باروخ اسپینوزا/مبشر حسن

اسپینوزا 24 نومبر سن 1632ء میں ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم میں پیدا ہوا۔ اس کے آباؤ اجداد دراصل پورچوگال کے یہودی تھے جو ہجرت کر کے ہالینڈ میں آباد ہو گئے تھے۔ ہو اسپینوزا کو بچپن ہی سے یہودی مذہب اور یہودیوں کی عبادت گاہ سینا گوگ سے شدید محبت تھی جس کی وجہ سے اس نے یہودی مذہب اور تاریخ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ وہ توریت اور انجیل کے مطالعے میں اس قدر محو ہو گیا کہ ان کتابوں میں کی گئی تشریحات پر اعتراضات کرنے لگا۔
“اس قدر کہ اس کا اپنا عقیدہ اور ایمان کمزور پڑنے لگا اور وہ شک میں پڑ گیا۔ شاید مادہ خدا کا جسم ہے ہو سکتا ہے کہ فرشتے انسانی ذہن کی پیداوار ہوں بائبل لا قانونیت کے متعلق کچھ بھی نہیں کہتی ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔”
اسپینوزا کے یہ اعتراضات اس قدر طاقت ور تھے کہ یہودی مذہبی رہنما ( جن کو ربی کہا جاتا تھا) سخت خوف زدہ ہو گئے اور اسپینوزا کو لالچ دیا کہ اگر وہ اپنی زبان بند رکھے اور کبھی کبھارسینا گوگ کا صرف چکر لگا لیا کرے تو اسے 1000 فلورنس سالانہ دیئے جائیں گے۔ اسپینوزا نے یہودیوں کی پیش کش کو سختی سے ٹھکرا دیا اور اپنا کام جاری رکھا۔ یہودیوں نے مشتعل ہو کر اسپینوز پر قاتلانہ حملہ کروادیا مگر یہ سخت زخمی ہونے کے باوجود بچ نکلا۔ آخر کار ربیوں نے مل کر اسپینوزا کو یہودیت سے خارج قرار دے دیا اور اس کے خلاف مرتد ہونے کا فتوی جاری کر ڈالا ۔
یہودیت سے اخراج کا مطلب محض مذہب سے علیحدگی نہیں تھی بلکہ یہ ساری یہودی قوم اور ثقافت سے بھی علیحدگی تھی۔ فتویٰ میں یہ حکم صادر کیا گیا تھا کہ کوئی بھی یہودی اسپینوزا کے ساتھ کسی بھی قسم کا لین دین یا کوئی بھی تعلق نہیں رکھے گا۔ تمام یہودیوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا کہ وہ اسپینوزا کو ملعون جانیں اور اس کو لعنت ملامت کرنا کار ثواب سمجھیں۔
مذہب اور قوم سے اخراج کے بعد اسپینوزا بالکل تنہا اور بے یارو مددگار ہو گیا، لیکن وہ گھبرایا بالکل نہیں۔ اس کے عزیز واقارب دوست احباب حتیٰ کہ بہن نے بھی منہ موڑ لیا لیکن اس کے باوجود اسپینوز پر سکون رہا۔
اس نے ایک عیسائی سے کمرہ کرائے پر لے کر وہاں رہائش اختیار کی۔ گزر بسر کے لیے عینک سازی کا کام شروع کیا۔ عینکوں کے لیے شیشے کاٹنا اور ان کو پالش کرنے کا ہنر اس نے اسکول میں سیکھا تھا جو اس کے کام آگیا۔
اسپینوزا نے اپنے کمرے تک محدود رہنے کے باوجود فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا۔ اسے فلسفے سے عشق تھا اور وہ سب سے پہلے اپنے عہد کے فلسفی دینی ڈیکارٹ سے بہت زیادہ متاثر ہوا اور ایک کتاب (Principles of Philosophy) لکھی، جو اس کی زندگی میں ہی ایک فرضی نام سے شائع ہوئی ۔ نیز اس کی شہرہ آفاق اور دھماکہ خیز کتاب Ethics اس کے انتقال کے بعد شائع ہوئی ۔ اسپینوزا کی کتابوں پر شدید ردعمل ہوا۔ اسے ہر روز گالیوں اور دھمکیوں بھرے خطوط ملنے لگے ۔ چند خط اسے ہدایت کرنے کے لیے ہوتے ۔ کافی خطوط اس کی ہمت افزائی اور مداح سرائی میں ہوتے لیکن خطوط کی اکثریت لعنت و ملامت سے بھر پور ہوتی۔ نمونے کے طور پر اس کے ایک سابق شاگرد البرٹ کے ایک خط سے اقتباس ۔۔
‘تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ تم اپنے آپ کو تمام نبیوں، ولیوں ، شہیدوں، مجتہدوں اور پادریوں سے بھی بہتر سمجھتے ہو؟ کمینے انسان مٹی کے کیڑے کیٹروں کی خوراک کہاں تمہارا کفر اور کہاں لازوال دانش مندی تم نے جو ایک بے وقوفانہ، جاہلانہ اور افسوس ناک لعنتی نظریہ پیش کیا ہے تو تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے۔ شیطان کہیں کے۔’
اسپینوزا کا فلسفہ مابعد الطبیعات
رینے ڈیکارٹ نے جہاں پر اپنے فلسفے کا اختتام کیا تھا، اسپینوزا نے وہاں سے شروعات کی ڈیکارٹ نے حقیقت کے دو روپ بتائے تھے۔ یعنی ذہن اور مادہ جو کہ دونوں خدا کے تخلیق کردہ تھے۔ ڈیکارٹ ذہن اور جسم کو دو بالکل الگ روپ دیتا ہے۔
اسپینوزا، ڈیکارٹ کی ثنویت کو احدیت میں تبدیل کرتا ہے اور ذہن و جسم کو دو کے بجائے ایک حقیقت مانتا ہے، جو ایک ہی بنیادی عنصر (Substance) یا ہستی کے دو رخ ہیں۔ خدا، اسپینوزا کہتا ہے خدا ہستی کی بنیاد ہے اور ذہن و مادے کی کثرت کو وحدت میں تبدیل کرتا ہے۔ خدا مادہ نہیں ہے ( اس لیے اسپینوز امادہ پرست Materialist نہیں ہے ) مگر مادہ خدا کی ایک صفت ہے اور خدا ذہن بھی نہیں ہے، مگر ذہن صرف خدا کی دوسری صفت ہے۔ خدا یا بنیادی وجود فطرت سے مطابقت رکھتا ہے۔ باالفاظ دیگر فطرت بھی خدا کے وجود کا حصہ اور خدا کے وجود کی مظہر ہے۔ اس لیے اسپینوزا، ہمہ اوست (Pantheism) کا قائل ہے۔
اسپینوزا کے نظریے کے مطابق ہر شے خدا میں ہے۔ خدا ہر شے پر محیط ہے۔ کوئی بھی شے خدا سے باہر نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ خدا محدود نہیں ہے۔ انسان خدا کی صرف دو صفتوں یعنی ذہن اور مادے سے واقف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خدا کی مزید صفات بھی ہوں۔
مادے کے تمام انفرادی روپ مل کر خدا کا جسم جوڑتے ہیں اور سارے انفرادی ذہن خدا کے ذہن کا حصہ ہیں۔ اسی طرح کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کے وجود کا حصہ ہے اور انسانی ذہن خدا کے کل ذہن کا ایک ننھا ”جز“ ہے۔
کائنات میں ہونے والی ہر حرکت فطری قوانین کے تحت ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی حرکت در اصل کسی محرک (Cause) کا نتیجہ (Effect) ہے اس طرح بات اولین محرک (First Cause) یعنی خدا تک جا پہنچتی ہے۔ یہ فطری قوانین کیا ہیں ۔ اسپینوزا کے بقول یہ فطری قوانین خدا کی مرضی یا منشاء کا دوسرا نام ہیں۔ خدا کی مرضی کا کوئی بھی خارجی سبب نہیں ہے، کیوں کہ خدا کے سوا کوئی خارجی وجود ہے ہی نہیں۔ خدا کی منشاء کا سبب خود خدا ہے جو کہ ہر خواہش سے بالاتر اور بے نیاز ہے۔
جیسا کہ فطرت کا ہر عمل محرک اور نتیجے (Cause & Effect) کی وجہ سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی معجزہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ معجزے کا مطلب خدا کی منشاء یا قانون فطرت . میں رخنہ ڈالنا ہے، جیسا کہ معجزہ خدا کی منشاء کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ ناممکن ہے کیوں کہ خدا کی منشاء کے خلاف کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔
جہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر برائی کا محرک کون ہے؟ اگر ہر ایک شے محرک کی محتاج ہے اولین محرک خدا ہے تو پھر کیا برائی کا اولین محرک بھی خدا ہے؟
اس سوال کا جواب بھی ول ڈیورانٹ، اسپینوزا کے فلسفے سے دیتا ہے۔ نیکی اور بدی، خوب صورتی اور بدصورتی ، انسان کے موضوعاتی (Subjective) فیصلے ہیں ۔ بالکل یوں جس طرح گرم اور سرد کا تعین خارجی ماحول یا ہمارے فائدے، نقصان کرتے ہیں۔
اس جواب پر برٹرینڈ رسل تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے اسپینوزا کا ارادہ انسان کو خوف کے عذاب سے نجات دلانا ہے۔ آزاد انسان ، موت سے کم تر بات سوچتا ہی نہیں ہے۔
جیسا کہ انسان ایک حقیقت کا جز ہے۔ اس لیے فنا نہیں ہوتا لیکن یہ بقا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ انفرادی بقا کا مطلب ہے کہ انسان اپنے شعور سمیت زندہ رہے جو اسپینوزا کے بقول ممکن نہیں ہے۔ انفرادی شعور جسم کے فنا ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔
فلسفہ اخلاق و نیکی
اسپینوزا کا نظام اخلاق اس کے مابعد الطبیعات کی طرح احدیت پر مشتمل ہے جیسا کہ اسپینوز ا یونانی فلسفے سے متاثر تھا۔ لہذا اس کا نظام اخلاق ارسطو سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ارسطو کے ہاں زندگی کا اصول خوشی کا حصول ہے اور خوشی نیکی سے جنم لیتی ہے۔ اسپینوزا کے ہاں بھی کردار کا نصب العین خوشی ہی ہے۔ خوشی کا مطلب ہے لذت کی موجودگی اور اذیت دکھ اور درد کی غیر موجودگی مگر اسپینوزا کے نزدیک لذت اور اذیت کی حقیقت کوئی حقیقت مطلق نہیں ہے، جب انسان اپنی تکمیل کے ادنیٰ درجے سے اعلیٰ درجے کی طرف سفر کرتا ہے تو اسے بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تکمیل ذات کی جدو جہد میں ہی خوشی ہے۔ اسی طرح اذیت یا عذاب وہ ہے کہ انسان اپنی تکمیل ذات کے اعلیٰ درجے سے ادنی درجے کی طرف یا بلندی سے پستی سے پستی کی کی طرف سفر کرے۔
تکمیل ذات کا سفر کرنے کے لیے ایک عدد وجود یا نفس کی ضرورت ہوتی ہے اور نفس کی بقاء کا مسئلہ اولین ہے اس لیے انسان کا ہر عمل اس کے وجود کی بقاء کے لیے ہوتا ہے۔ ہر وہ عمل جو کہ نفسی بقاء کے لیے ضروری ہوتا ہے وہ نیکی ہے ( یہاں اسپینوزا کا مقصد ذاتی بقاء کے ساتھ انسانی بقا بھی ہے )
اسپینوز احسن سلوک پر زور دیتے ہوئے نفرت ختم کرنے کے لیے کہتا ہے ۔ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے دینا چاہیے۔ نفرت کا مطلب اپنی ذات کی کمزوری کا اعتراف ہے۔ اسپینوزا لکھتا ہے۔ انسان صرف اس دشمن سے نفرت کرتا ہے جو اس سے طاقت ور ہو۔ کم زور دشمن سے نفرت نہیں ہوتی ۔
انسان کے لیے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ حقیقت کبریٰ کو سمجھنے کی کوشش کرے جو بھی انسان اپنے آپ کو پہچاننے اور اپنے جذبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ یقینی طور پر خدا سے محبت کرتا ہے ۔
اسی طرح خدا سے دانش ورانہ محبت کی جاسکتی ہے جو کہ ایک اعلیٰ ترین نیکی ہے۔ خدا سے محبت تب ہی ہو سکتی ہے جب انسان خود کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ خدا کو پہچاننے کے لیے انسان کو اپنے آپ کو اور اپنے جذبوں کو پہچاننا پڑتا ہے کیوں کہ جذبات اکثر عقل کے خلاف ہوتے ہیں اور انسان کو خلاف عقل عمل کرنے کے لیے اکساتے رہتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جذبوں کو سمجھا جائے جو انسان کے عقل و فہم سے ٹکراتے ہیں۔
جو جذبات فہم سے ٹکرائیں ان کو چھوڑ دیا جائے تا کہ خدا کو پہچانا جا سکے۔ کیوں کہ خدا کو پہچاننے کے لیے جذبے کے بجائے عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔
جب انسان عقل سے کام لیتا ہے اور عقل کے ذریعے جبلت پر قابو پاتا ہے تو اس کے اندر ایثار اور آزادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے یوں دھیرے دھیرے عقل حاوی ہوتی جاتی ہے۔
نفس کی غلامی سے آزاد شخص میں ایک توازن اور سکون کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے اندر دوسرے انسان کے لیے ہمدردی اور برابری کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر یہ پر سکون انسان تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے سوچتا ہے اور خود کوئی بھی ایسا کام نہیں کرتا ہے جس سے دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچے۔
اسپینوزا خدا سے نیکی کا کوئی صلہ طلب نہیں کرتا ہے کیوں کہ خدا پر نیکی کا اثر نہیں ہو سکتا۔ نیکی خود اپنا صلہ آپ ہے (Virtue is itsownrewaid) سکون قلب اور لازوال مروت صرف نیکی سے ہی مل سکتی ہے۔ یہی اسپینوزا کی نیکی کا فلسفہ ہے۔
نفسیات اور ذہن
اوپر یہ ذکر ہو چکا ہے کہ اسپینوزا نے ڈیکارٹ کی دوئی کے فلسفے یعنی ذہن اور جسم کی ثنویت کو رد کرتے ہوئے دونوں کو ایک ہی حقیقت کے دو روپ کہا ہے۔ ذہن جسم کا داخلی اور جسم ذہن کا خارجی روپ ہے۔ ان دونوں کے عمل ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ ذہن کا فیصلہ اور جسم کی خواہش ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جاسکتے ، کیوں کہ یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ذہن کا کوئی بھی فیصلہ جسمانی خواہش کے برعکس نہیں ہو سکتا ۔
جسم کی سب سے بڑی خواہش وجود کی بقاء ہے۔ لہذا ذہن ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ بقاء کو کچھ اور نہیں کوئی خطرہ در پیش نہ ہو۔ اس طریقے سے اسپینوزا کی نگاہ میں مرضی یا اختیار (Will ) کچھ اور نہیں بلکہ ایک شدید خواہش کا نام ہے۔ لہذا آزاد رائے یا خود اختیاری (Free will) ایک فریب ہے۔ ہے۔ انسان کی مرضی آزاد ہو ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ یہ شدید خواہش کا تبدیل شدہ روپ ہے اور انسان کا عمل اس شدید خواہش یا مرضی کے طابع ہوتا ہے۔
ایک دوسری جگہ اسپینوزا لکھتا ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ کسی حد تک خواہش پر قابو پا سکتا ہے۔ وگرنہ دوسری صورت میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری راہ نہیں ہے کہ وہ شدید خواہش کا غلام بن کر رہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے مگر در حقیقت وہ اپنے فیصلوں کی پشت پر پوشیدہ اسباب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے۔
سیاسی فلسفہ
اخلاقیات کی طرح اسپینوزا کا سیاسی فلسفہ بھی اس کے مابعدطبیعات کے زیر اثر ہے۔ وہ خوف اور امید کو انسانی جدو جہد کا اہم سبب قرار دیتا ہے ۔ یہ دونوں جذبے پھر ایک نیک جذبے یعنی بقائے وجود کے تحت کام کرتے ہیں۔
انسان جب فطری حالت میں رہتا ہے تو وہ ہر وقت حالت جنگ میں رہتا ہے کیونکہ وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہے۔ وہاں قوت ہی سب کچھ ہے اور انسان ہر وقت خوف کی زندگی گزارتا ہے۔ وہ فطرتا آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہے۔ نیز ہر وقت بقاء کی فکر انسانی ذہن کو ترقی نہیں کرنے دیتی۔ ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام انسان ایک مشترکہ معاہدہ کرتے ہیں جس کے ذریعے ایک منظم سماج اور ریاست کا وجود عمل میں آتا ہے۔
منتظم سماج کا مقصد ہے امن اور تحفظ ۔ بہترین ریاست وہ ہے جہاں انسان اتحاد سے   رہ سکیں اور وہاں قانون شکنی ہرگز نہ کی جائے ۔
مابعدطبیعات میں اسپینوزا کے ہاں جہاں انفرادی ذہن خدا کے ذہن کا حصہ اور انفرادی جسم خدا کے وجود کا حصہ ہے۔ اس طرح سماج میں پھر انفرادی قوتیں ریاستیں قائم کرتی ہیں۔ ریاست کا مطلب اجتماعی قوت ہے۔ فردا اپنی کچھ انفرادی قوت اور کچھ آزادی ریاست کو دیتا ہے تا کہ وہ بے خوف ہو کر اپنی زندگی گزار سکے اور فطری زندگی کی مشکلات سے آزادی حاصل کی جاسکے۔
ریاست کا سب سے اہم اور معتبر مقصد انسان کو ایک اعلیٰ آدرشی زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے، جب انسان کو آزادی اور بے خوفی میسر ہوتی ہے تو تب ہی وہ اعلیٰ اخلاق اور نیک زندگی گزار سکتا ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننے کا معاملہ بھی پھر آسان ہو جاتا ہے۔
منتظم ریاست میں انسان جبلت اور خواہش کی بجائے عقل کے ماتحت زندگی گزارتا ہے۔ عقل کی رہبری میں انسان جذباتی کشمکش سے نکل کر منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے اور روحانی سکون حاصل کرتا ہے، جو انسان کے لیے انتہائے کمال ہے ۔
اسپینوزا اپنے مقالے میں بادشاہت، اشرافیت اور جمہوریت پر بحث کرنے کے بعد جمہوریت کو بہتر نظام حکومت قرار دیتا ہے کیوں کہ جمہوریت انسان کو برابری کا درجہ دیتی ہے جو کہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔
اسپینوزا بادشاہی نظام حکومت کے وجود کا سختی سے انکار کرتا ہے کیوں کہ کسی بھی ایک شخص کی ذات اس قدر جامع نہیں ہو سکتی کہ وہ پوری قوم کے مقاصد اور مفادات کا احاطہ کر سکے۔
ریاست میں موجود نظام کی خوبیاں بتاتے ہوئے اسپینوز الکھتا ہے :
ہر انسان کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنا مسلک خود منتخب کرے اور مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی رواداری اور قوت برداشت کو بھی ریاست یقینی بنائے ۔
اس کے علاوہ رائے اور اظہار کی آزادی کو بھی اسپینوزا ریاست کی اہم خوبی بتاتا ہے۔ عقل مندانہ بحث اور تنقید سے نقصان کے بجائے فائدہ ہوتا ہے۔
اگر اس آزادی کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور سوچوں پر تالے اور تقریروں پر پہرے لگائے جاتے ہیں تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہر قسم کی فکر کو طاقت کے ذریعے دبایا جا سکے، اگر اظہار کی آزادی کو دبایا گیا تو پھر بیوقوف، خوشامدی اور غیر مخلص لوگ چھا جائیں گے۔
اسپینوزا انقلاب کی حمایت نہیں کرتا لیکن اگر ریاست غیر ضروری تسلط اور استعماریت کا ذریعہ بن جائے تو پھر کیا کیا جائے ؟ اس حالت میں بھی اگر ریاست مناسب احتجاج کی اجازت دئے بحث اور اظہار رائے پر کوئی پابندی عائد نہ کرے تو ریاست کے ناانصافی کے متعلق قوانین کی بھی پابندی کرنی چاہیے۔
اسپینوزا ابھی سیاست پر اپنا مقالہ لکھ ہی رہا تھا اور بحث ابھی تمام نہیں ہوئی تھی کہ اس کی ٹی بی کی موروثی بیماری خطرناک حد تک بڑھ گئی۔شیشوں کی دھول اور مٹی نے اس کے پھیپھڑوں کو لہولہان کر ڈالا ، جس کی وجہ سے ہمارا فلسفی 44 سال کی عمر میں ہی دنیا سے رخصت ہونے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے ٹی بی کا باقاعدہ علاج بھی نہ کرایا۔ کیوں کہ اسے موت بھی زندگی ہی کی طرح عزیز تھی۔ وہ سکون سے موت کا انتظار کرتا رہا اور ہنسی خوشی یہ جہاں چھوڑ کر چلا گیا۔
زندگی کے آخری دور میں اسے پذیرائی بھی خوب ملی۔ اس کے ایک مداح نے اپنی ڈھیر ساری جائیداد اسپینوزا کے نام کر دی تھی، مگر اسپینوزا نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی جانب سے فلسفے کا پروفیسر مقرر کرنے کی پیش کش کی گئی لیکن اس پر وقار مفکر نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ امن و سکون سے محبت کرتا ہے۔ اسے کوئی بھی لالچ نہیں ہے۔“
اپنی برادری اور پوری دنیا کی نفرت اور ذلت برداشت کرنے کے باوجود بھی یہ سچا انسان مسکراتا رہا اور نفرت کے بدلے محبت کا درس دیتا رہا۔
اسپینوزا کو یہودیوں نے مرتد قرار دے کر مذہب سے خارج کر دیا۔ عیسائیوں نے اسے بے انتہا نفرت دی۔ اس کا سچا فلسفہ خدا کے تصور سے بھر پور ہے مگر اس کے باوجود مذہبی انتہا پسندوں نے اسے دہریہ قرار دیا اور لعنت ملامت کرتے رہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply