ایک دن فیس بک پر محمد نصیر “زندہ” کی رباعی پڑھی تو دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اگرچہ عصرِ حاضر کے شعرا اور ادیب دن رات اپنی تخلیقات یا دوسروں کے کلام سے صفحات بھرتے ہیں، مگر اس دورِ فتن میں جب ہماری اقدار دم توڑ رہی ہیں اور انسان مادیت کے شکنجے میں جکڑا جا رہا ہے، ایسے میں “زندہ” صاحب کا کلام ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ کہیں گل و بلبل کے روایتی مرثیے ہیں تو کہیں فرسودہ عشقیہ داستانیں، مگر یہ رباعیات اپنے اندر معاشرتی بے چینی، انسانی آزادی، اور بیداری کے وہ رنگ سموئے ہوئے ہیں جو آج کے دور کا المیہ بیان کرتے ہیں۔
“زندہ” کے کلام میں فکری گہرائی اور عصری آہنگ اُن کے اشعار صرف الفاظ کا جادو نہیں، بلکہ سوچ کی وہ کسک ہیں جو قاری کو جھنجوڑتی ہے۔ مثال کے طور پر :
ملتا نہیں جینے کا بہانہ ہم کو
اے زورِستم نہ آزمانا ہم کو
ہم کل کی آنکھ میں بغاوت کا خواب
تعبیر میں روئے گا زمانہ ہم کو
یہاں “بغاوت کا خواب” محض رومانوی بے قراری نہیں، بلکہ موجودہ نظام کے خلاف ایک شعوری احتجاج ہے۔ اسی طرح “گاؤں آزاد کرو” جیسے مصرعے سماجی ناانصافی کے خلاف شعلہ بیانی ہیں.
گلزارِ قلم کی چھاؤں آزاد کرو
مزدورِ سخن کا گاؤں آزاد کرو
تدبیر سے کھولو نفرت کی زنجیر
تقدیرِ بشر کے پاؤں آزاد کرو
زندہ” کا مفہوم جب میں نے تلاش کیا تو اس میں فکر کی بقا ملی۔ یوں شاعر کا تخلص “زندہ” محض ایک نام نہیں، بلکہ ایک فلسفہ ہے۔ ان کے نزدیک “زندہ” وہی ہے جو اپنے عہد کے سوالوں سے ٹکرائے، خاموشی کی زنجیر توڑے، اور آنے والی نسلوں کو سوچنے کا راستہ دے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں
سورج کی ہو کرن معطل کیسے
ڈالے کوئی روشنی میں بل کیسے
خوشبو نہیں ہوتی پھول کی مٹھی میں بند
آزادی کی روح ہے مقفل کیسے
یہاں زکر کرتا چلوں کہ پوٹھوہار کی علمی روایت و میراث کو محمد نصیر نے “زندہ” رکھا ہے۔
خطہ پوٹھوہار جہاں دریائے سندھ اور جہلم کی ثقافتی رگوں نے علم و ادب کو سینچا، وہاں “زندہ” صاحب بھی اسی دھرتی کے فکری ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کلام نہ صرف مقامی رنگ رکھتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور آزادی کی تحریکوں سے ہم آہنگ ہے۔ ان کی شاعری میں خاموشی کو جبر کی علامت بتایا گیا ہے۔ اوروہ خاموشی توڑنے کی دعوت دیتے ہوۓ کہتے ہیں
امید شکن مرگ تمنا دی ہے یہ
شب ناک نمو کی سحر ایجادی ہے یہ
پازیب ہے احساس جفا کی خاموش
جمہور فریب عیش آزادی ہے یہ
یہاں وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف اشارہ کرے ہوۓ جتاتے ہیں کہ “خاموشی” کوئی فضیلت نہیں، بلکہ ظلم کے آگے سپر ڈالنے کی متروک روایت ہے۔
آخر میں عرض کرتا چلوں کہ محمد نصیر “زندہ” کی رباعیات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ شاعری محض تخیلی پن نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ اللہ ان کے قلم کو مزید جلا بخشے تاکہ یہ فکری مشعل ہمیشہ روشن رہے۔ آپ بھی ان کے کلام کو ضرور پڑھیں—یہ صرف شعر نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے۔مزید کلام دیکھیے
مینا و سبو آنکھ کے گھر میں پڑے ہیں
انوار سبھی روزنِ در میں پڑے ہیں
دیکھو تو ہوا نکال کے پھوڑ کے سر
قلزم کئی بلبلے کے سر میں پڑے ہیں
آرام نہیں رات کو رونے کے سوا
ہونا بھی یہاں کچھ ہے نہ ہونے کے سوا
شاید تعبیر سے گریزاں کوئی خواب
سونے کے پلنگ پر ہے سونے کے سوا
تخلیق کو رم موجِ قلم دیتی ہے
فردا کی خبر نشاطِ غم دیتی ہے
نیزے پہ نئی صبح کا سورج ہو گا
مٹی نیا آدمی جنم دیتی ہے
رنگِ نظر آشوب کے پیکر دیکھے
ساغر میں سسکتے ہوئے ساغر دیکھے
عورت دیکھی سات سمندر پیاسی
بہتے اس میں سات سمندر دیکھے
حسرت کو عیاں آنکھ سے ہونے نہ دیا
مغرور انا نے مجھے رونے نہ دیا
کل رات مرے خیال کی لگ گئی آنکھ
کل رات ترے خواب نے سونے نہ دیا
گرد اڑ کے مری دیدہء اختر میں پڑی
سخت ابتری افلاک کے لشکر میں پڑی
پوشاک سمندر کی پہن لی میں نے
پھونک ایسی حبابِ کاسہء سر میں پڑی
تہذیب کے حیوان سے ڈر لگتا ہے
ابلیس کے سلطان سے ڈر لگتا ہے
آئینہ مجھے دیکھنے کی تاب نہیں
اس دور کے انسان سے ڈر لگتا ہے
صورت زدگاں امنگ میں مارے گئے
آئینے دیارِ سنگ میں مارے گئے
فریاد کہ آرزو گزیدہ ہوئے خواب
دل زاد اشکوں کی جنگ میں مارے گئے
*ترجمه منظوم فارسی* :
مینا و سبو در چشمان خانهاند
نورها همه در روزنِ در ماندهاند
بنگر که هوا ترکیده بر سرها
قلزم چند حباب بر سرها ماندهاند
شب نیست جز گریه آرامِ دگر
چیزی نباشد جز نبودن خبر
شاید که خوابی از تعبیر رمید
بر تخت زرین جز خواب نمانده دیگر
آفرینش را موجِ قلم رم دهد
فردا را شادیِ غم خبر دهد
بر نیزه خورشیدِ صبحی نو برآید
خاک آدمی تازه زاده بر تن دهد
رنگ نظر، آشوبِ پیکر دیده
در جامها، جامِ حسرت را تپیده
زن دیدم تشنهتر از هفت دریا
که در آن روان است هفت دریا ندیده
حسرت را عیان از دیده نگذاشت
غرورِ من، به گریه فرصت نداد
شب گذشته، چشم خیالم بسته
خوابت نداد به خوابم، آرامی دگر
گرد برخاست، اخترِ دیدهام را گرفت
سختیِ فلک، لشکر مرا شکست
جامه دریا را بر تن بپوشاندم
حباب چون کاسه بر سرم بشکست
از حیوانِ تمدن هراسی دارم
از سلطان ابلیس دلی سخت دارم
آینه، تابی ندارد به دیدنم
از انسانِ این روزگار، دل خسته دارم
پیکرههای امید در هوس مردند
آینهها در دیارِ سنگ جان سپردند
فریادِ آرزوها، خواب گُزیده
دلها در جنگِ اشکها به سر رسیدند
*عربی میں منظوم ترجمہ* :
المینا والسبو في عيون الديار
والأنوار في كل نافذة مستقر
انظر إلى الهواء يخرج رأسها
كُلزمٌ في الفقاعات قد استقر
لا راحة في الليل سوى البكاء
لا شيء هنا سوى الوجود فناء
ربما حلمٌ يفر من التأويل
على السرير الذهبي إلا النوم جاء
الخلق يعطيه موج القلم دفعة
والغد يأتينا بسرور الحزن نعمة
الشمس على الرمح فجرًا ستشرق
والتراب إنسانًا جديدًا تنشئ
رأيت لون النظرة أهوالًا قد بدت
وفي الكأسات دمع الأحزان قد هطلت
رأيت امرأة عطشى لسبعة بحور
وفيها سبعة بحور قد تدفقت
لم تُظْهِر الحسرة عيناي للنور
والكبرياء لم تترك لي البكاء مرور
ليل الأمس قد غَفَتْ أفكاري عنك
وحلمك لم يترك لنومي سرور
الغبار في عيني نجمًا استقر
والأفلاك بجيشها ظلمًا قدر
لبست ثوب البحر في وهن
والفقاعات على رأسي كالكأس انكسرت
أخاف من وحش الحضارة مرعب
ومن سلطان إبليس كابوس مهيب
لا تقدر المرآة أن تراني بوضوح
من إنسان هذا العصر قلبي مصيب
صُوَر الأمل في الطموح قتلت
وفي ديار الحجر مرايا أُبيدت
آهاتُ الأحلام غُزِيت بالأحزان
والقلوب في حرب الدموع قد انتهت
The goblet and the cup in eyes’ abode remain,
And lights through every window pane.
Behold the air, how it bursts through,
In bubbles many, the ocean’s hue.
No peace at night, but tears that fall,
Nothing exists here, nothing at all.
Perhaps a dream evades its fate,
On golden beds, only sleep awaits.
Creation flows from the pen’s wave,
Tomorrow’s joy, the grief does pave.
The sun on spear at dawn will rise,
The soil births man with no disguise.
I saw the colors of turbulent sight,
In cups, the sobbing of sorrow’s might.
A woman, thirsty for seven seas,
Within her, seven oceans breeze.
Despair, my eyes did not disclose,
Pride kept me from weeping woes.
Last night, my thoughts did fall asleep,
Your dream denied my slumber deep.
Dust settled on the star in my eye,
Chaos reigned, the heavens nigh.
I wore the sea as a garment fair,
Bubbles burst, their crowns laid bare.
I fear the beast of civilized guise,
From Satan’s rule, my heart despise.
The mirror fails to bear my sight,
From this age’s man, I feel fright.
Figures of hope in desire lay slain,
Mirrors in the stone realm remain.
Cries of dreams, with sorrow contend,
Hearts in the battle of tears met their end.م

یری دعا ہے کہ اللہ محمد نصیر “زندہ” کو صحت، سکون، اور فکر کی مزید توانائی عطا فرمائے۔ آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں