رابرٹ روز سے ملیے(1)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

عرف Rob، ماسکو سے میرا یار ہے۔ میں اسے کریزی راب کہتا ہوں۔Enron میں سافٹ ویئر سپیشلسٹ تھا، جب وہ گری تو اپنے دو لاکھ ڈالر تکیے کے غلاف میں ڈالے، ہینڈ کیری میں پکڑے ماسکو پہنچا۔

سنٹر میں تین اپارٹمنٹ خرید لیے۔ یورپی مرمت کرا کے دو کرائے پہ چڑھا دیے۔ ایک میں رہنے لگا، کتابیں ہی کتابیں، شرابیں ہی شرابیں۔ کتابیں پڑھنے کو، شرابیں کلیکشن، دیکھنے کو اور کبھی کبھار چرکی لگانے کو۔

کرائے کے ڈیڑھ دو ہزار ڈالر ماہانہ ملنے لگے جو تب روس میں بہت تھے چنانچہ موصوف نے انگریزی میں پڑھائے جانے والی میڈیکل میں داخلہ لے لیا، اگرچہ آتے ہی روسی کورس کر چکا تھا، امریکی لہجہ میں درست گرامر کے ساتھ روسی بولتا، میری طرح روسی زبان کی ٹانگ نہیں توڑتا تھا۔

کریزی راب اب ایم ڈی ڈاکٹر بن گیا۔ میڈیکل کی کتابیں چاٹ گیا۔ نہ سروس کی نہ پریکٹس۔ اس اثنا میں ہزاروں ڈالر میں خریدے فلیٹ لاکھوں ڈالر کے ہو گئے۔

موصوف کے والد کو نسیان ہو گیا۔ یہ ساؤتھ کیرولینا میں جا کر باپ کی زمین پر زمیندار بن گیا۔ ایک بڑا جنگل بھی اسی کا تھا۔

باپ مر گیا تو کچھ زمین بیچ، پیسے ساتھ لے تھائی لینڈ پہنچ گیا۔ وہاں بھی دو تین گھر خرید لیے۔ ایک میں رہتا ہے باقی کرائے پر۔

امریکا مخالف ہے۔ ابھی پانچ روز کے لیے ہو کے لوٹا تو امریکا کا ذکر ایسے کر رہا تھا جیسے افریقہ کے کسی پس ماندہ ملک کا ذکر کر رہا ہو۔

کریزی راب اپنے طور کا ایک زبردست انٹیلیکچوول ہے، جس کا میں پندرہ سال پہلے اخباروں کے لیے لکھے گئے مضامین میں حوالہ دیتا رہا۔

دس سال بعد پھر دریافت ہوا ہے تو اس کی باتیں آپ بھی پڑھیں۔۔

رابرٹ روز کا پہلا خط

میں ان گرمیوں میں ماسکو جانا چاہتا ہوں تاکہ ایسی عورت ڈھونڈوں جس نے ویکسین نہ لگوائی ہو۔

میں نے کبھی ویکسین نہیں لگوائی۔

یہاں تھائی لینڈ میں 105% ویکسینیٹڈ ہیں۔

میں نے لوگوں کو بے ہوش ہو کے گرتے دیکھا ہے، تیس کے پیٹے میں ایک عورت ریل گاڑی میں کھڑے کھڑے گری اور مردہ ہو گئی۔

میں اپنا بن ویکسین نطفہ کسی اچھے کام لانا چاہتا ہوں۔

پاکستان ایک دلچسپ جگہ ہے، میں تاریخ، فلسفہ اور وابستہ علوم کا مطالعہ کر رہا ہوں۔

تھائی لینڈ سرکاری طور پر بدھ مت ہے۔ ان علوم میں ایک برطانوی پروہت کی رہبری میں اس نوع کی فیلوشپ ہوتی ہے۔

میرا خیال ہے میں عملی طور پر بدھ مت کا پیرو کار ہوں۔

تاریخی طور پر شمال ہندوستان کے ارد گرد کا علاقہ جہاں بدھ مت ایسا ہوا جیسا آج کل ہے۔

بدھ مت کم و بیش گہرے طور پر یونانی تعلیم پر مبنی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہے ہی یونانی فکر جو یونانی فلسفہ سے ابھری۔

کیا تم نے کبھی ، جسے آج کل پنجاب کہتے ہیں وہاں ہند یونان بادشاہت بارے سنا ہے ؟ یا شمال میں یونان باختر بادشاہت سے متعلق؟

بہ ظاہر کمبوج لوگ آج بھی ہیں وہاں، کبھی ان سے متعلق سنا؟

لگتا ہے وہ ہیلنیائے ( یونانیائے ) ہندوستانی ہیں ، وہی بیشتر ثقافت کو جنوب مشرقی ایشیا میں لے گئے تھے۔

مجھے معلوم نہیں کہ یہ تمہارے لیے خاص طور پر موجب دلچسپی ہے بھی؟

کچھ روز پیشتر ہی امریکا میں تھا، پانچ روز کے لیے۔ منگل کو لوٹا ہوں۔

آخ!

زمین پہ مکمل جہنم۔

بے گھر، بوکھلائے ہوئے لوگ گھوم رہے ہیں۔ گندگی تھی، بدصورتی تھی اور غیر محفوظ بھی لگتا تھا۔

سرد، بھی۔

یہاں کتنا اچھا ہے۔

تم یہاں کے لیے ریٹائرمنٹ ویزا لے سکتے ہو، لینا آسان ہے۔

انتظار کر رہا ہوں کہ روس سے متعلق ٹرمپ کے ساتھ کیا ہوگا۔

بہ ظاہر روس کی دو تہائی عورتوں نے ویکسین نہیں لی۔

مجھے کووڈ ہوا تھا۔ کوئی نہ مرا، کم از کم معمول کے مطابق صحت مند تو کوئی بھی نہیں۔

میری 93 سالہ ماں اور نرسنگ ہوم میں موجود سبھوں میں سے کوئی تب تک نہیں مرا تھا جب تک انہوں نے انہیں مفلوج کرنا اور پانچ ہفتوں تک وینٹی لیٹروں پہ ڈالنا شروع نہیں کیا یوں وہ جراثیموں اور پھپھوندیوں کی عفونت سے مرے۔

یا انہیں ریمڈیسویر کے ٹیکے لگائے گئے۔۔۔ جو پھیپھڑوں میں پانی بھر دیتی ہے اور گردوں کو ضرر پہنچاتی ہے۔

کوئی قیدی، ملاح، امش لوگ، افریقی، بے گھر وغیرہ نہیں مرے۔

میں آج کل ٹھیک ٹھاک ہوں لیکن بالکل اکتاہٹ کا شکار اور غیر مطمئن۔

تم پاکستان میں کہاں پہ ہو؟

julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply