فراڈ بمقابلہ سفید پوشی/اختر شہاب

(پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کے حالات اس قدر دگر گوں ہو گئے ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ بہت سے سفید پوش جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ہمت بھی نہیں کر پاتے، اس کا شکار ہیں۔اسی تناظر میں میرے ساتھ پیش آئے دو حقیقی واقعات  بغیر کسی لفاظی کے پیش خدمت ہیں ۔ اس کی اہم وجہ ان سفید پوشوں کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے۔)

آج ایک بار پھر میرے موبائل پر میسج آیا تھا ۔” اختر بھائی! مجھے 7 ہزار روپے کی ضرورت ہے ۔ میں نے بیٹے کی سمسٹر فیس دینی ہے۔ میں اگلے ماہ آپ کے پیسے واپس کر دوں گا۔”جس نمبر سے یہ میسج آیا تھا اس نمبر پہ موجود شخص سے میرے تعلقات ہرگز ایسے نہ تھے کہ وہ مجھے بھائی کہے یا مجھ سے پیسے مانگے ۔ وہ مجھے انکل کہا کرتا تھا۔ ۔بھائی کا خطاب اور یہ میسج پڑھ کے میں کھٹک گیا اور مجھے  اپنا پرانا  ایک واقعہ یاد آگیا۔

ہوا کچھ یوں کہ کچھ عرصہ قبل فیس بک پر موجود میرے ایک عزیز دوست کی فرینڈ ریکوئسٹ دوبارہ آ گئی۔جسے میں نے غور کیے بغیر ہی قبول کر لیا۔ اس کے بعد، اس نے مجھ سےمیسنجر پر رابطہ کر کے مجھ سے میرا واٹس ایپ نمبر بھی لے لیا اور کچھ دیر میں ہی واٹس ایپ پر اس کا میسج آگیا۔”اختر بھائی! میں ایک مشکل میں ہوں اور مجھے مدد کی ضرورت ہے-”
” خیریت تو ہے ۔کیاہوا میں حاضر ہوں ہر خدمت کے لیے۔” پرانے دوست کا معاملہ تھا۔میں نے فوراً جواب دیا۔
“میرا ایک دوست ملتان میں ہاسپٹل میں داخل ہے اور مجھے اس کو فوری طور پر پچاس ہزار روپے بھیجنے ہیں جو میرے پاس اس وقت نہیں ہیں ۔ اگر آپ اس نمبر پہ اسے پیسے بھیج دیں تو میں آپ کو کل تک واپس کر دوں گا۔ ”
اس بات پر میں نے اسے فون کرکے اس سے تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس نے کال اٹینڈ نہیں کی اور میسج پر کہا کہ میرا گلا خراب ہے میں آپ سے بات نہیں کر سکتا۔ میں کچھ کھٹک سا گیا۔ پھر بھی میں نے اس سے مزید تفصیل مانگی تو اس نے ایک شخص کا نام اور موبائل نمبر بھیج دیا۔
“اس بندے کی رہائش کہاں ہے۔ وہ کس ہاسپٹل میں داخل ہے؟” میں نے سوال کیا ۔
“ملتان میں جنرل ہسپتال میں۔”
“میں اتفاق سے ملتان آیا ہوا ہوں ۔میں اسے خود ہی جا کر کیش دے آتا ہوں ۔ایسا کریں کہ بندے کو کہیں کہ ہاسپٹل کے گیٹ پہ کھڑا ہو۔” میں نے اسے میسج کیا جبکہ میں کراچی میں تھا۔
“آپ کو آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔آپ اس اکاؤنٹ میں سینڈ کر دیں اپ کو خوامخواہ پریشانی ہوگی۔”

یہ بات کنفرم فراڈ کی بات تھی۔

“میں راستے میں ہوں اور گھر سے نکل چکا ہوں اب آپ مجھے ہاسپٹل کا کمرہ نمبر بتائیے اور بیمار کا نام بتائیے۔”۔میں نے اس سے کہا

“آپ اکاؤنٹ میں سینڈ کر دیں۔”۔اس نے پھر اصرار کیا ۔
“میں تو اب ہاسپٹل کے گیٹ پہ کھڑا ہوں مجھے کمرہ نمبر بتائیں ۔ میں جا کے دے آتا ہوں اور یہ تو احمقانہ بات ہے کہ گیٹ پہ کھڑے ہو کے میں اسے اکاؤنٹ میں سینڈ کروں۔”
“کمرہ نمبر 42 ہے۔” اس نے لکھا ۔وہ بیچارہ خود پھنس گیا تھا کہ اب کیا بتائے۔

” وہ کہہ رہے ہیں کہ اس  ہاسپٹل میں کمرہ نمبر 42 ہے ہی نہیں ۔”کچھ دیر کے بعد میں نے اسے میسج کیا۔ اس پر وہ ایکسپوز ہو گیا اور اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ میں نے اس کا فراڈ پکڑ لیا ہے تو وہ مجھے بلاک کر کے بھاگ گیا ۔

میں سمجھا تھا یہ بھی ایسا ہی کوئی فراڈ میسج آیاہے۔ پھر بھی کنفرم کرنے کو میں نے متعلقہ شخص کو فون کیا لیکن اس نے میرا فون اٹینڈ نہیں کیا۔ یوں میرا شک پختہ ہو گیا کہ اس کا واٹس ایپ نمبر ہیک ہو گیا ہےاور یہ کوئی دو نمبر شخص ہے جو مجھ سے پیسے اینٹھنا چاہتا ہے لہٰذا میں نے اس سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔اور اس سے پوچھا کہ پیسے کب تک چاہیے؟
“ابھی۔۔۔” وہ بولا
“میں آپ کو دینے آ جاتا ہوں۔”۔میں نے کہا۔
” نہیں ،نہیں آپ وہیں رہیں میں خود لینے آجاتا ہوں۔”اس نے جیسے گھبرا کے جواب دیا ۔ یہ بات شک کو اور پختہ کرنے والی تھی۔
“آپ کو میرے گھر کا پتہ ہے۔” اس سے پوچھا
“آپ بلاک ۱۲ میں ہی رہتے ہیں۔ آپ ایڈریس بتائیں   میں آ جاتا ہوں۔”
“آنے میں اور کیش جمع کرانے میں مسئلہ ہوگا میں ایسا کرتا ہوں کہ پیسے آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتا ہوں آپ مجھے اپنا اکاؤنٹ نمبر بتا دیں۔”اس نے مجھے اکاؤنٹ نمبر بھیج دیا جو شہر کے دوسرے علاقے کا تھا یوں اس پر میرا شک اور بھی پختہ ہو گیا۔
“میں پیسے بھیج رہا ہوں۔”میں نے اسے میسج کیا پھر کچھ دیر بعد ایک اور میسج کیا ۔ ” میرا کمپیوٹر تھوڑا سا پرابلم کر رہا ہے۔ آپ کو کچھ انتظار کرنا ہوگا۔”
“ٹھیک ہے۔”
” آج کل کیا کر رہے ہو ؟۔” میں نے اس سے پوچھا۔
“میں چینل فور میں ہوں۔”
“آپ نے پی آئی اے کی جاب کب چھوڑی۔” میں نے اس سے پوچھا ۔جبکہ وہ کسی دوسری ائیر لائن میں تھا۔
“دو سال ہو گئے۔” اس نے جواب دیا ۔ اس کے جواب سے  مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ یہ فراڈ ہی ہے۔پھر بھی میں نے تصدیق کی آخری کوشش کی اور اسے میسج کیا۔” آپ کا بھائی نعیم کہاں ہے۔ میرے پاس اس کے لیے ایک نوکری ہے۔”
“آپ کس کی بات کر رہے ہیں میرا تو کوئی بھائی نہیں ہے اور میں وہیں پرانے گھر میں رہ رہا ہوں۔”
“اچھا تو آپ کا پرانا گھر کہاں ہے۔”
“انکل !میں شکیل بول رہا ہوں اور مجھےابھی پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔” اسے شایداب یہ محسوس ہو گیا تھا کہ میں اس سے کھیل رہا ہوں یا میں ا س سے باتیں بنا کر پیسے نہیں دینا چاہتا تو اس کا فون آگیا اور وہ بولا۔” میں نے بہت مجبوری میں آپ سے رابطہ کیا ہے۔ اصل میں بجلی کا بل میرے اندازے سے دوگنا آگیا ہے اور مجھے بچے کے سمسٹر کی فیس بھی بھرنا ہے کہ یہ اس کا فائنل سمسٹر ہے۔ اب مجھے پیسے نہیں ملے تو یا تو میرا میٹرکٹ جائے گا یا بچے کا سمسٹر رہ جائے گا ۔” “بندہ خدا! جب میں نے تمہیں فون کیا تھا تو تم نے کیوں نہیں اٹھایا ۔ ” میں نے پوچھا ۔
“انکل ! اصل میں حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ مجھے کسی سے ادھار مانگنا پڑا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ کس سے مانگوں ۔ اتفاق سے آپ کا نمبر سامنے آگیا ۔آپ کی شخصیت کے مطابق مجھے پوری امید تھی کہ پیسے مل جائیں گے مگر مجھے زندگی میں پہلی دفعہ آپ سے بلکہ کسی سے کچھ مانگتے ہوئے شرم آ رہی تھی۔ اسی لیے میں نے میسج کیا تھا اور اسی شرمندگی کے مارے میں نےفون نہیں اٹھایا۔”

“تمہارے اسی فون نہ اٹھانے اور کچھ باتوں میں غلط فہمی کی وجہ سے میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ یہ ایک فراڈ میسج ہے اور میرے ساتھ دھوکہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی لیے میں تمہارے ساتھ کھیل رہا تھا۔خیر اب آجاؤ اور پیسے لے جاؤ۔”

julia rana solicitors

ان دونوں واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے پیغامات سے ہوشیار رہیں ،اور اصل نقل کی پہچان کرنے کی پوری کوشش کریں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply