خط بعنوان اسپٹنک لمحہ /علی عبداللہ

عزیزم!
جب میں تمہیں یہ خط لکھنے بیٹھا تو جان کیٹس اور ابن الحزم کے بارے میں کچھ باتیں کرنے کا من تھا- دل چاہا کہ جان کیٹس کی “Saint Cupid’s Nun” اور ابن الحزم کے محبت کے فلسفے پر باتیں کروں- لیکن دن بھر مصنوعی ذہانت کے نئے ماڈل(ڈیپ سیک) کی چہار سو شہرت سن کر میں اب تمہیں اس بارے میں بتانا چاہوں گا ۔یہ ایک ایسا مصنوعی ذہانت پر مبنی ماڈل ہے جس نے دنیا کو حیران و پریشان کر دیا ہے؛ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ دیگر مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے زیادہ بہتر ہے، بلکہ اس پر آنے والی لاگت باقیوں کی نسبت انتہائی کم ہے اور کارکردگی ان ہی جیسی ہے۔ چونکہ یہ ماڈل اس ملک (چین) نے بنایا ہے جس سے کسی کو توقع ہی نہیں تھی، اسی بنا پر اسے “اسپٹنک لمحے” سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

میں تمہیں بتاتا چلوں کہ “اسپٹنک لمحہ” کا استعمال کسی بھی ایسے موقع پر کیا جاتا ہے جب کوئی قوم یا تنظیم محسوس کرتی ہے کہ اسے کسی اہم چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اصطلاح 1957 میں سوویت یونین کے اسپٹنک 1 سیٹلائٹ کے بعد مشہور ہوئی، جو دنیا کا پہلا مصنوعی سیارہ تھا۔ اس واقعے نے امریکہ کو حیرت میں ڈال دیا تھا، کیونکہ یہ خلائی دوڑ میں پیچھے رہ گیا تھا، جس کے بعد امریکہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی۔

مصنوعی ذہانت، جیسا کہ تم جانتے ہو، صرف روبوٹ یا سائنسی خیالات تک محدود نہیں ہے۔ یہ آج ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہے۔اسٹریمنگ پلیٹ فارمز پر دی گئی تجاویز، ورچوئل اسسٹنٹس کے جوابات، اور کاروباری رجحانات کی پیش گوئی کرنے تک۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ہمارے شوق، عادات، اور ترجیحات وغیرہ کو ہم سے بھی بہتر سمجھتی ہے۔ مگر اس خیال کے پیچھے ایک اہم حقیقت چھپی ہے: مصنوعی ذہانت کو اتنا “سمارٹ” بننے کے لیے ہمیں دیکھنا اور پرکھنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں پرائیویسی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔

کیا تم نے کبھی مصنوعی ذہانت اور اس کی پرائیویسی پالیسی پر غور کیا ہے؟ یہ شے ہماری زندگی کا ایسا حصہ بن چکی ہے کہ ہم اکثر اس کی موجودگی کو نہ محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اسے اہمیت دیتے ہیں-

زیادہ تر مصنوعی ذہانت کے ماڈلز، خاص طور پر وہ جو بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں، مکمل طور پہ ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا زیادہ تر میری، تمہاری یا باقی لوگوں کی آن لائن سرگرمیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم کیا تلاش کرتے ہیں، کیا خریدتے ہیں، کہاں جاتے ہیں، اور یہاں تک کہ کیا لکھتے ہیں۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت کا وعدہ ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز ہے۔مسائل کا حل نکالنا، تھکا دینے والے کاموں کو خود کار بنانا، اور بیماریوں کا علاج ڈھونڈنا، مگر اس کی ڈیٹا کی طلب ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے: کیا ہماری ذاتی معلومات محفوظ ہیں؟

بہت سی کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے پاس مؤثر پالیسیاں ہیں جو ہمارے ڈیٹا کو محفوظ رکھتی ہیں۔ لیکن ان پالیسیوں کو گہرائی میں جھانکنے سے اکثر کچھ اور کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ پھر وہاں سے ڈیٹا چوری کا خطرہ بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کبھی غور کیا ہے کہ لوگ “شرائط و ضوابط” کو لاپرواہی سے قبول کرتے وقت کیا کچھ سونپ رہے ہوتے ہیں؟ اکثر یہی معاہدے ہماری معلومات کو ان مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں جنہیں ہم خود شاید کبھی نہ مانیں۔اب یہ سب کچھ اس نئے آنے والے مصنوعی ذہانت کے ماڈل میں بھی ہے۔ اور شاید مستقبل میں پرائیویسی کا لفظ ہی مٹ جائے۔

“اسپٹنک لمحے” کا باعث بننے کے باوجود یہ کمپنی (ڈیپ سیک) بھی دیگر کمپنیوں کی طرح ڈیٹا جمع کرتی ہے اور بوقت ضرورت اسے استعمال بھی کرتی ہے۔ یہ استعمال کیا ہو سکتا ہے اور کس طرح ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے یہ سب پرائیویسی پالیسی میں شامل ہے، جسے اکثر لوگ پڑھنا گوارا ہی نہیں کرتے، مثلاً اس نئے ماڈل کی بات کروں تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ صارف کا ڈیٹا ان تین طریقوں سے جمع کیا جاتا ہے۔صارف کی فراہم کردہ معلومات، خودکار طور پر جمع کی گئی معلومات، اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات، یعنی میں اور تم اپنی ہر سرگرمی کا ریکارڈ جانے اور انجانے میں فراہم کر رہے ہیں۔

یاد رکھو ایک ذمہ دار صارف کے طور پر ہم جو قدم اٹھا سکتے ہیں وہ ہے باخبر رہنا۔ کسی بھی مصنوعی ذہانت پر مبنی ایپلی کیشن کو استعمال کرنے سے پہلے، اس کی پرائیویسی پالیسی کو سمجھنا ضروری ہے۔ گو کہ محققین اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹمز کی پالیسی واضح اور مؤثر ہو, جو صارف کے ذاتی معاملات پر اثرانداز نہ ہو- لیکن یہ سب فی الحال سبز باغ دکھانے کے سوا کچھ نہیں- تاہم، میرے خیال میں یہ بڑھتی ہوئی بحث ہمیں ہماری ڈیجیٹل زندگی کے ایک بڑے سوال کی طرف لے جاتی ہے: ہماری ذاتی معلومات کی اصل قیمت کیا ہے؟ کیا اسے محفوظ رکھا جانا چاہیے، یا اسے سہولت اور تکنیکی ترقی کے بدلے پیش کرنا قابل قبول ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر اجتماعی طور پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔

مشہور تاریخ دان یوال نوح حراری نے لکھا تھا کہ چند بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ڈیٹا پر کنٹرول حاصل کر کے مؤثر نگرانی کا نظام قائم کر رہی ہیں۔ وہ خبردار کرتا ہے کہ جو لوگ ڈیٹا کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ نہ صرف انسانی رویے کو بلکہ جذبات اور فیصلوں کو بھی قابو میں لا سکتے ہیں۔

میرے دوست، مصنوعی ذہانت کے دور میں محتاط رہ کر اور ترقی کو قبول کرتے ہوئے اپنی ذاتی حدود کا بھی تحفظ کرنا بہت اہم ہے۔ شاید مستقبل ایسے حل لے کر آئے جہاں ٹیکنالوجی اور پرائویسی خوش اسلوبی سے ساتھ چل سکیں گے۔ تب تک، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم باخبر اور محتاط رہیں۔ آئے روز منظر عام پر آنے والی عمومی ایپلیکیشنز پر ذیادہ دھیان نہ دیں- حراری نے ہی کہا تھا کہ،
“اکیسویں صدی میں مصنوعی ذہانت ایک نیا جال بُن سکتی ہے، جس کا فریب مستقبل کی نسلوں کو یہ جانچنے سے بھی روک سکتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے۔”

تمہاری رائے جاننے کا منتظر رہوں گا۔ خدا تمہیں مصنوعی ذہانت کے فریب سے محفوظ رکھے!

julia rana solicitors london

تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply