کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ صرف ایک میز لیمپ کی مدھم روشنی تھی جو کمرے کے ایک کونے میں رکھے دوسرے میز پر پڑ رہی تھی۔ میز پر ایک سفید کاغذ رکھا تھا اور اس کے قریب ایک قلم۔ کمرے کی خاموشی میں صرف قلم کی آواز گونج رہی تھی، جو کاغذ پر اپنی آخری کہانی لکھ رہا تھا۔
“میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے راز کو آج لفظوں میں بدل رہا ہوں، شاید اس لیے کہ میری خاموشی کسی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
یہ دنیا کتنی عجیب ہے، ہر طرف لوگ ہیں، مگر کوئی انسان نہیں۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ ہے، مگر وہ جھوٹی ہے۔ میں نے خود کو ہمیشہ اس ہجوم میں تنہا پایا۔ شاید یہ میری غلطی تھی کہ میں اس دنیا میں آیا، یا شاید یہ دنیا میری غلطی تھی۔ جو بھی ہو، میں یہاں کے لیے نہیں بنا۔ یہ جگہ میرے اندر کی وہ آگ بجھا نہیں سکی، بلکہ اسے مزید بھڑکایا۔
زندگی میں نہ کوئی خواب میرا تھا، نہ کوئی منزل۔ میں بس ایک بوجھ بن کر جیتا رہا، خود پر، دوسروں پر، اور شاید اس دنیا پر بھی۔ لیکن اب میں یہ بوجھ ختم کرنا چاہتا ہوں۔
یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ تمہیں یقین دلاؤں کہ میری موت کے لیے کوئی ذمہ دار نہیں۔ نہ میرے دوست، نہ میرے گھر والے، نہ یہ معاشرہ۔ میں اپنی موت کا خود ذمہ دار ہوں۔ یہ میرا فیصلہ ہے، میری اپنی سوچ کا نتیجہ۔
میں چاہتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد کوئی الزام تراشی نہ ہو، کوئی سوال نہ اٹھے۔ میری زندگی میرے ہاتھ میں تھی، اور میری موت بھی۔
یہ دنیا شاید خوبصورت ہے، مگر میرے لیے نہیں۔ میں غلطی سے اس دنیا میں آ گیا۔ شاید یہ سب ایک حادثہ تھا۔ لیکن میں اس حادثے کا خاتمہ کر رہا ہوں۔
میرے آخری الفاظ یہی ہیں: کسی کو کچھ نہ کہو۔ سب خوش رہیں، اور آگے بڑھیں۔ میری کمی محسوس کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ میں خود بھی کبھی مکمل نہیں تھا۔
خدا حافظ۔”
قلم میز پر رکھ دیا گیا۔ وہ کرسی سے اٹھا، کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا، اور ایک گہری سانس لی۔ میز پر رکھا خط ابھی بھی روشنی میں چمک رہا تھا، جیسے وہ کسی کو کچھ کہنا چاہ رہا ہو، لیکن وہ چمک بھی اب مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
دنیا نے اگلی صبح ایک اور کہانی کھو دی تھی، مگر کسی نے اس کہانی کے صفحے پلٹنے کی زحمت نہیں کی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں