ہونے سے بچانے کی فکر سے بے نیاز ہیں۔ اس المیے کی بنیادی وجہ ان باپ اور ماؤں کو ا سیکس ایجوکیشن کا شعور نہ ہوناہے۔
ایک باپ جو خود جوانی میں ان حرکات وسکنات میں مبتلا رہا ہے وہ اپنے بیٹے کو پاس بٹھا کر یہ بتا سکتا ہے کہ بیٹا! بات یہ ہے کہ آپ اپنے دوستوں میں اُٹھتے بیٹھے ہیں، آپ کو سیکس کے بارے میں بتایا جاتا ہے،آپ نے پورن وڈیوز بھی دیکھی ہوں گی،آپ نے ماسٹر بیشن کرنےکی کوشش بھی کی ہو گی یا کرو گے۔ میں چاہتا ہوں ، بہ حیثیت باپ تمہیں یہ بتا دوں کہ یہ سب غیر ضروری اور انتہائی نقصان دہ ہے۔
عمر کے ایک خا ص حصے میں اس خواہش کی شدید ضرورت پیدا ہوتی ہے ۔یہی وہ ،وقت ہے جب تمہاری سار ی توجہ اپنی پڑھائی اور زندگی کے مقصد پر صرف ہونی چاہیے۔ اگر تم ان حرکات و سکنات میں پڑ جاؤ گے تو اپنی صحت تو تباہ کرو گے ،ساتھ اپنا مستقبل بھی تباہ کر لو۔ میں نہیں چاہتا کہ تم میری طرح اپنی جوانی کو مذموم حرکات میں ضائع کردو۔
جب میں جوان تھا تو مجھے کوئی سمجھانے والا نہ تھا۔آج تم جوان ہو ۔اس لیے میں تمہیں سمجھا رہا ہوں تاکہ تم میری طرح ایک کمزور انسان کی حیثیت سے زندگی کی اصل خوشیوں سے محروم نہ ہو جاؤ۔ جنس کی خواہش اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں رکھی ہے ۔ یہ اس کی فطرت کا حصہ ہے جسے پورا کرنا ضرور ی ہے لیکن ہمارے معاشرے اور دین میں اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے ۔جب تم اس لائق ہو جاؤگے تو میں خود تمہارے لیے حلال اور جائز طریقے سے جنسی خواہش کی تسکین کا سامان مہیا کردوں گا۔
باپ کی طرح یہی دوستانہ نصیحت ایک ماں شباب کی سیڑھیاں چڑھتی بیٹی کو باتوں باتوں میں سمجھا دے تو کافی حد تک ہمارے بچے پورنائزڈ ہو کر ماسٹر بیٹر بننے سے بچ جائیں گے۔ حکومتی سطح پر سیکس ایجوکیشن کے بارے میں کہیں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کو اس بات کی فکر ہے کہ ہماری کُرسی بچی رہی ۔
نفانفسی کے اس عالم میں بہ حیثیت ماں باپ ، اور معلم ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں تاکہ اپنے اندر کے گلٹ سے نکل سکیں اور مطمئن ہو کر اپنی اُولاد کو مذکور نفسانی خواہشات و بیرونی آلام سے بچا سکیں۔ کوشش کیجی میں جانتا ہوں۔یہ ایک نہایت مشکل کام ہے۔ اُولاد کے سامنے یا طالب علموں کے سامنے اس با ت کا اعتراف کرنا کہ میں پورن دیکھتا رہا ہوں اور ماسٹر بیشن بھی کرتا رہا ہوں۔ یہ اعتراف بہت رسکی ہوسکتا ہے۔ رسک لیے بغیر کھائی میں گرتے ہوئے انسان کو بچایا بھی نہیں جا سکتا۔ آج یہ رسک راز بن کر آپ کی اُولاد تک محدود رہ رہ سکتا ہے لیکن کل کو اگر اُولاد نامرد،بے حس،بے مرورت اور دغا باز ہوگئی تو پھر سر پیٹنے اور ماتم کرنے سے سوائے پچھتاوے کے کیا ملے گا۔
یاد رکھیے۔شرما شرمی میں اگر آپ نے اپنی اُولاد کو “اوورلک” کیے رکھا اور نظر انداز کرنے کے رویے کو اپنائے رکھا تو پھر اپنی اُولاد سے بڑھاپے میں سہارے کی اُمید مت کیجیے گا ۔یہ نسل وفاداری بشرط اسُتواری کی قائل نہیں ہے ۔یہ قربانی کے لفظ سے ناآشنا ہے،یہ ہمدردی سے بے نیاز ہے، یہ سہارے سے بیزار ہے۔ یہ اپنے آپ سے تنگ ہے۔ یہ اپنے آپ کو مار کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ان کے اپنے اتنےمسائل ہیں کہ جن کا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک لائنحل قوم ہے۔یہ اینڈرائڈ جنریشن اپنی سوچ و عادات کی فرسٹیشن سے اس قدر عاجز آچکی ہے کہ کو باپ ،ماں،اُستاد،بڑا بھائی بہن،ناصح وہمدرد بن کر کوڑا مارنے والا ذلیل ہو کر رہ جائے گا۔ وقت کی نزاکت اور معاشرت کی تنزل کو نگاہ میں رکھتےہوئے کوشش کیجیے،آگے بڑھئیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں